سترہویں صدی کی ابتداء میں، گیلیلیو کی انقلابی دریافتوں کے ایک سو سال بعد، یہ بات وسیع پیمانے پر فلسفیوں میں تسلیم کی جانے لگی کہ ستارے لازمی طور پر دور دراز کے اجسام ہیں جو اس وجہ سے (چاند کی طرح) نہیں چمکتے کہ سورج کی روشنی کو منعکس کریں بلکہ سورج کی طرح اپنی روشنی سے چمکتے ہیں۔ کیونکہ دوربینوں سے یہ نہیں دیکھا جا سکتا کہ ستارے قرص کی طرح سے ہیں لہٰذا حقیقت بات یہ ہے کہ وہ لازمی طور پر بہت ہی زیادہ دور ہوں گے۔ رائٹ کے ہم عصروں میں اگرچہ تمام نے تو نہیں تاہم اکثریت نے یہ دلیل دی کہ کیونکہ وہ روشن ترین جسم جس کو ہم جانتے ہیں وہ سورج ہے، لہٰذا اسی مناسبت سے سب سے بہتر خیال جو ہم ستاروں کے بارے میں لگا سکتے ہیں وہ یہ کہ یہ مقابلتاً روشن جسم ہیں اور ہم سے مناسب دور فاصلے پر موجود ہیں۔ کچھ نے اندازہ لگایا کہ بظاہر آسمان پر ستاروں کے نمونے کا اٹکل پچو ہونا ہماری وجہ سے ہے یہ ایک ایسے نظام کے اندر پیوستہ ہیں جس کا نمونہ اور ساخت صرف باہر ہی سے دیکھی جا سکتی ہے - جس طرح سے جنگل کی صورت ہوتی ہے جو اس شخص سے چھپی ہوتی ہے جو اس کے اندر موجود ہوتا ہے، اور جو درختوں کی تقسیم کو اٹکل پچو ہر سمت میں دیکھتا ہے۔
ابتدائی کام میں، مائیکل ہوسکن ایک اصلی نظرئیے کے 1971ء کے نسخے کے تعارف میں بیان کرتے ہیں، رائٹ نے کائنات (جیسا کہ اب ہم اس کو کہتے ہیں ) کو ایک کرے یا ستاروں سے بھری گیند جیسا سمجھا، اور سمجھایا کہ کس طرح سے ان ستاروں میں سے کسی ایک کے گرد چکر لگاتی ہوئی زمین پر بیٹھا ہوا شاہد قریبی ستاروں کو روشن اور صاف دیکھے گا، جبکہ دوسرے اتنے دور اور مدھم ہوں گے کہ دوربین کے بغیر نظر نہیں آئیں گے، اس کے باوجود کچھ فاصلے پر موجود ستارے اتنے مدھم ہوں گے کہ وہ آسمان کا چکر لگاتے ہوئے روشنی کی پٹی سی لگیں گے۔ یہ تفصیل ملکی وے پر لاگو ہونا شروع ہو گئی، بجز اس کے کہ رائٹ نے اگرچہ پہلے تو نہیں تاہم بعد میں اس بات کا اندازہ لگا لیا تھا کہ اگر ہمارے ارد گرد تمام اطراف میں ستاروں کی برابر تقسیم ہوتی تب پورے آسمان کو اس طرح چمکنا ہوتا جس طرح سے ملکی وے کی پٹی چمکتی ہے۔ 1750ء تک، ایک اصلی نظرئیے میں رائٹ نے یہ وجہ تلاش کر لی تھی کہ آیا کیوں ملکی وے آسمان پر ایک پٹی کی طرح لگتی ہے۔ ہمیں تصور کرنا ہو گا، وہ کہتا ہے، ' تمام ستارے ایک ہی سمت میں حرکت کر رہے ہیں، اور ایک سطح سے زیادہ انحراف نہیں کر رہے، بعینہ جیسے مہر آفتاب حرکت میں سیارے شمسی جسم کے گرد کرتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں، ہمارا سورج ایک چپٹی قرص کا ایک ستارہ ہے جو ستاروں کی ایک عظیم بھیڑ ہے یہ کوئی خلاء کا کروی جسم نہیں ہے۔ جب ہم قرص کے ساتھ اس مرکز کے طرف دیکھتے ہیں جہاں تمام ستارے چکر لگاتے ہیں، تو وہاں ہم ستاروں کی بہتات کو دیکھتے ہیں جو مل کر وہ روشنی کی پٹی بناتے ہیں جس کو ہم ملکی وے کہتے ہیں۔ تاہم جب ہم اس مہین قرص کے نیچے یا اوپر خلائے بسیط میں دیکھتے ہیں تو ہم صرف چند قریبی ستاروں کو دیکھ سکتے ہیں اور کوئی روشنی کی پٹی نظر نہیں آتی کیونکہ وہاں پر بہت زیادہ ستارے دیکھنے لائق موجود نہیں ہیں۔ حقیقت میں، رائٹ کا ستاروں کے نظام کا تصور کافی حد تک زحل کے حلقوں جیسا تھا، جس میں بجائے ٹھوس قرص کے مرکزی جوف ہے۔ اور ایمانداری کی بات ہے، اس کی ملکی وے کی ماہیت سے متعلق اندازہ لگانے کی وجہ وہ نہیں ہے جس کی وجہ سے وہ سائنس و فلسفے میں اپنے اہم ترین کام کی وجہ سے جانا جائے، کیونکہ اس کی اصل دلچسپی ان موضوعات میں تھی جو آج بنیادی طور پر مذہب کا علاقہ سمجھے جاتے ہیں۔ بے شک، جو رائٹ کی گہری بصیرت لگتی ہے اس کو ایک طرف کر دیں، کیونکہ اس نے اپنی کتاب کے آخر میں خلاصہ پیش کیا اس نے ہر چیز اٹھا کر پھینک دی۔ ملکی وے کی ظاہری صورت کی تشریح کرنے میں وہ اس جگہ چلا گیا جو خلاء کے اس جزیرے سے باہر موجود ہو سکتی تھی۔ جس کو ہم اب کہکشاں کہتے ہیں رائٹ اس کو کائنات یا تخلیق کہتا تھا، اور اس نے تمام ستاروں کے بارے میں تصور کیا کہ وہ اپنے نظام ہائے سیارگان کے ساتھ موجود ہوں گے، فلکیاتی نظام جس طرح ہمارا نظام شمسی ہے۔ 'جیسا کہ نظر آنے والی تخلیق نظام ہائے سیارگان اور سیاروں کی دنیا سے لبریز فرض کی گئی ہے '، وہ لکھتا ہے، 'بعینہ اسی طرح نہ ختم ہونے والی عظمت معلوم کائنات سے الگ لامحدود تخلیق کی بھری مجلس ہے۔ ' دوسرے الفاظ میں، رائٹ نے خلاء کی عظمت کا تصور اس طرح سے لگایا کہ ہماری ملکی وے کہکشاں سے دور خلاء میں دوسری کہکشائیں بھی موجود ہیں۔ بلکہ اس نے تو یہاں تک تجویز کیا کہ آسمان پر مدھم روشنی کے پیوند، جو سحابیہ کہلاتے ہیں، اور دوربین کی مدد سے نظر آتے ہیں ان کو ستارے نہیں کہا جا سکتا، 'خارجی تخلیقات [کہکشائیں ]، جانی پہچانی کہکشاں کی سرحد کے پاس، اتنے دور ہو سکتی ہیں کہ ہماری دوربینوں کی بھی رسانی اس تک نہ ہو سکے۔ '
ان الفاظ کے ساتھ، رائٹ نے ہماری کہکشانی اور کائنات کی ماہیت سے متعلق سمجھ بوجھ کی ابتداء کی، اور ایک ایسی چنگاری لگائی جو بتدریج شعلے میں بدلتی گئی، ابتداء میں اگرچہ فلسفی ایمانیول کانٹ اور فلکیات دان ولیم ہرشل کے کام نے بھی اس آگ کو جلانے میں مدد دی۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں