تاریک مادّہ اگر کائنات میں سرایت کرتا ہے تو نہ صرف یہ ٹھنڈی خلاء کی جگہ میں موجود ہوگا بلکہ اس کو آپ کے کمرے میں بھی موجود ہونا چاہئے۔ آج کافی تحقیقاتی ٹیمیں اس جستجو میں لگی ہوئی ہیں کہ دیکھیں کہ تجربہ گاہ میں کون پہلے تاریک مادّے کے ذرّے کو تلاش کرتا ہے۔ کام بہت بڑا ہے جس ٹیم کے سراغ رساں پہلی مرتبہ تاریک مادّے کے ذرّات کا سراغ لگائیں گے وہ دو ہزار برسوں میں پہلی مرتبہ مادّہ کی ایک نئی قسم کی دریافت ہوگی۔
اس تجربے کے پیچھے جو خیال ہے اس میں ایک خالص مادّہ کا بڑا ٹکڑا (جیسا کہ سوڈیم آئیو ڈائٹ ، ایلومینیم آکسائڈ ، فری آن، جرمینیم یا سلیکان ) لینا ہے جن کے ساتھ شاید تاریک مادّہ باہمی عمل کرے گا۔ کبھی کبھار تاریک مادّے کا ذرّہ جوہر کے مرکزے سے ٹکرا کر انحطاطی نمونے کی طرح ظاہر کر سکتا ہے۔ اس انحطاط میں شامل ہونے والے ذرّات کی تصاویر لے کر سائنس دان تاریک مادّہ کے وجود کی تصدیق کر سکتے ہیں۔
تجربات کافی رجائیت پسندانہ ہیں کیونکہ ان کے آلات کی حساسیت ان کو تاریک مادّے کا مشاہدہ کرنے کے لئے بہترین موقع فراہم کرتی ہے۔ ہمارا نظام شمسی ملکی وے کے مرکز میں موجود بلیک ہول کے گرد 220 کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے چکر لگا رہا ہے۔ نتیجتاً ہمارا سیارہ تاریک مادّہ کی کافی بڑی تعداد میں سے گزرتا ہے۔ طبیعیات دانوں کے تخمینہ جات کے مطابق ایک ارب تاریک ذرّات فی مربع میٹر فی سیکنڈ بشمول ہمارے جسموں کے ہماری زمین سے گزرتے ہیں ۔
ہر چند کہ ہم " تاریک مادّے کی ہوا" میں رہتے ہیں جو ہمارے پورے نظام شمسی میں چلتی رہتی ہے ، تاہم تجربہ گاہ میں تاریک ذرّات کا سراغ لگانے کے تجربات انتہائی دشوار گزار ہیں کیونکہ تاریک مادّہ عام مادّے کے ساتھ انتہائی کمزوری کے ساتھ باہمی تعامل کرتا ہے۔ مثال کے طور پر سائنس دان امید کرتے ہیں کہ تاریک مادّے کے واقعات 0.01 سے لے کر 10 واقعات فی برس تک تجربہ گاہ میں رکھے ایک کلوگرام کے مادّہ میں وقوع پذیر ہو سکتے ہیں۔ بالفاظ دیگر آپ کو انتہائی احتیاط کے ساتھ مادّے کی بڑی مقداروں پر کئی برسوں تک نظر رکھنی پڑے گی تاکہ تاریک مادّے کے تصادم کو دیکھ سکیں۔
لہٰذا اب تک کے ہونے والے تجربے برطانیہ کے یو کے ڈی ایم سی میں،کنفرانک ، اسپین کے آر او ایس ای بی یو ڈی میں، رسٹرل فرانس کے سمپل میں، اور ایڈلویس فریجوس ، فرانس میں ، کسی بھی قسم کی کوئی ایسا واقعہ کا سراغ نہیں لگا سکے۔ روم کے باہر ایک تجربہ جس کو ڈ اما کہا گیا تھا اس نے 1999ء میں اس وقت شور شرابہ پیدا کیا جب سائنس دانوں نے تاریک ذرّات کو دیکھا۔ کیونکہ ڈاما 100 کلوگرام سوڈیم آئیو ڈائٹ استعمال کرتا ہے لہٰذا یہ دنیا کا سب سے بڑا سراغ رساں ہے۔ تاہم جب دوسرے سراغ رسانوں نے ڈاما کے نتائج کو حاصل کرنے کے لئے تجربات دہرائے تو ان کو کچھ نہ ملا اور یوں ڈاما کے نتائج پر شکوک و شبہات پیدا ہوئے۔
طبیعیات دان ڈیوڈ بی کلائین کہتے ہیں، " اگر سراغ رساں نے اشاروں کو درج کرکے ان کی تصدیق کردی ہوتی تو یہ اکیسویں صدی کی عظیم دریافتوں میں سے ایک ہوتی۔۔۔۔۔ جدید فلکی طبیعیات کے اس اسرار سے جلد ہی پردہ اٹھ جائے گا۔"
اگر تاریک مادّہ جلد ہی دریافت ہو گیا جیسا کہ اکثر طبیعیات دان اس کی امید کرتے ہیں تو یہ فوق تشاکل (اور ممکنہ طور پر وقت گزرنے کے ساتھ سپر اسٹرنگ نظریئے ) کی تصدیق کے عمل میں معاون ثابت ہوگا۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں