اکیسویں صدی میں سیارچوں کے آلات میں کافی جدت طرازی ہوئی تاہم اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم زمین سے ہونے والی بصری اور ریڈیائی دوربینوں کے ذریعہ تحقیق کو نظر انداز کر دیں۔ حقیقت میں ڈیجیٹل انقلاب نے بصری اور ریڈیائی دوربینوں کے استعمال کے طریقے کو بدل کر رکھ دیا اور ہم اس قابل ہو گئے کہ سینکڑوں ہزارہا کہکشاؤں کا شماریاتی تجزیہ کر سکیں۔ دوربینی ٹیکنالوجی ، ٹیکنالوجی میں ہونے والی یکدم تبدیلی کی وجہ سے ایک نئے دور میں داخل ہو گئی ہے۔
تاریخی طور پر ماہرین فلکیات دنیا کی بڑی دوربینوں پر کام کرنے کے لئے ملنے والے وقت پر لڑتے تھے۔ وہ ان آلات پر ملنے والے قیمتی وقت کی حفاظت کرتے اور پوری رات کئی گھنٹے ٹھنڈ اور بے کیف کمروں میں گزارتے تھے۔ اس طرح کا دقیانوسی مشاہداتی طریقہ بہت ہی ناکارہ ہوتا تھا اور اکثر اس سے ان ماہرین فلکیات کے درمیان کشیدگی پیدا ہو جاتی تھی جو یہ سمجھتے تھے کہ دوربین پر کام کرنے والے کچھ ماہرین فلکیات کی اجارہ داری قائم ہے۔ یہ تمام چیزیں انٹرنیٹ اور تیز رفتار کمپیوٹر کے آنے کے بعد سے تبدیل ہو گئیں۔ آج زیادہ تر دوربینیں مکمل طور پر خود مختار ہیں اور ہزار ہا میل دور مختلف براعظموں میں بیٹھے ہوئے ماہرین فلکیات ان کو اپنے مطابق پروگرام کرنے کے قابل ہیں۔ اس طرح کے زبردست ستاروں کے سروے کو ڈیجیٹلائیز کر کے انٹرنیٹ پر رکھا جا سکتا ہے جہاں طاقت ور فوق کمپیوٹر اعداد و شمار کا تجزیہ کرتے ہیں۔ ڈیجیٹل طریقے کی ایک اچھی مثال سیٹی ایٹ ہوم ہے جو برکلے میں واقع یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کا منصوبہ ہے ۔ اس کا مقصد ماورائے ارضی دانش کا سراغ لگانا ہے۔ آریسبو ریڈیائی دوربین جو پورٹوریکو میں واقع ہے وہ اطلاعات کو چھوٹے ٹکڑوں میں بانٹ کر دنیا بھر میں موجود ذاتی کمپیوٹرز پر شوقیہ افراد کو بذریعہ انٹرنیٹ بھیجتی ہے۔ ایک سافٹ ویئر پروگرام اس وقت اشاروں کا تجزیہ کرتا ہے جب کمپیوٹر پر فارغ ہوتا ہے۔ اس طریقہ کا استعمال کرکے گروپ نے دنیا کا سب سے بڑا کمپیوٹر جال بنا لیا ہے جس میں دنیا کے ہر خطے کے لگ بھگ ٥٠ لاکھ کمپیوٹر جڑے ہوئے ہیں۔
کائنات کے کھوج کی آج کی سب سے نمایاں ڈیجیٹل مثال سلون اسکائی سروے ہے جو رات کے آسمان کا اب تک ہونے والا سب سے بلند حوصلہ سروے ہے ۔ پہلے کے پالومار اسکائی سروے کی طرح جو ضخیم اطلاعات کو پرانے طریقے کی ضیائی پلیٹوں کا استعمال کرتے ہوئے ذخیرہ کرتا تھا، سلون اسکائی سروے آسمان کے فلکی اجسام کا ایک درست نقشہ بنائے گا۔ سروے دور دراز کی کہکشاؤں کا ایک سہ جہتی پنچ رنگی نقشہ بنائے گا جس میں دس لاکھ سے زیادہ کہکشاؤں کی سرخ منتقلی بھی شامل ہوگی۔ سلون اسکائی سروے کا نتیجہ کائنات کی بڑی ساختوں کے نقشے کی صورت میں حاصل ہوگا جو پرانی کوششوں کے مقابلے میں کئی سو گنا زیادہ بڑا ہے۔ یہ آسمان کے چوتھائی حصّے کے نقشے کو کافی مفصل انداز میں مرتب کر لے گا ساتھ ساتھ یہ دس کروڑ فلکی اجسام اور ایک لاکھ کوزار کا محل وقوع کا بھی تعین کرے گا۔ اس سروے سے حاصل ہونے والی کل معلومات 15ٹیرا بائٹ ہوگی یہ اطلاعات کا وہ بھنڈار ہے جس کا مقابلہ صرف لائبریری آف کانگریس ہی کر سکتی ہے۔
سلون اسکائی سروے کا دل 2.5 میٹر دوربین ہے جو جنوبی نیو میکسیکو میں واقع ہے اس میں اب تک کے سب سے جدید کیمرے لگے ہوئے ہیں۔ اس میں تیس نازک برقی روشنی حساسئے لگے ہوئے ہیں جن کو سی سی ڈی (بار والے جوڑی دار آلات ) کہتے ہیں ان میں سے ہر ایک ٢ مربع انچ کا ہوتا ہے جس کو خلائی جگہ میں بند کیا ہوتا ہے۔ ہر حساسئے کو منفی 80 سینٹی گریڈ پر مائع نائٹروجن کی مدد سے ٹھنڈا رکھا جاتا ہے اس میں ہر ایک میں 40 لاکھ تصویری عناصر موجود ہوتے ہیں۔ دوربین میں جمع ہوتی تمام روشنی فی الفور ہی سی سی ڈی کے ذریعہ ڈیجیٹلائیز ہو جاتی ہے اور براہ راست کمپیوٹر پر عمل کاری کے لئے منتقل ہو جاتی ہے۔ صرف 2 کروڑ ڈالر سے بھی کم لاگت سے یہ سروے کائنات کی ایک مبہوت کر دینے والی تصویر پیش کرتا ہے اس کی لاگت ہبل خلائی دوربین کے مقابلے میں سو گنا کم ہے۔
یہ سروے پھر کچھ ڈیجیٹلائیز اطلاعات کو انٹرنیٹ پر شایع کرتا ہے جہاں تمام دنیا کے ماہرین فلکیات اس کے مطالعہ میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ اس طرح سے ہم دنیا کے سائنس دانوں کی ذہانت کا استعمال نہایت اچھے طریقے سے کر لیتے ہیں۔ ماضی میں تیسری دنیا کے لوگ تازہ ترین دوربینی اطلاعات اور تازہ سائنسی جریدوں تک رسائی نہیں رکھ سکتے تھے۔ جس کی وجہ سے وہاں موجود لوگوں کی سائنسی فطانت ضائع ہو رہی تھی۔ اب انٹرنیٹ کی وجہ سے وہ آسمانی سروے کے اعداد و شمار حاصل کر سکتے ہیں ساتھ ساتھ وہ انٹرنیٹ پر چھپنے والے مضامین بھی پڑھ سکتے ہیں بلکہ اپنے مضامین کو بھی انٹرنیٹ پر روشنی کی رفتار سے شایع کر سکتے ہیں۔
سینکڑوں ہزارہا کہکشاؤں کے تجزیے سے حاصل کردہ نتائج جو چند برس پہلے تک حاصل کرنا ممکن نہ تھے اب حاصل کرنا ممکن ہو گئے تھے ،سلون اسکائی سروے نے فلکیات میں کام کرنے کے طریقے کو بدل دیا ہے۔ مثال کے طور پر مئی 2003ء میں اسپین ، جرمنی، اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے سائنس دانوں کی ایک ٹیم نے اس بات کا اعلان کیا کہ انہوں نے 250 لاکھ کہکشاؤں کا تجزیہ تاریک مادّے کے ثبوت کو حاصل کرنے کے لئے کیا۔ اس بڑے عدد میں سے انہوں نے تین ہزار ایسی کہکشاؤں پر اپنی توجہ مرکوز رکھی جہاں ستاروں کے جھرمٹ ان کے گرد چکر لگا رہے تھے۔ ان سیارچوں کی حرکت کا نیوٹن کے قانون حرکت کی مدد سے تجزیہ کرنے کے بعد انہوں نے تاریک مادّے کی مقدار کا حساب لگایا جس کو لازمی طور پر مرکزی کہکشاں کے گرد ہونا چاہئے تھا۔ اس سے پیش تر یہ سائنس دان مخالف نظریے کو رد کر چکے تھے۔ (ایک متبادل نظریہ جس کو پہلی مرتبہ 1983ء میں پیش کیا گیا تھا اس میں کہکشاؤں میں موجود ستاروں کے مداروں میں ہونے والی غیر معمولی تبدیلی کو نیوٹن کے قوانین میں تبدیلی کرکے بیان کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ شاید تاریک مادّہ حقیقت میں وجود ہی نہیں رکھتا ہو بلکہ یہ سب صرف نیوٹن کے قانون میں موجود کسی غلطی کا شاخسانہ ہو۔ سروے سے حاصل کردہ اطلاعات نے اس نظریے پر شبہات ڈال دیئے۔)
جولائی 2003ء میں جرمنی اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی ایک اور سائنس دانوں کی ٹیم نے اعلان کیا کہ انہوں نے 120 ہزار قریبی کہکشاؤں کا تجزیہ سلون اسکائی سروے کو استعمال کرتے ہوئے کیا تاکہ ان میں موجود بلیک ہولز کا تعلق ان سے بیان کیا جا سکے۔ سوال یہ ہے کہ کون پہلے آیا، بلیک ہول یا وہ کہکشاں جس میں وہ رہتے ہیں؟ اس تجزیہ نے اس جانب اشارہ کیا کہ کہکشاں اور بلیک ہول کی پیدائش میں بہت ہی گہرا تعلق ہے اور شاید یہ دونوں ایک ساتھ ہی پیدا ہوتے ہیں۔ ان ایک لاکھ بیس ہزار کہکشاؤں میں سے 20 ہزار کہکشائیں ایسی ہیں جن کے بلیک ہولز اب بھی نشو نما پا رہے ہیں (ملکی وے کہکشاں کے برعکس جس کا بلیک ہول کافی خاموش لگتا ہے)۔ نتائج نے بتایا کہ ان کہکشاؤں میں جن کے بلیک ہولز اب بھی بڑھتے جا رہے ہیں وہ ملکی وے کہکشاں سے کہیں زیادہ بڑے ہیں اور وہ کہکشاں کی ٹھنڈی گیس کو ہضم کرکے بڑھ رہے ہیں۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں