ہم جس کائنات میں رہتے ہیں یہ بہت ہی بڑی اور لگ بھگ خالی ہے۔ ہمارے سورج کی طرح روشن ستارے ایک گروہ میں رہتے ہیں جس کو کہکشاں کہتے ہیں اس میں ایک کھرب (دس لاکھ دس لاکھ) ستارے تک موجود ہو سکتے ہیں۔ ستارے آپس میں ایک دوسرے سے کس قدر دور ہیں اس کے بارے میں کچھ معلومات تو رات کے تاریک آسمان کو دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے، جب اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ اس روشنی کا ہر نقطہ جو ہم دیکھتے ہیں وہ ایک ستارہ ہے، اور ان میں سے ہر ستارہ لگ بھگ اتنا ہی روشن ہے جتنا کہ ہمارا اپنا سورج۔ جب ہم تاریک ترین رات میں جس میں چاند بھی نہ ہو شہر کی روشنیوں سے دور آسمان کو دیکھتے ہیں تو اس وقت بھی ہم ننگی آنکھ سے دو ہزار سے زیادہ ستاروں کو نہیں دیکھ سکتے۔ روشنی کی وہ مدھم پٹی جس کو ہم ملکی وے کہتے ہیں یہ خلاء میں ہمارے جزیرے کے باقی نشان ہیں، کروڑوں ستاروں کی روشنی مل کر بھی اس قدر مدھم اور دور ہے کہ ان کو الگ سے بغیر دوربین کی مدد سے نہیں دیکھا جا سکتا۔
ان تمام باتوں کے باوجود ستاروں کی ملکی وے کہکشاں بھی بذات خود خلاء میں ایک جزیرے کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے، کائناتی منظر میں اس کی حیثیت فقط ایک نقطے جیسی ہے۔ جس طرح سے ہماری کہکشاں میں کھربوں ستارے موجود ہیں، اسی طرح سے خلاء میں دوسری کروڑوں کہکشائیں، پوری کائنات میں پھیلی ہوئی ہیں، اور یہ ایک دوسرے سے ملکی وے کے حجم کی نسبت سینکڑوں یا ہزار ہا گنا زیادہ فاصلے پر ہیں۔
قدرت اور پوری کائنات کے ارتقاء کا مشاہدہ کرنے والے ایک عالم تکوینیات کے لئے ایک کہکشاں کی اہمیت کچھ خاص زیادہ نہیں ہوتی۔ ایک انسان کے لئے جو ایک ایسے چھوٹے سیارے پر رہتا ہے جو ایک معمولی ستارے کے گرد اوسط قسم کی کہکشاں میں دور افتادہ علاقے میں چکر لگا رہا ہے، ایک کہکشاں - ہماری ملکی وے - ہی وہ سب سے بڑی چیز ہے جس کے بارے میں ہم اپنے علم سے ادراک حاصل کر سکتے ہیں، اور بڑی چیزوں میں نظر آنے والی چیز میں میں سے یہ ایک ہے۔
کائنات کے بارے میں سب سے بہترین اور جدید فہم بتاتا ہے کہ یہ بگ بینگ کی تخلیق میں آگ میں آج سے کچھ پندرہ ارب برس پہلے پیدا ہوئی ہے۔ ماہرین تکوینیات اب بیان کر سکتے ہیں کہ کس طرح سے کائنات فوق گرم، فوق کثیف آگ کی گیند سے ایک دوسرے سے وسیع خلاء کے فاصلوں والی جزیرہ نما کہکشاؤں کے ساتھ اس حالت میں وجود میں آئی جس حالت میں ہم اسے آج دیکھتے ہیں۔ وہ کم از کم بتا سکتے ہیں کہ بگ بینگ خود سے کیسے اور کیوں واقع ہوا اور اس کے لئے وہ اسٹیفن ہاکنگ جیسے محققین کے شکر گزار ہیں۔ اور وہ کم از کم کائنات کے حتمی مقدر کے خاکے کے بارے میں ہماری رہنمائی کر سکتے ہیں۔
پوری کائنات اور ہر وہ چیز جو موجود ہے اور جس کا ہمیں علم ہے اس کے ماخذ اور مقدر کے بارے میں ہماری تفہیم حاصل کرنا ہی اس کتاب کا موضوع بحث ہے۔ تاہم یہ تفہیم اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتی تھی جب تک اس بات کی دریافت نہ ہوتی کہ ہماری ملکی وے دسیوں لاکھوں کہکشاؤں میں سے صرف ایک عام سی کہکشاں ہے۔ ہماری کائنات کے ماخذ کے بارے میں تفہیم کی سائنسی تلاش - بگ بینگ کی تلاش- حقیقت میں اس وقت شروع ہوئی جب ہماری ملکی وے سے دور کہکشائیں پہلی مرتبہ واضح طور پر ہماری کہکشاں کے ستاروں کے مجموعہ کے مقابلے میں دریافت ہوئیں۔ اور یہ پائیدار شناخت صرف 1920ءکی دہائی میں ہی ہوئی۔
علم کائنات اصل میں بیسویں صدی کی ہی سائنس ہے۔ تاہم بیسویں صدی کی تمام سائنس کی طرح اس کی جڑیں قدرتی فلسفیوں اور پرانے مابعد طبیعیات دانوں کی پیشن گوئیوں تک جاتی ہیں۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں