Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    منگل، 12 جولائی، 2016

    گیارہویں جہت سے آتی ہوئی گونج کی تلاش

    باب نہم


    غیر معمولی دعووں کے لئے غیر معمولی ثبوتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔



    - کارل ساگاں 



    متوازی کائناتیں، جہتی گزرگاہیں، اضافی جہتیں جتنی بھی شاندار ہوں ، اپنے وجود کو ثابت کرنے کے لئے شہادتوں کی متقاضی ہیں۔ جیسا کہ خلا نورد کین کراس ویل کہتے ہیں، " دوسری کائناتیں مخمور کن ہو سکتی ہیں: آپ ان کے بارے میں کچھ بھی کہہ سکتے ہیں اور کبھی بھی اس وقت تک غلط ثابت نہیں ہوں گے جب تک خلا نورد ان کو دیکھ نہ لیں۔" اپنے پرانے تجرباتی آلات کو دیکھتے ہوئے ماضی میں ایسے اندازوں کو مایوس کن حد ناقابل جانچ سمجھا جاتا تھا۔ بہرصورت کمپیوٹر، لیزر اور سیارچوں کی ٹیکنالوجی میں ہونے والی حالیہ پیش رفت نے ایسے کافی سارے نظریات کو تجرباتی جانچ کے کافی قریب کر دیا۔

    ان نظریات کی براہ راست جانچ تو حد درجے مشکل کام ہوگا لیکن شاید بالواسطہ جانچ ہماری پہنچ میں ہے۔ اکثر اوقات ہم یہ بات بھول جاتے ہیں کہ فلکیات میں زیادہ تر کام بالواسطہ طور پر ہی ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر کسی نے ابھی تک سورج یا کسی ستارے کا دورہ نہیں کیا ، باوجود اس کے ہم ان منور اجسام سے آتی ہوئی روشنی کی بدولت جانتے ہیں کہ یہ ستارے کس چیز سے بنے ہوئے ہیں۔ ستارے کی روشنی کے اندر موجود طیف کو دیکھتے ہوئے ہم نے بالواسطہ طور پر یہ بات جان لی ہے کہ ستارے بنیادی طور پر ہائیڈروجن اورتھوڑی ہیلیئم سے بنے ہیں۔ اسی طرح کسی نے بلیک ہول کو نہیں دیکھا، اور درحقیقت بلیک ہول تو غیر مرئی ہیں اور ان کو براہ راست نہیں دیکھا جا سکتا۔ تاہم ان کے وجود کا بالواسطہ ثبوت تہ دار ٹکیوں کو اور ان مردہ ستاروں کی ضخامت کو دیکھ کر حاصل کیا جاتا ہے۔ ان تمام تجربات میں ہم ستاروں اور بلیک ہولز کی نوعیت کو معلوم کرنے کے لئے ان سے آتی ہوئی "گمگ" یا "گونج" کو دیکھتے ہیں۔ بعینہ ایسے گیارہویں جہت ہماری براہ راست پہنچ سے دور ہے، لیکن کچھ ایسے طریقے ہیں جن کے ذریعہ افراط زدہ دور یا سپر اسٹرنگ نظریئے کو جانچا جا سکتا ہے اس جانچ میں ہمیں نئے انقلابی آلات کا استعمال مدد دے سکتا ہے۔



    جی پی ایس اور اضافیت 



    سب سے سادہ مثال جس میں سیارچوں نے اضافیت میں ہونے والی تحقیق میں انقلاب پربا کر دیا وہ عالمی مقامی نظام ہے جس میں24 سیارچے ہمہ وقت زمین کے گرد مدار میں چکر لگاتے ہوئے انتہائی درستگی و یگانگت کے ساتھ ضربیں خارج کرتے ہیں جو سیارے پر موجود کسی بھی چیز کے محل وقوع کا نہایت درستگی سے نقشہ بنا دیتیں ہیں۔ عالمی مقامی نظام راستوں کے نظام، تجارت یہاں تک کہ جنگوں کی بھی اہم خصوصیت بن چکا ہے۔ کار میں موجود کمپیوٹرائزڈ نقشوں سے لے کر بین البراعظمی میزائلوں تک ہر چیز کا انحصار اشاروں کو ایک سیکنڈ کے 50 اربویں حصّے کے اندر ہم آہنگ کرنے اور زمین پر 15 گز کے اندر موجود کسی بھی شے کو تلاش کرنے کی قابلیت پر ہی ہے۔ لیکن اس ناقابل تصوّر ضمانت دینے کے لئے سائنس دانوں کو نیوٹن کے کشش ثقل کے قانون میں اضافیت کی وجہ سے تھوڑی تصحیحات کرنا ہوں گی جو کہتی ہیں کہ ریڈیائی موجوں کا تعدد ارتعاش اس وقت تھوڑا سے منتقل شدہ ہوگا جب سیارچے بیرونی خلاء میں جائیں گے۔ در حقیقت اگر ہم بیوقوفوں کی طرح اضافیت کی وجہ سے ہونے والی تصحیح کو خاطر میں نہ لائیں تو جی پی ایس گھڑی روزانہ ایک سیکنڈ کے ٤٠ ہزار ارب حصّے کے جتنا آگے ہو جائے گی اور تمام نظام غیر یقینی بن جائے گا۔ اضافیت کا نظریہ اس لئے تجارت اور مسلح افواج کے لئے لازمی ہے۔ طبیعیات دان کلفرڈ ول جنہوں نے ایک مرتبہ یو ایس فضائی فوج کے جنرل کو آئن سٹائن کے نظرئیے کی وجہ سے کی جانے والی جی پی ایس تصحیحات کے بارے میں بتایا تھا انہوں نے ایک مرتبہ کہا کہ وہ جانتے تھے کہ اضافیت کے نظرئیے کو ایک دن اس جگہ پر آنا ہے جہاں پینٹاگون کے سینیئر افسروں کو اس کے بارے میں بتانا پڑے گا۔
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: گیارہویں جہت سے آتی ہوئی گونج کی تلاش Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top