بدقسمتی سے ہرشل کا جزیرہ نما کائنات کے مفروضے سے متعلق کافی کام اس کی زندگی میں ہی اس وقت برباد ہو گیا جب اس نے پایا کہ خلاء میں کچھ بادل، کچھ سحابئے اس کی بہترین دوربینوں کے ذریعہ دیکھنے کے بعد بھی ستاروں پر مشتمل نہیں ہیں۔ اس کی وجہ سے اس مخالف نظریئے کا بول بالا ہوا جو کہتا تھا کہ سحابئے اصل میں مادّے کے وہ بادل ہیں جو اپنی روشنی سے تابندہ ہوتے ہیں۔ اس نے دیکھا کہ ان میں سے کچھ سحابیوں کا تعلق انفرادی ستاروں سے ہے، ایک مرکزی ستارے کے گرد روشن سحابیہ موجود ہے، اور اس کی وجہ سے وہ تصور اور راسخ ہو گیا کہ سحابیہ نظام ہائے سیارگان بنانے میں مصروف ہیں، ستارے اور سیارے منہدم ہوتی گیس کے کثیف ہونے سے بنتے ہیں۔ ہرشل کی زبردست عزت کی وجہ سے اس تصور نے ابتدائی انیسویں صدی میں کافی مقبولیت حاصل کی؛ اور کیونکہ یہ نظریہ سحابیوں کے تصور بطور ستاروں کی جزیرہ نما کائنات کا مخالف سمجھا جاتا تھا، یہ نظریہ رو بہ زوال ہو گیا۔ فلکیات دانوں کو یہ سمجھنے میں مزید سو برس لگ گئے کہ اصل میں دو قسم کے سحابئے ہوتے ہیں، ان میں سے ایک قسم ہماری ملکی وے کے نظام کے اندر ہی چمکتی ہے، اور دوسری جزیرہ نما کائناتیں ہیں، دوسری کہکشائیں، جو ملکی وے کہکشاں سے بہت ہی زیادہ دور ہیں۔
بڑی دوربینوں اور نئی فلکیاتی فنیات نے انیسویں صدی کے دوسرے نصف میں صحیح صورتحال کو واضح کرنا شروع کر دیا۔ ولیم پارسنز ، روسے کا تیسرا نواب، ایک آئرش سیاست دان، انجنیئر اور فلکیات دان بھی تھا جو 1800ء میں پیدا ہوا، جہاں ہرشل نے سحابیوں کے مشاہدہ کو چھوڑا تھا وہاں سے اس کے کام کو آگے بڑھانے کا جوش و جذبہ اس میں تھا۔ کیونکہ ہرشل نے کسی قسم کا ایسا مواد نہیں چھوڑا تھا کہ اس نے اپنی دوربین کو کس طرح سے بنایا تھا، روسے کو اپنے لئے زیادہ تر بڑے آئینوں کو چمکنے اور ٹھیک کرنے کی فنیات کو دوبارہ سے ایجاد کرنا پڑا، تاہم اس کی جدوجہد چار ٹن وزنی دوربین کی صورت میں منتج ہوئی، جس میں اہم آئینہ بہتر انچ پر محیط تھا اور ایک پچاس فٹ سے بھی زیادہ لمبی سرنگ میں رکھا ہوا تھا، اس کو زنجیروں اور چرخیوں کے نظام سے دو ستونوں کے درمیان سہارا دیا ہوا تھا۔ اس شاندار آلے کے ساتھ، جس کا نام 'کارکس ٹاؤن کا عفریت' رکھا گیا، روسے اور اس کے ماتحتوں نے 1848ء تک پچاس سحابیوں کو ستاروں میں شناخت کیا، اور اس نے دیکھا کہ اس میں سے کچھ مرغولہ نما صورت کی خاصیت رکھتے ہیں، جس طرح سے بھنور کو اوپر سے دیکھا جائے۔ ان دریافتوں نے شدت کے ساتھ جزیرہ نما کائناتوں کے تصوّر کو زندہ کر دیا۔ کچھ برسوں کے بعد پہلا ٹھوس ثبوت آیا کہ سحابیہ دو اقسام کے ہوتے ہیں۔
ولیم ہگنز جو ایک برطانوی فلکیات دان تھا اور 1824ء میں پیدا ہوا تھا وہ فلکیات میں طیف بینی کا استعمال کرنے والے اوّلین اشخاص میں سے ایک تھا۔ طیف پیما ایک ایسا آلہ ہے جو جانچ کے لئے روشنی کو اس کے رنگوں کے اجزاء میں الگ کر دیتا ہے، جس طرح قوس و قزح روشنی کو مختلف طول موج میں پھیلا تی ہے۔ جس طرح سے قوس و قزح کے مختلف رنگ، جیسا کہ طیفی خصائص روشن یا تاریک خطوط کے نمونوں کو دکھاتے ہیں، بعینہ اسی طرح طیف میں مخصوص طول موج بیان کرتے ہیں۔ یہ طیفی خطوط مادّے میں مخصوص عناصر کی موجودگی کی وجہ سے اس وقت بنتے ہیں جب روشنی اس سے گزرتی ہے - مثال کے طور پر سڑک پر لگی ہوئی زرد روشنیاں سوڈیم عنصر سے تعلق رکھنے والے بہت ہی روشن جوڑے بناتی ہے۔ کوئی بھی دوسرا عنصر اس طرح کی ملتے جلتے خطوط طیف میں اسی جگہ نہیں پیدا کر سکتے۔ طیف بینی سورج اور ستاروں میں موجود عناصر کی شناخت کا طریقہ دیتی ہے، مختلف سماوی اجسام سے مختلف طیفی خطوط حاصل کر کے ان کی شناخت کی جاتی ہے۔ ہگنز نے 1860ء کے عشرے میں گستاف کرچوف اور رابرٹ بنسن کے کام کے بعد ان خطوط پر تحقیق شروع کی، جنہوں نے سورج کی طیف بینی پر تحقیق 1850ء کی دہائی کے اواخر میں کی تھی۔ ایک کیمیسٹ دوست ڈبلیو اے ملر کے ساتھ مل کر، ہگنز نے دکھایا کہ ستاروں کی روشنی میں ویسے ہی طیفی خطوط ہوتے ہے جیسے کہ سورج کی روشنی میں ہوتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں ستارے بحیثیت مجموعی وہی کیمیائی عناصر کا آمیزہ رکھتے ہیں جیسا کہ سورج رکھتا ہے۔
جب ہگنز نے اپنی توجہ سحابیہ پر دی تو اس نے مختلف نمونہ دیکھا۔ کچھ سحابئے جیسا کہ ایک مجمع الکواکب جوزا میں ہے یا وہ جسے اس کی صورت سے سرطان سحابیہ کے نام سے جانا جاتا ہے، ایک ایسی روشنی سے دمکتا ہے جس کے خطوط کے نمونے اس معیار کے مطابق نہیں تھے۔ اس کے بجائے ان سحابیوں سے نکلنے والی روشنی طیف پیما میں ایسی دکھائی تھی جیسے روشنی گرم گیس کے روشن بادلوں سے نکل رہی ہو۔ صرف بعد میں کی جانے والی اسی طرح کے تحقیق میں معلوم ہوا کہ دوسرے سحابئے بشمول مرغولہ نما کے حقیقت میں ایسی روشنی طیفی خطوط کے ساتھ پیدا کرتے ہیں جس طرح سے سورج کی روشنی میں ہوتے ہیں۔
پہیلی کے ٹکڑے میز پر جمع ہونے شروع ہو گئے تھے، تاہم وہ سب اپنی جگہوں پر نہیں لگے تھے۔ کانٹ کا تصور جو ایک صدی سے زیادہ پرانا تھا بہرحال اب آرام داہ کرسی پر بیٹھے سائنس دانوں کو زیادہ خوش نہیں کر سکتا تھا۔ یہ گیسی سحابیہ واضح طور پر ملکی وے کا حصہ تھے، اور دیگر سحابیہ ستاروں سے بنے تھے وہ بھی ملکی وے کا حصّہ ہو سکتے تھے، چھوٹے ستاروں کے نظام، یا وہ ستارے جو بننے کے عمل سے گزر رہے ہوں، وہ پوری کہکشائیں ہماری اپنی ملکی وے جیسے نہیں ہو سکتے تھے۔ اور سب چھوڑیں یہ بتائیں کہ ملکی وے کس قدر بڑی ہے ؟ انیسویں صدی کے آخر میں، ملکی وے نظام کا پیمانہ خود سے قریب قریب ہی معلوم تھا، جزوی طور پر اندازہ اس طرح لگایا گیا تھا کہ ستارے مدھم نظر آنے کے لئے کس قدر دور ہو سکتے ہیں۔ رائے اس حق میں تھی کہ ملکی وے ہی کائنات تھی، اگرچہ یہ چپٹی، قرص کی صورت والی ساخت جس طرح کانٹ نے تجویز کی تھی ویسی ہی لگتی تھی۔ سورج اور نظام شمسی فلکیات دانوں کے مطابق قرص کے مرکز میں کہیں تھا، اور مرغولہ نما اور بیضوی سحابیوں کو وہ لوگ جو ان کے بارے میں کافی غور و خوض کرتے تھے ملکی وے کا ہی حصّہ سمجھتے تھے۔ ایک سو برس سے کچھ تھوڑے سے زائد عرصے تک فلکیات دان درحقیقت کائنات کا مشاہدہ بحیثیت مجموعی کر رہے تھے اگرچہ وہ اس بارے میں کچھ زیادہ یقین نہیں رکھتے تھے۔ سحابئے جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ کائنات کی بنیادی اینٹیں ہوتی ہیں۔ تاہم ان کی حقیقی ماہیت جاننے کے لئے صرف مشاہدہ کرنے سے زیادہ قدم اٹھانا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ حقیقی طور پر اس بات کی اہمیت کو سمجھیں کہ اصل میں وہ کس چیز کا مشاہدہ کر رہے ہیں فلکیات دانوں کو اب کائنات کی پیمائش کرنی تھی، تاکہ ملکی وے اور اس سے آگے فاصلوں کے پیمانے سے نپٹ سکیں۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں