حصّہ دوم - حیات کا ماخذ
باب یازدہم
وقت کا سفر
کائنات نوخیز ، حیات نوخیز تر ہے۔
ہماری کہانی میں وقت کے سفر کو سمجھنا بہت ضروری ہے تاکہ حیات کو کائنات کے پس منظر میں سمجھا جا سکے۔
جہاں میں کام کرتا ہوں اس کی عمارت کے برابر میں ہارورڈ کالج رصد گاہ واقع ہے جو ١٨٣٩ء میں تعمیر ہوئی تھی۔ یہ ہارورڈ صحن کے اوپر پہاڑی کی چوٹی پر واقع ہے۔ یہاں سے پہاڑی بمشکل نظر آتی ہے۔ اس کے چہار اطراف میں اونچے درخت اور عمارتیں موجود ہیں۔ بننے کے وقت سے لے کر اب تک کافی چیزیں ،آبادی ، ترقی، عمارتوں اور ارضی منظروں کی وجہ سے بدل چکیں ہیں۔ لیکن ان تمام باتوں کے باوجود جو چیز نہیں بدلی ہے وہ پہاڑی کی قدیمی گرینائیٹ کی چٹانیں ہیں۔
خوش قسمتی سے ہمارے سیارے پر موجود ٹیکٹونک سرگرمی نے اصل میں ان چٹانوں کو جب سے یہ رصد گاہ میسا چوسٹس کی باقی چیزوں اور پورے شمالی امریکہ کے ساتھ بنی ہے، مغرب میں 3.2 میٹر تک (میرے کار کی لمبائی جتنا) دھکا دیا ہے۔ اس حرکت کے بارے میں عام طور پر ہم نہیں جانتے ہیں۔
براعظم اس شرح سے حرکت کرتے ہوئے مکمل طور پر بیس کروڑ سال میں از سر نو ترتیب پا سکتے ہیں۔ مزید براں ہم اس حرکت کی آزاد ذرائع سے حاصل ہونے والے ثبوتوں سے بھی تصدیق کر سکتے ہیں ۔ یہ ثبوت ہمیں دنیا میں موجود چٹانوں کی پرتوں کی جانچ سے حاصل ہوتے ہیں۔ یہ ہمہ وقت بدلتے سیارہ زمین کے ارضیاتی نقشے براعظموں کی از سرنو ترتیب کے چکر کے ساتھ بناتے ہیں۔
میں جب بظاہر اس غیر متغیر امر واقعہ کو دیکھتا ہوں مثال کے طور پر زمین کے پہاڑوں کی ارضیات کو - تو میں کوشش کرتا ہوں کہ اپنے دماغ میں یہ بات ڈال سکوں کہ میں ایک ایسی مخلوق بن گیا ہوں جو ارب ہا برس سے زندہ رہ رہی ہے۔ ان کے دل کی ایک دھڑکن ہمارے ایک ہزار برس کے برابر ہے جبکہ ان کا ایک منٹ ہمارے اسی ہزار برس کے برابر ہوگا۔ میں زمین سے اوپر ارضی ساکن مدار میں محو گردش موسمی سیارچوں میں معلق ہوں۔ مجھے زمین کیسی دکھائی دے رہی ہے ؟ جب میں دیکھتا ہوں تو براعظم مکمل طور پر از سر نو ترتیب پائے ہوئے نظر آتے ہیں - بڑے چھوٹوں میں بٹ گئے ، اور ایک دوسرے سے بہہ کر دور جا رہے ہیں اور اس چکر میں ایک دوسرے سے شائستگی کے ساتھ ٹکرا کر ضم ہوتے ہوئے پہاڑوں کی صورت میں نمودار ہو رہے ہیں، تہ ہور ہے ہیں اور اس عمل میں کٹ پھٹ بھی رہے ہیں۔ میرے ان نئی آنکھوں کے سامنے نیا سیارہ اب ٹھوس اور غیر متغیر نہیں رہا بلکہ ایک بہتا ہوا اور متحرک بن گیا جس طرح سے چولہے پر کوئی برتن رکھ کر گرم کیا جاتا ہے۔
ایسا کوئی بھی منظر وقت کے سفر میں اتنا زیادہ دلفریب نہیں ہوگا۔ ایک پتنگا بن کر سوچیں جس کی حیات صرف ایک دن کی ہی ہے۔ ممکن ہے اس کی نظر میں ہری بھری چراگاہ اور سبز جنگل ابدی ہو۔ جب بات سیارہ ارض کے چکر کی آتی ہے تو ہم انسان اس پتنگے کی طرح پتیوں کو ہوا میں گرتا ہوا دیکھتے ہیں تاہم موسم کے گزرنے کا احساس نہیں کرتے۔ زمین پر حیات چار ارب سال پہلے سے موجود ہے اور ارضیاتی" موسموں "اور سیاروی تقلب کے تابع ہے۔
اگر ہم حیات کی تاریخ کے بارے میں اپنے وقت کے پیمانے کے بجائے حیات کے وقت کے پیمانے پر سوچیں تو اہم عوامل سامنے ابھر کر آئیں گے۔ مثال کے طور پر حیات زمین پر پچھلے چار ارب سال سے موجود اور نشو نما پا رہی ہے ۔ حیات کی اس عمر کا کائنات کی لگ بھگ ١٤ ارب سال کی عمر سے موازنہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ ایک بہت ہی اہم حقیقت ہے جس کو سائنس دان "غیر معمولی حقیقت "کہتے ہیں۔ اس سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ حیات کی نمو اور ارتقاء سیاروی، ستاروی یہاں تک کہ کہکشانی نظام کی تشکیل و ارتقاء کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ کئی طریقوں سے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کہ حیات کی ارتقاء کا عمل ایک "عام " کائناتی عمل ہو۔
دوسری طرف ہم یہ بات بنی نوع انسان کے لئے نہیں کہہ سکتے کیونکہ وقت کا پیمانہ دونوں کے لئے ایک جیسا نہیں ہے۔ سب سے قدیم انسانی باقیات صرف بیس لاکھ سال پہلے کی ہیں۔ انسان کو جس چیز نے مختلف بنایا ہے وہ ہے زبان اور ٹیکنالوجی جو دونوں حال ہی میں شاید صرف چالیس ہزار برس پہلے ہی نمودار ہوئی ہیں۔
انسان اور کائناتی وقت کے پیمانے پر موجود تفاوت بہت ہی زیادہ ہے۔ جبکہ حیات کی تاریخ اور انسانی تاریخ میں ایک اور ایک لاکھ کی نسبت ہے۔ اس نسبت کی بھی اپنی انتہائی اہمیت ہے۔ یہ دو باتوں کی جانب اشارہ کرتی ہے : (١) یا تو بہت ہی مختصر عمل (انسانی سماج کا ارتقاء ) بہت ہی طویل عمل کے دوران نمودار ہوا ہے ؛(٢)یا پھر ہم کچھ زیادہ ہی خوش قسمت واقع ہوئے ہیں کہ ایک انتہائی مختصر عرصے کے عمل کی ابتداء میں موجود ہیں۔ موخّرالذکر کا مطلب ہے کہ ہمارے پاس پیش بینی کی بہت ہی مختصر صلاحیت ہے۔
پیش خبری کی صلاحیت کا حامل ہونا سائنس کی دنیا میں انتہائی اہم ہوتا ہے کیونکہ زیادہ تر حالات میں اس کا مطلب رواں حالات کی ٹھوس سمجھ بوجھ ہے۔ کیونکہ ہم قانون ثقل کو سمجھ سکتے ہیں لہٰذا مستقبل میں چاند کے مدار میں اس کی جگہ کی پیش بینی کر سکتے ہیں اور اس کے بعد ہم خلائی جہاز کو بھیج کر اس کی سطح پر انتہائی درستگی کے ساتھ اتر سکتے ہیں۔ دوسری شرط وقت کا موازنہ واضح طور پر اپنی محدودیت کی وجہ سے ایک بدقسمت انتباہ ہوگا۔
دوسری طرف پہلی حالت کافی ترسا دینے والی ہے ! یہ ہمیں بتاتا ہے کہ سیاروی عمل (حیات بذات خود) حیات کی اشکال (انسان)کے ارتقاء کے لئے سیاروی وقت کے پیمانے پر لازمی ہے۔ یہ ہمیں بتاتا ہے کہ شاید حیات ایک کائناتی مظہر ہے جو سیاروں پر سیاروی وقت کے پیمانے پر ارتقاء پاتی ہے لیکن یہ ایک ایسی شکل اختیار کر لیتی ہے جو سیاروی پیمانے پر دوسرے سیاروں سے جداگانہ طور پر نمو پانا شروع کر دیتی ہے یعنی کہ یہ کسی مخصوص سیاروی وقت پر انحصار نہیں کرتی بلکہ اپنا ہی علیحدہ سیاروی وقت بنا لیتی ہے جس کے ساتھ ساتھ یہ ارتقاء پاتی ہے یا کم از کم اپنا ماحول بدل دیتی ہے۔ بہر کیف یہ عمل اس سطح پر پہنچنے کے لئے ایک طویل سفر کرتا ہے۔ دوسری حالت اس جانب اشارہ کرتی ہے کہ انسان جیسی حیات سیاروی وقت کے پیمانے کا حصّہ ہے اور بالآخر یہ اس عمل کے آخری حصّے میں نمودار ہوتا ہے تاہم یہ عمل لمبے عرصے تک قائم رہنے والی کائنات کی ساتھ چلتا نہیں ہے۔
کم از کم اس بات کا امکان موجود ہے کہ یہ عمل کائنات کے ساتھ چلنے کے قابل تو ہے - انسانوں نے یہ بات چاند کی سطح پر اتر کر تو ثابت کی۔ کیلی فورنیا انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں موجود میرے ایک رفیق اس بات کو اکثر دہراتے ہیں کہ اگر قانون طبیعیات کسی عمل کی اجازت دیتا ہے تو کائنات میں وہ عمل کہیں پر وقوع پذیر ہو رہا ہوگا۔ تفنن برطرف ، لیکن ہمارے امکان اور معقولیت کو جانچنے میں ایک گہری سچائی موجود ہے۔ میرے مطابق صرف سیارے کے وجود کے موافق قابلیت کے بھروسے پہلے ہی آج سیارہ زمین پر ہمارا وجود اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ ایسا کائنات میں کہیں اور بھی ( کسی اور وقت !) ہو سکتا ہے چاہے ہم اپنا وجود برقرار رکھ سکیں یا نہیں۔ اس موافقت پذیری کے وقوع پذیر ہونے کا انحصار اس بات پر ہے کہ کیا ہماری کائنات میں حیات کے مستقبل کو دوام دینے کی صلاحیت ہے۔ کیا حیات کے ماخذ کا دور اپنے جوبن پر ہے یا اپنے اختتام کی جانب گامزن ہے ؟ یا شاید اس کی ابھی شروعات ہی ہوئی ہے ؟
سائنس دان اس سوال کا جواب دینے کے لئے بالکل بے بس ہیں ، بہرکیف اب وہ تھوڑا بہت حیات کے مہربان ماحول کے ارتقاء کے بارے میں جانتے ہیں۔ حیات کو بطور سیاروی مظہر سمجھنے کا عمل سائنس دانوں کو مستقبل کے بارے میں نئی پیش گوئیاں کرنے کے قابل بناتا ہے۔ حیات سے متعلق وقت کے پیمانے کے مراتب کافی دلچسپ ہیں اور یہ امکانی حیات کے پیمانے کے ساتھ گندھے ہوئے ہیں۔ بڑا سالماتی پیمانہ جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں اوسطاً 10-7 میٹر ہوتا ہے اور ایک ڈی این اے کا اپنی نقل بنانے کا کیمیائی عمل 10-3 سیکنڈ میں انجام پذیر ہو جاتا ہے۔ یہ جوہری پیمانے پر کافی سست رفتار ہے کیونکہ اس پیمانے پر ننھے حجم یعنی 10-7میٹر پر پھیلے ہوئے جوہر بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ بہرکیف یہ کسی بھی سیاروی عمل کے مقابلے میں بہت ہی برق رفتار عمل ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ حیات بطور ایک عمل (یا اعمال کا مجموعہ ) ایسا مظہر ہے جس کے پاس ڈھلنے ، جماعت میں رہنے یا صرف قائم رہنے کے لئے لمبے ارضیاتی پیمانے مثلاً عالمگیر درجہ حرارت میں اتار چڑھاؤ یا براعظموں کی از سرنو ترتیب ؛ کا وقت موجود ہے ۔ لیکن کیمیائی عمل تو کیمیائی عمل ہوتا ہے اور سیاروی ارضی کیمیائی عمل زیادہ تر درپردہ دسیوں ہزار کیمیائی عمل کا مجموعہ ہوتا ہے۔ لہٰذا تمام انفرادی ارضی کیمیائی عمل ایک جیسے (مختصر) وقت کے پیمانے پر بعینہ اس طرح جیسے انفرادی حیاتیاتی کیمیائی عمل نمودار ہوتے ہیں جو حیات کے عمل کو تشکیل دیتے ہیں۔
پھر کس طرح سے حیات کا عمل سیاروی ماحول کی تباہ کن کیمیا کے بل بوتے پر نمودار ہو گیا؟ اگر ان کو پورا کرنے کے لئے اتنا ہی وقت درکار ہوتا ہے تو عام کیمیا اس میں جیت جائے گی۔ حیات اور اس کی حیاتیاتی کیمیا کو غلبہ حاصل کرنے کے لئے اپنا وقت کا پیمانہ مختصر کرنا ہوگا۔ زمین پر حیات دو ترکیبوں کی مدد سے مسابقت حاصل کرتی ہے۔ ایک ترکیب میں تو اپنے اس عمل کو اسراع دینے کے لئے خصوصی سالمات (عمل انگیز خاص طور پر خامرے کہلانے والے سالمات)سے حاصل شدہ مدد ہے ؛ اور دوسری ترکیب ان کے کام کرنے کے انداز پر قابو رکھنا ہے۔ با الفاظ دیگر ، حیاتیاتی کیمیا ستھرے طریقے سے تعاملات کی ترتیب کا حکم دیتی ہے جو اس عمل (جیسا کہ توانائی کا ذخیرہ اور اس کا اخراج ، خول بنانا وغیرہ )کو بہت اچھی طرح اور تیز رفتاری سے سرانجام دیتا ہے۔ مزید براں ایک خاص سالمہ ان احکامات کے سلسلے پر نظر رکھتا ہے تاکہ ان احکام کو ہر مرتبہ دوبارہ ایجاد نہ کرنا پڑے۔ ہم ان سالمات کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں - ہم سب کے پاس یہ موجود ہوتے ہیں اور ان کو ہم ڈی این اے اور آراین اے کہتے ہیں۔
حیات پر موجود موروثی سالمات ، ڈی این اے اور آراین اے بہت ہی منفرد اور ارضی حیاتی کیمیا میں فراواں موجود ہیں۔ ان کی پیچیدگی ایک طویل ارتقائی عمل کا نتیجہ ہے۔ یہ بات انتہائی دلچسپی کی حامل ہے کہ سالمہ میں ایک رمزی سلسلے والی ساخت ہو سکتی ہے جو اس رمز کی نقل کرکے آگے موروثیت کی شکل میں منتقل بھی کر سکتی ہے۔ بعینہ ایسے ہی آراین اے بھی دلچسپی کا حامل ہے اور یہ بات کئی مرتبہ تجربہ گاہ میں ثابت ہو چکی ہے کہ یہ اپنے عمل انگیزی کی نقل کرنے کے قابل ہے۔ ان دونوں کی ان خصوصیات کے سبب حیاتی کیمیا کے وقت کا پیمانہ بہت ہی مختصر ہو جاتا ہے - تیز رفتار شرح جو سیاروی ماحول کے تباہ کن کیمیا کے سینے پر نمو پا سکتی ہے۔
کائنات میں طویل عرصے تک اپنی شناخت رکھ سکنے والے اجسام یا تو کافی بڑے( مثلاً کہکشائیں ) ہیں یا پھر کافی پائیدار (مثلاً ستارے اور سیارے ) ہیں۔ ہمارا سورج ایک ایسا ستارہ ہے جو اپنی 10 ارب سال کی عمر کے دوران انتہائی کفایت شعاری سے اپنا ایندھن خرچ کرے گا؛ درحقیقت یہ انتہائی پائیدار ستارہ ہے۔ لیکن حیات ان دو ترکیبوں کے طفیل ایک تیسری چیز پیش کرتی ہے۔ اپنے انفرادی ، مختصر دورانیے کی حیات اور مقامی جاندار اکائیوں کی بدولت، جو بدلتی فضا سے تیز کیمیا گیری کرتے ہوئے ماحول کے مطابق ڈھلنے کی صلاحیت کی لچک رکھتے ہیں ، حیات ثابت قدم اور دیرپا رہتی ہے۔ ان تمام باتوں سے قطع نظر یہ مقامی اور مختصر عرصے والی حیات لمبے عرصے زندہ رہنے والی حیات اور عالمگیر موجودات مثلاً پوری آبادی یا نوع سے متوازن رہتی ہے۔ یہ بڑی جماعتیں کافی لچک دار ہوتی ہے اور اپنے اراکین کو زندہ رہنے کے لئے مختلف چیزوں کی کوششوں کو جاری رکھنے کی اجازت دیتی ہیں۔ یہ ایک غیر معمولی ایجاد ہے !ہم صرف یہ بات جانتے ہیں کہ اس کے وسیلے سے حیات ایک ایسا کائناتی مظہر ہو سکتی ہے جو ایک دفعہ نمودار ہو جائے تو پھر ایک غیر معین وقت تک جاری رہ سکتی ہے۔
انسانی حیات کا وقفہ نہایت مختصر ہے ، لیکن بطور نوع ہم ہمیشہ مستقبل بعید کے بارے میں سوچتے اور منصوبے بناتے ہیں۔ ماضی میں اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا تھا کہ اپنی اس نسل کی فکر کرنا جو ہم سے زائد مدت تک سیارہ زمین کو اپنا مسکن بنائے رکھے، ہم مستقبل کے منصوبے بطور سماج بناتے ہیں۔ مکان و زمان کے افق سے بھی دور تک پرواز کرتے ہمارے مجرد خیالات کو سوچنے کی قابلیت ہی ہماری سب سے منفرد اور اہم خاصیت ہے۔ خرد بینی حیات کائنات کی جانب سے پھینکے جانے والے اکثر ہتھیاروں سے بچ کر اپنا وجود برقرار رکھنے کے قابل ہے لیکن جیسا کہ ہمیں معلوم ہے کہ سورج ایک دن اس سیارے پر حیات کے خاتمے کا سبب بن جائے گا۔ اگر ماضی میں محدود سیاروی حیات میں کوئی چیز ثابت قدم رکھ سکی ہے تو وہ صرف ہماری سوچنے کی صلاحیت ہی ہے۔
حیات بطور سیاروی مظہر کے استدلال کے علاوہ دوسرے اہم مضمرات بھی ہیں۔ اکثر ہم کائنات میں اپنا مقام ایسا سمجھتے ہیں جیسا کہ ہم اپنی زندگی کا مشاہدہ اور اپنے رہنے والی جگہ کا سمجھتے ہیں۔ اسی لئے ہار ورڈ کالج رصدگاہ کے چٹانوں کے ٹکڑوں کو دائمی سمجھنا ہمارے لئے انتہائی آسان ہے ، ہم ایک ایسی دائمی اور جامد کائنات کا تصوّر کرتے ہیں جہاں ہم اور حیات پیدا ہوئے ہیں ، پروان چڑھے ہیں اور عمر کی منزلیں طے کی ہیں ؛ ہم تو صرف کئی نسلوں میں سے ایک ہیں، لیکن کائنات بذات خود ہمارے وہم و گمان سے بھی کافی زیادہ عمر کی ہے۔
یہ بہت ہی جھوٹی بات ہے! ہم جانتے ہیں کہ کائنات ایک محتاط اور اب تک کے بہترین لگائے ہوئے اندازوں کے مطابق لگ بھگ چودہ ارب برس پرانی ہے جبکہ زمین پر حیات صرف چار ارب سال پرانی ہے : حیات اور کائنات قریب قریب ہم عصر ہی ہیں۔ اس بات کو ہم اپنے سمجھنے کے لئے کچھ ایسے کہے دیتے ہیں ، اگر کائنات کی عمر ٥٥ برس کی ہے ، تو حیات کی عمر سولہ سال کی ہو گئی۔ مزید براں یہ کہ کائنات میں کچھ بھی مستقل یا دوامی نہیں ہے۔
یہ تمام باتیں گھما پھرا کر ہمیں پھر اسی سوال کی جانب لے جاتی ہیں ، ہمارا اس نوجوان دنیا میں کیا مقام ہے ؟ یہ ایک نہایت ہی عمیق سوال ہے، اور بہت سارے ایسے طریقے موجود ہیں جس میں یہ بات پوچھی جا سکتی ہے۔ ان میں سے ایک تو سادہ طور پر یہ سوال ہے کہ کیا ہم اکیلے ہیں ؟ میں اس سوال کا ایک ہی حصّہ زیر بحث کروں گا جو زیادہ تر کائنات کے متعلق ہماری حالیہ سمجھ بوجھ کے ارد گرد گھومے گا جس سے ہمیں معلوم ہوا ہے کہ کائنات ابھی تو اپنے عہد شباب میں ہے اور یہ اب بھی تبدیلیوں کے عمل سے گزر رہی ہے۔
کئی وجوہات کی بنا پر اس سوال کا جواب مثبت ہو سکتا ہے۔ ان میں سے ایک بات تو یہ ممکن ہے کہ ہم (صرف انسان نہیں بلکہ حیات ) اکیلے ہی ہوں کیونکہ حیات ایک انتہائی عنقا چیز ہو سکتی ہے اور کائنات کی تیرہ ارب ستر کروڑ برس کی تاریخ میں صرف ہم نے ہی جنم لیا ہو۔ دوسری طرف ہم اس لئے بھی اکیلے ہو سکتے ہیں کہ ہم بعد میں اس جہاں میں آئے ہیں۔ ہمارے سورج اور زمین کے جنم سے پہلے نو ارب سال کا عرصہ گزر چکا تھا ، لہٰذا یہ امکان اپنی جگہ موجود ہے کہ ہمارے علم میں آئے بغیر حیات کائنات میں کسی جگہ پہلے ہی نمودار ہو کر اپنی عمر تمام کر چکی ہے۔ یا ہو سکتا ہے کہ ہم پہلے ہوں!
اس بحث کا اہم حصّہ خود ساختہ فرمی کا تناقض ہے ، اس کو ایک شہرہ آفاق طبیعیات دان اینریکو فرمی کے نام پر یہ سوال اٹھانے کی وجہ سے رکھا تھا "وہ کہاں ہیں ؟" اس سوال کے پیچھے یہ قیاس موجود ہے کہ اگر جدید تہذیبیں موجود ہیں تو فلکیات دانوں کو ان کا مشاہدہ کرنا چاہئے۔ کیونکہ یقینی طور پر کسی بھی جدید تہذیب کو اس قدر قوّت کا حامل ہونا چاہئے کہ وہ کہکشاں کو اس حد تک بدل سکے کہ ہم اس کا مشاہدہ کر لیں۔ فرمی دلائل دیتا ہے کہ کائنات کی لمبی عمر اور انسانی ٹیکنالوجی کو مختصر وقت کے پیمانے پر ترقی حاصل کرنے کے امکان کو مد نظر رکھتے ہوئے، ہماری کہکشاں میں موجو ہم سے عمر میں برتر د دوسری تہذیبیں اور حیات کے ماخذ غیر معمولی طور پر ہم سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ ہوں گے۔ زیادہ ترقی یافتہ ہونے کی صورت میں ان کی توانائی کی ضرورت نجمی اور کہکشانی سطح کی ہو گی جس کا ہم صرف مشاہدہ کرنے کے علاوہ کچھ اور نہیں کر سکتے۔ اگر ہم نے ابھی تک کسی چیز کا مشاہدہ نہیں کیا ہے تو اس بات کا غالب امکان ہے کہ ہم اپنی کہکشاں میں اکیلے ہی ہیں اور ٹیکنالوجی کی حامل تہذیبیں بہت ہی نایاب ہوں گی۔( مجھے یہاں پر آرتھر کلارک کا وہ جملہ یاد آتا ہے : کسی بھی جدید تہذیب کی ٹیکنالوجی کو جادو سے علیحدہ کرنا مشکل ہوگا ،" یہ جملہ مجھے میرا اعتماد اس بات پر کم کر دیتا ہے ہمیں معلوم ہی نہیں ہوگا کہ ہمیں کیا دیکھنا ہے ۔)
١٩٩٠ء میں ہار ورڈ کی طبیعیات کے شعبے کے پال ہوروویٹز(Paul Horowitz) نے ہرب یارک (Herb York)اور فل موریسن(Phil Morrison) کے فرمی کے مشہور سوال کے ماخذ کے یاد داشتی کام کو قلمبند کیا۔ لوس الاموس میں ١٩٥٠ء کی گرمیوں کا موسم تھا جب متعدد امریکی طبیعیات دان جمع ہوئے تھے، یہ مین ہٹن منصوبے کے چند برسوں بعد کی بات ہے جس میں ہائیڈروجن بم بنایا گیا تھا۔ فرمی کو طبیعیات دانوں سے کھانے کے دوران کے وقفے میں اپنے اس خطیبانہ سوال کا پوچھنا اور پھر اس کا جواب دینا نہایت پسند تھا۔ یارک کے یاد داشتی کام کو قلمبند کرنے کے مطابق کسی ایک ایسے ہی موقع پر اس نے اپنی میز کے گرد موجود بیٹھے لوگوں سے پوچھا ،" آپ لوگوں کو کبھی حیرت نہیں ہوئی کہ سب لوگ کہاں ہے ؟" فرمی نے کہکشاں میں موجود ستاروں اور ان میں موجود نظام ہائے سیارگان کی کثرت و فراوانی اور ان کی قدیمی عمر کو مد نظر رکھتے ہوئے دلائل دیے ، اگر حیات کہیں اور پروان چڑھ گئی اور اس نے ٹیکنالوجی بھی حاصل کر لی تو وہ ہم سے کہیں زیادہ جدید ہوگی اور ایسی کسی تہذیب نے کہکشاں میں اپنی بستیاں قائم کر لی ہوں گی۔
١٩٧٠ء کی دہائی میں مائیکل ہارٹ نے ثابت کیا کہ فرمی کے نتائج شماریات کے حوالے سے نہایت ٹھوس تھے۔ بہرکیف شماریاتی دلائل صرف اس وقت ہی مضبوط ہوتے جب پیچیدہ حیات کا ظہور کائنات کی عمر سے کہیں زیادہ نوخیز ہوتا۔ اگر دونوں کی حیات ایک دوسرے کے مماثل ہوتی تو پھر یہ دلیل کام نہیں کرتی تھی۔
فرمی نے اپنا نقطۂ نظر ١٩٥٠ء جبکہ ہارٹ نے ١٩٧٠ء کے عشرے میں دیا تھا۔ ان دونوں ادوار میں ہمارے رفیق ماہرین فلکیات کا اس بات پر اجماع تھا کہ کائنات کی عمر ١٠ سے ١٥ ارب سال سے کہیں زیادہ ہے۔ اس وقت کائنات کی عمر کا تخمینہ کچھ بیس سے پچیس ارب برس کا تھا جبکہ کچھ تو کائنات کو مستقل حالت کی دائمی کائنات مانتے تھے۔ جبکہ اس دور میں ارضیاتی وقت کا پیمانہ اچھی طرح سے چار ارب سال کا سمجھا جا چکا تھا۔
تب سے لے کر بیسویں صدی کے اختتام تک طبیعیاتی فلکیات میں بے نظیر انقلاب کی بدولت بہت سارے رازوں سے پردہ فاش ہو چکا تھا۔ پچھلے دس پندرہ بر سوں میں سائنس دانوں نے اس انقلاب کی بدولت جو رائے قائم کر لی تھی وہ فرمی کے تناقض اور کائنات میں حیات کے مستقبل کے بارے میں کافی مدد کر سکتا ہے۔ تاریخ کی کافی چیزیں بہت ہی سلیقے سے استوار کر لی گئی ہیں جن میں سے زیادہ تر کے براہ راست ثبوت بھی مل چکے ہیں۔ کہانی کچھ اس طرح ہے :
روشنی اپنی محدود رفتار کے باوجود ایک عظیم ٹائم مشین ہے ؛ فلکیات دان اپنی دوربینوں کا رخ دور دراز اجسام کی طرف کرکے ان کے ماضی میں جھانک سکتے ہیں۔ لہٰذا جب ہم فلک کے ماضی میں جھانکتے ہیں تو ہم تیرہ ارب ستر کروڑ سال پہلے کے وقت میں جھانک رہے ہوتے ہیں جب تمام قابل مشاہدہ کائنات گرم ہائیڈروجن اور ہیلیئم گیس کا ملغوبہ تھی جس میں کہیں کہیں لیتھیم بھی موجود تھی۔ رات کے آسمان میں موجود ہمارے شناسا اجسام - کہکشائیں ، ستارے ، سیارے کچھ بھی وجود نہیں رکھتے تھے۔ مزید براں دوسرے کیمیائی عناصر بھی موجود نہیں تھے۔
فلکیات دان اس دور کا براہ راست مشاہدہ اپنی حساس حرارت ناپنے والی دوربینوں کے ذریعہ کر سکتے ہیں جو انہیں کائناتی پس منظر کی شعاعوں یا عرف عام "سی بی ایم" کا مشاہدہ کرنے میں مدد دیتی ہیں۔ جب پہلے پہل فوق توانا ذرّات جوہروں کی صورت میں جڑ کر کائنات میں موجود تمام ہائیڈروجن کو بنا رہے تھے تو اس وقت روشنی کا جو اخراج ہوا سی بی ایم اس کی باقیات ہیں ۔ روشنی کو اس طرح سے خارج کرنے کے پورے عمل میں صرف بیس ہزار برس لگے۔ اس روشی کا زیادہ تر حصّہ جب سے ہمارے پھیلتی اور سرد ہوتی کائنات میں محو سفر ہے۔ دور حاضر میں یہ مہین ہو کر لمبی طول موجوں کی طرف تبدیل ہو گئی ہیں ۔ اس طرح سے جو بصری روشنی تھی وہ خرد اور ریڈیائی امواج میں تبدیل ہو گئی ہیں۔
سی بی ایم نے بذریعہ حرارت ، حرارتی بدلاؤ اور تقطیب - ایک لطیف پیمانہ جو سی بی ایم امواج کے خم کو ناپتا ہے ، اطلاعات کا خزینہ اپنے اندر چھپا رکھا ہے۔ ان کی پیمائش حاصل کرنا ایک مشکل اور دقیق عمل ہے ۔ ماضی کے چند عشروں میں ہونے والی دونوں زمینی اور خلائی مثلاً کوبی، ڈبلیو میپ اور پلانک ٹیکنالوجی میں ہونے والی پیش رفت کی بدولت ان پر تحقیق کرنا ممکن ہو سکا ہے۔ اس سے حاصل کردہ براہ راست نتیجوں نے واضح طور پر یہ بات ثابت کی ہے کہ کائنات میں آج سے تیرہ ارب ستر کروڑ سال پہلے حیات کے آمیزے کے لئے تو کیا بلکہ سیاروں کے لئے بھی کسی بھی قسم کے اجزاء موجود نہیں تھے اگر کچھ موجود تھا تو وہ ہائیڈروجن اور ہیلیئم ہی تھی۔
کہانی کو آگے بڑھانے سے پہلے ضرورت اس بات کی ہے کہ ابتدائی کائنات میں ہونے والے کچھ مختلف واقعات کا تسلسل بیان کیا جائے۔ کائنات کی عمر کا تخمینہ تیرہ ارب چھتر کروڑ (دس کروڑ برس کی کمی بیشی کے ساتھ )لگایا گیا ہے، مطلب یہ ہے کہ ہم قطعیت کے ساتھ یہ بیان نہیں کر سکتے کہ کائنات کی عمر تیرہ ارب ساٹھ کروڑ ہے یا تیرہ ارب اسی کروڑ ہے یا پھر ان دونوں کے درمیان کہیں پر ہے۔ اس کے باوجود کچھ واقعات کے وقت کو انتہائی درستگی کے ساتھ اضافی اصطلاح میں بیان کیا جا سکتا ہے۔ لہٰذا اس طرح سے مختلف واقعات کے وقوع پذیر ہونے والے وقت کا حوالہ اس وقت سے آسانی کے ساتھ دیا جا سکتا ہے جب وقت کا آغاز ہوا تھا جس کو بگ بینگ کہتے ہیں۔ مثال کے طور پر سی بی ایم بگ بینگ کے آغاز کے کچھ تین لاکھ اسی ہزار سال کے بعد خارج ہونا شروع ہوئیں۔ سی بی ایم کا وقت ایک پیمائش ہے اور اس سے پہلے کی چیزیں تبدیل نہیں ہوں گی چاہے کائنات کی عمر (یعنی کہ بگ بینگ کی شروعات ) تیرہ ارب ساٹھ کروڑ سال ہو، تیرہ ارب ستر کروڑ سال ہو یا تیرہ ارب اسی کروڑ سال ہو۔ متبادل طور پر اگر ہم بگ بینگ کی عمر تیرہ ارب ستر کروڑ فرض کر لیں تو یہ واقعہ (جو بعد میں سی بی ایم کی تخلیق کہلایا ) تیرہ ارب انہتر کروڑ ستانوے لاکھ برس پہلے رونما ہوا ہوگا۔
چلیں اب اپنے قصے کی طرف واپس چلتے ہیں۔ ہمیں اس واضح سوال کا جواب درکار ہے، تمام اجزائے ترکیبی - تمام کیمیائی عناصر جیسا کہ کاربن ، آکسیجن ، سلیکان اور لوہا کہاں سے آئے ؟ اس کا جواب سب کو اچھی طرح سے معلوم ہے کہ یہ عناصر ستاروں سے بعد میں بنے۔ یہ بات ہمیں کائنات میں ہونے والے دوسرے اہم واقعے کی طرف لے جاتی ہے یعنی کہ ستاروں کی تخلیق۔ یہ ایک ایسا واقع ہے جس کا ہم نے براہ راست مشاہدہ نہیں کیا ہے ، اگرچہ ہبل خلائی دوربین کی جانشین اس کام کو انجام دینے کے لئے بنائی جا رہی ہے۔ اس بات سے قطع نظر سائنس دانوں کے پاس بالواسطہ کافی سارے شواہد موجود ہیں جو اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ ایسا آج سے تیرہ ارب دس کروڑ سال پہلے ہوا تھا۔
جب ہم بڑے منظر نامے کو دیکھتے ہیں تو ستارے بشمول اولین ستارے بہت ہی غیر معمولی اجسام نظر آتے ہیں۔ وہ عام مادے یا ابتدائی مادّے کے مرتکز، پائیدار اور طویل العمر اجسام ہیں۔ اس بات میں کوئی غیر معمولی چیز نہیں ہے۔ عام مادّہ پوری کائنات میں (ارب ہا ارب کہکشاؤں کی صورت میں) بڑے اور چھوٹے لوتھڑوں میں بکھرا ہوا ہے۔ یہ کائنات میں ایسی حالت میں اس وقت تک رہتا ہے جب تک ان میں سے کچھ لوتھڑے اپنے وزن تلے بھینچ کر دب کر ستاروں کی شکل اختیار نہیں کر لیتے۔ ستارے کے اندر قوّت ثقل کے کھنچاؤ اور مادّے کے پھیلاؤ میں توازن اس درجہ حرارت اور کثافت پر حاصل ہوتا ہے جس میں ہائیڈروجن اور ہیلیئم کے مرکزے ضم ہو کر نئے عناصر بناتے ہیں۔ جب کسی بھی جوہری مرکزے میں گداخت کا عمل ہوتا ہے تو اس کے دو اہم نتیجے نکلتے ہیں: بہت ساری توانائی کا اخراج ہوتا ہے ، بھاری مرکزہ بنتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا سورج چمکتا ہے۔
ستارے گداخت کے شہزادے ہوتے ہیں۔ اس عمل کو یہ بہت ہی جانفشانی سے انجام دیتے ہیں ! سچ میں یہ کائنات کو روشن کرتے ہیں اور اس بے رنگ سادہ گیس سے بھری کائنات کو عناصر کی زرخیزی سے لبریز کر دیتے ہیں۔ یہ عمل انتہائی منظم ہوتا ہے : پہلے ہائیڈروجن ، ہیلیئم میں بدلتی ہے، جو ہائیڈروجن سے بھاری ہوتی ہے یہ سکڑ کر اور گرم ہو جاتی ہے۔ ہیلیئم اس وقت تک گرم ہوتی رہتی ہے جب تک گداخت کی سرحد کو پار نہیں کر جاتی اور اس وقت کم از کم داخلی طور پر ستارے کی زندگی میں ایک نیا مرحلہ شروع ہوتا ہے۔
ہائیڈروجن کی گداخت سے زیادہ تر تو ہیلیئم ہی بنتی ہے ( عمل گداخت ایک ایسا عمل ہے جس میں آلودگی سے پاک صاف ستھری توانائی انسانیت کے لئے حاصل کی جا سکتی ہے بشرطیکہ ہم اس کو کسی منضبط طریقے سے کرنا سیکھ لیں )، ہیلیئم کے گداختی عمل میں دوسرے بھاری عناصر حاصل ہوتے ہیں جن میں زیادہ اہم کاربن اور آکسیجن ہے۔ ستارے لوہے تک عناصر بنا سکتے ہیں۔ لوہے کو بنانے کے بعد وہ مزید کوئی عنصر گداختی عمل کے ذریعہ نہیں بنا سکتے کیونکہ ان میں اتنی توانائی نہیں ہوتی جو لوہے کے عنصر میں گداختی عمل شروع کر سکے۔ یہاں تک کہ ستارہ پھٹ پڑتا ہے۔ ایک ایسے سپرنووا میں مزید گداختی عمل شروع ہوتا ہے جو مزید دوسرے بھاری عناصر پیدا کرتا ہے اور دوسرے پابند الیکٹران کو آزاد کرا دیتا ہے جو بھاری جوہروں کے عناصر اور تمام ثمر آور کیمیا کو پکا دیتے ہیں۔
ماہرین فلکیات ستاروں کو کائنات کو ثمرآور عناصر سے بھرنے کا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ دس سے بیس برس پہلے ماضی میں بننے والی دوربینوں کے ذریعہ وہ بارہ ارب سال پہلے تک دیکھ سکتے ہیں۔ وہ کچھ بھاری عناصر جیسا کہ لوہے کو دیکھ سکتے ہیں ؛ وہ عناصر کو ثمرآور ہوتے ہوئے اور کس طرح سے ستارے انھیں بنا رہے ہیں دیکھ سکتے ہیں۔ ان تمام باتوں کو دیکھتے ہوئے جو صورتحال بنتی ہوئی نظر آتی ہے اس میں ستاروں کی ایک نسل نوجوان کائنات کی ہائیڈروجن اور ہیلیئم کو ایک تسلسل کے ساتھ تمام بھاری عناصر میں تبدیل کر رہی ہے۔
ستارے کم کمیت کی گیس سے بنتے ہیں جس کو (اپنے وزن تلے خود سے ) دبتے ہوئے ٹھنڈا ہونا ہوتا ہے تاکہ ستارہ کثیف ہو سکے۔ ہائیڈروجن اور ہیلیئم دبتے ہوئے ٹھنڈے ہونے کی صلاحیت سے کافی زیادہ محروم ہوتی ہیں لہٰذا اولین ستارے لازمی طور پر ہمارے سورج سے سینکڑوں گنا زیادہ بڑے ہوں گے۔ اولین ستارے ضخیم اور کم عمر تھے جنہوں نے کچھ بھاری عناصر بنائے تھے جو اب نمو پذیر کہکشاؤں کے اندر بکھرے ہوئے ہیں یہی وہ ستارے ہیں جنہوں نے چھوٹے اور کم ضخیم ستاروں کی پیدائش کو ممکن بنایا۔ ہائیڈروجن اور ہیلیئم گیس پر ان بھاری عناصر کے چھڑکاؤ نے ان گیسوں کو بھی ٹھنڈا کرنے میں مدد کی تاکہ دوسری نسل کے ستارے ایک متنوع فیہ قسم کی گیس کے ڈھیر سے پیدا ہو سکیں۔ ہر نئی نسل کے ساتھ ، بتدریج چھوٹے ستارے پیدا ہو سکتے تھے اور ایسا ہی ہوا۔ آج ہماری کہکشاں میں سورج سے بھی چھوٹے ستارے موجود ہیں۔ اس کی ایک ذیلی وجہ یہ ہے کہ چھوٹے ستارے زیادہ عرصے تک زندہ رہتے ہیں کیونکہ وہ اپنا ایندھن کفایت شعاری سے استعمال کرتے ہیں۔ تاہم زیادہ اہم بات یہ ہے کہ چھوٹے ستاروں کا جنم نہایت تیزی سے بڑے پیمانے پر کائنات کے ارتقاء کے ساتھ ہوا ہے۔
چھوٹے ستارے موت سے ہمکنار ہوتے ہوئے بھاری عناصر کی جماعت کو کائنات میں بکھیر دیتے ہیں لہٰذا کائنات میں بھاری عناصر کی زرخیزی سست رفتاری کے ساتھ تاہم مسلسل رفتار سے جاری رہے گی۔ درحقیقت تیرہ ارب سال بعد صرف اصل کائناتی آمیزے کا صرف دو فیصد بھاری عناصر میں بدلا گیا ہے ؛ فلکیات دان اس عمل کو افزود گی کہنا پسند کرتے ہیں۔ افزود گی کا یہ عمل درحقیقت نہایت ہی سست ہے۔
کائنات کی مختصر تاریخ کچھ اس طرح سے ہے : تیرہ ارب سال پہلے صرف ہائیڈروجن اور ہیلیئم سے ستاروں کی ایک ایسی نسل پیدا ہوئی جس نے کافی تعداد میں آکسیجن، سلیکان اور کاربن اور وہ تمام دوسرے عناصر پیدا کیے جس کے ذریعہ زمین یا فوق ارضی سیارے بن سکتے تھے۔ حیات کی کہانی سے حاصل ہونے والے کم از کم دو نتیجے حاصل ہوئے ہیں۔
پہلا تو یہ کہ کائنات میں کہیں پر بھی موجود ان ستاروں کے بننے میں کافی وقت لگا جن کے ارد گرد نظام ہائے سیارگان موجود ہو۔ عام کہکشاؤں میں وہ مستحکم ماحول صرف نو ارب سال پہلے ہی وجود میں آیا جس میں کافی سارے سیارے ستارے کے گرد بن سکیں ۔ اگر آپ بڑے ارضی سیاروں کے بارے میں بات کریں جیسا کہ چٹانی فوق ارضی سیارے یا ارض تو ان کے بننے کا ماحول صرف ساتھ سے آٹھ ارب سال پہلے قیام پذیر ہوا ہے۔ ہم اس بات کا تصوّر کر سکتے ہیں کہ کائنات کی تاریخ میں حیات کو نمودار ہونے کے لئے ہمیں اس وقت تک کا تو انتظار کرنا ہی ہوگا۔
دوسرے افزود گی کا عمل آج تک جاری ہے اور ہم اس بات کا اندازہ کافی اچھی طرح سے لگا سکتے ہیں کہ ہماری کائنات کسی طرح سے طویل اور آنے والے لامحدود دور میں تبدیل ہو گی۔ مثال کے طور پر ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ضخیم ستارے پچھلے پانچ ارب سال کے دوران بننا کم ہو گئے ہیں اس طرح سے مستقبل میں چھوٹے ستاروں کا غلبہ عناصر کو بنانے اور ان کو افزودہ کرنے میں بڑھ جائے گا۔ اس کا عام طور پر مطلب یہ ہوگا کہ آکسیجن کے مقابلے میں کاربن زیادہ بنے گی۔ دور حاضر میں ہماری کہکشاں میں اکثر جگہ آکسیجن کے جوہر کاربن کے جوہروں کی نسبت تین گنا زیادہ ہیں لیکن ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب آکسیجن اور کاربن کے جوہر برابر کی تعداد میں موجود ہوں گے۔ جب کبھی بھی ایسا وقت آئے گا تو چٹانی سیاروں کی معدنیات بدل جائے گی۔ کاربائیڈ سیلیکٹ پر غالب آ جائے گا اور اس کے نہایت ہی اہم مضمرات ایسے سیاروں پر موجود حیات کے ماخذوں پر ہوں گے جیسا کہ اس کتاب کے شروع میں بیان کیا گیا تھا کہ کاربنی سیارے نایابی سے فراوانی کی طرف ہو جائیں گے۔
وسیع تناظر میں اگرچہ حیات کا مستقبل بہت ہی شاندار دکھائی دے رہا ہے۔ تاوقتیکہ حیات بہت ہی نایاب مظہر ہو ، مستقبل میں اس کی موجودگی کافی نہ صرف کافی زیادہ ہونی چاہئے بلکہ اس کو بہت زیادہ متنوع فیہ بھی ہونا چاہئے۔ ممکن ہے کہ سیارے کائنات کا بہت ہی معمولی حصّہ ہوں کیونکہ وہ بہت ہی چھوٹے ہوتے ہیں اس کے باوجود یہ اس قدر وافر مقدار میں موجود ہیں کہ حیات کے موجود ہونے کی کافی زیادہ جگہیں دستیاب ہیں۔ ہم یہ بات جانتے ہیں کہ ہماری کائنات اس دور سے گزر رہی ہے جس میں ستارے بننے کا عمل اپنی جوبن پر ہے ( جس کو ستاروں بھرا دور بھی کہتے ہیں ) لیکن ایسا بھی لگتا ہے کہ ساتھ ساتھ سیاروں کی پیدائش بھی اپنے عروج پر ہے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ فرمی کا تناقض جو ماضی کے بارے میں ہے وہ کائنات میں موجود کسی دوسری جگہ حیات کے بارے میں سوال کو غلط طریقے سے پوچھتا ہے۔ یہ تناقض اس بات کو فرض کرتا ہے کہ دوسرے کو ہم سے پہلے نمودار اور پروان چڑھنے کے لئے کافی وقت مل چکا ہے۔ نئے حاصل ہوئے شواہد اس فرض کی ہوئی بات کی آسانی کے ساتھ تائید نہیں کرتے۔ بات جب خرد بینی حیات کے بجائے ٹیکنالوجی کی ہو گی تو ہم حالیہ دور میں زبردست رفتار سے حاصل ہوئی اپنی ٹیکنالوجی کی قابلیت کو دیکھتے ہوئے پیش بینی کر سکتے ہیں۔ لہٰذا اگر ترقی کی اس رفتار کو بنیاد بنا کر ہم اندازہ لگائیں تو فرمی کا تناقض شماریاتی طور پر نہایت مضبوط رہے گا۔ لیکن حیات کے لئے جو منطقی سلسلہ میں دیکھوں گا وہ یہ ہے : (١) پیچیدہ کیمیا حیات کے نمودار ہونے لے لئے لازمی ہے - کافی مقدار میں بھاری عناصر درکار ہوں گے ؛ (٢) مستحکم ماحول جو کیمیا کو مرتکز کر سکے وہ درکار ہو گی- ارضی سیارے (ارض ، فوق ارضی سیاروں) کی ضرورت ہو گی۔ ماضی میں یہ تمام شرائط ہماری کائنات نے کس دور میں پوری کی ہیں ؟
اس کا جواب ہے کہ سات سے نو ارب سال پہلے یہ شرائط پوری ہو چکی تھیں۔ میں اس نتیجے پر دو مختلف آزاد ذرائع سے پہنچا ہوں۔ پہلا راستہ یا ذریعہ تو وہ ہے جس پر ہم ستاروں اور دور دراز کہکشاؤں میں موجود گیس پر انحصار کرتے ہوئے قیاس کر رہے ہیں جس میں ہم ستاروں اور گیس میں موجود بھاری عناصر (جو حیات کے ظہور کے لئے ضروری ہیں )کی فراوانی کو ناپتے ہیں، اس طرح سے ہم ان کی بڑھوتری کو وقت کے ساتھ ساتھ دیکھ رہے ہیں۔ جب ہم ان ستاروں کو دیکھنا شروع کر دیتے ہیں جو ارض یا فوق ارضی سیاروں کو بننے کے لئے درکار عناصر فراہم کر سکتے ہیں تو ہم ماضی میں دیکھے جانے والے اس وقت کی جانب اشارہ کر دیتے ہیں۔ مسئلہ صرف اس جگہ پر اٹکا ہوا ہے کہ ہم یہ بات کس طرح معلوم کریں کہ بڑے ارضی سیاروں کو بننے کے لئے کتنی مقدار میں بھاری عناصر درکار ہوتے ہیں۔ یہ سوال لوہے کے چنے چبانے کے مترادف ہے۔ اگر ہمارے سیاروی تشکیل دینے والے کمپیوٹر نمونے درست ہیں تب کسی بھی ایک نظام شمسی کو ہمارے سورج کے مقابلے میں ہزار کے نسبت ایک جتنے بھاری عناصر درکار ہوں گے۔ ہماری کہکشاں اس حالت میں آج سے نو ارب سال پہلے پہنچ گئی تھی۔
جواب حاصل کرنے کا دوسرا ذریعہ یا راستہ سیدھا سیاروں کی جانب جاتا ہے۔ کیا ہم نے ستارے کے گرد چکر لگاتے سیاروں میں ہلکے عناصر کا تناسب گرتے ہوئے دیکھا ہے ؟ جی ہاں بالکل ایسا ہی ہے۔ یہ شہادت سیاروں کی کھوج کے ابتداء میں ہی حاصل ہو گئی تھی۔ یہ شہادت اس قدر واضح تھی کہ زیادہ تر ٹیمیں سیاروں کی کھوج کرتے وقت وہ ستارے چنتی تھیں جن میں بھاری عناصر کی تعداد زیادہ ہوتی تھی۔ اس رجحان پر کسی کو بھی حیرت نہیں ہوئی تھی کہ جتنی زیادہ دھاتیں ستارے میں موجود ہوں گی اتنے ہی زیادہ سیارے موجود ہوں گے لیکن اس رجحان کی طاقت بہت زیادہ حیران کن تھی۔ یہ رجحان تیزی سے سیاروں کو ڈھونڈتے ہوئے گر گیا یہاں تک کہ جو میں نے اوپر بھاری عناصر کی سورج کے مقابلے میں ہزار کی نسبت ایک بتائی تھی وہ کافی فیاضانہ محسوس ہوتی ہے۔ نتائج سے ظاہر ہوا کہ سورج کے مقابلے میں بھاری عناصر کی نسبت سو کے مقابلے میں ایک کی ہے۔ اس کے نتیجے میں وہ وقت جب ماضی میں سیارے حیات کو پروان چڑھانے کے لئے سازگار ہوں گے کم ہو کر آٹھ سے سات ارب سال پہلے تک کا ہو گیا ہے۔
ایک بات میں یہاں پر واضح طور پر بتانا چاہوں گا کہ زیادہ دھاتیں زیادہ سیاروں کا رجحان فی الوقت مشتری اور زحل جیسے سیاروں کے لئے بالعموم یا پھر تپتے ہوئے مشتری کے لئے با الخصوص ہی دیکھا گیا ہے۔ میں نے فی الحال اس بات کو فرض کیا ہوا ہے کہ یہی رجحان ارضی سیاروں کے لئے بھی کارگر رہے گا لیکن کیپلر کا منصوبہ اس کو درست طور سے جانچنے کے لئے کام کر رہا ہے۔
آج فلکیات دان اس بات کو قطعیت کے ساتھ جان چکے ہیں کہ کائنات کے ستارے اور سیارے پیدا کرنے کی قابلیت میں تیرہ ارب سال سے کم کا عرصہ گزرا ہے لہٰذا نجمی سیاروی کائنات بہت زیادہ نوخیز ہے۔( کیونکہ ہم اپنی کہکشاں اور باقی ماندہ قابل مشاہدہ کائنات کو دیکھ سکتے ہیں، جس میں دو کھرب سے زیادہ کہکشائیں واضح طور پر اس سلسلے کو آگے بڑھانے کی قوّت رکھتی ہیں اگرچہ ہم ان کو آج ابد تک تو نہیں لیکن پھر بھی مزید ہزار ہا ارب سال تک ایسے ہی دیکھیں گے اس لئے میں کائنات کو بیان کرنے کے لئے نوخیز کا لفظ بالکل درست سمجھتا ہوں۔) والدین اور بیٹی کی تشبیہی تمثیل نہایت خوبی سے کائنات کو سیاروں اور زمینی حیات کے ساتھ بیان کرتی ہے۔ زمین پر موجود حیات ہو سکتا ہے کہ خاندان میں موجود دوسرے بچوں میں سب سے بزرگ ہو۔
ابھی تک ہمارا دائرہ ذکر صرف خوردبینی حیات کے بارے میں تھا لیکن بڑے سوال کے بارے میں کیا خیال ہے : کیا ہم انسان اس کائنات میں اکیلے ہیں ؟ یہ اب تک کا پوچھا جانے والا سب سے مشکل سوال ہے۔ بہرکیف اگر سیارے اور حیات کائنات میں نوخیز تر ہیں تو شاید ہمیں اس کائنات میں آنے میں دیر نہیں ہوئی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ہم اولین حیات میں سے ہی ہوں۔ شاید یہی چیز اس امر کو بیان کر سکے کہ ہم کسی بھی قسم کی دوسرے لوگوں کی موجودگی کی شہادت کو کیوں نہیں دیکھ پاتے ہیں۔ اس بات کا یہ ہرگز مطلب نہیں ہے کہ کائنات میں دوسرا کوئی اور موجود نہیں ہے۔
ہر طرح سے فرمی کا تناقض ابھی تک حل نہیں ہو سکا ہے اس کے کئی حیرت انگیز ممکنہ حل موجود ہیں - جو انتہائی گہرائی سے لے کر کافی تفریح والے ہیں ، ان میں سے ہر ایک جتنی توجہ چاہتا ہے وہ میں اس کو یہاں پر دینے کا کوئی منصوبہ نہیں بنا رہا ہوں لیکن بہرحال میں آپ کو اس بات کا مشورہ ضرور دوں گا کہ اس کو مزید پڑھئیے گا ضرور۔
سردست فرمی کے تناقض کے جواب دینے کے لئے ہم اب اس بات کا تخمینہ لگا سکتے ہیں کہ قابل رہائش سیاروں کا خاندان کتنا بڑا ہے اور اس کی آبادی کتنی ہے۔ اس کا جواب ہے ، بہت بڑا۔ ذرا اس پر توجہ دیں : کائنات میں زمین پر موجود تمام ساحلوں کی ریت کے ذرّوں سے کہیں زیادہ ستارے موجود ہیں اور اتنے ہی سیارے ہیں (خاکہ 11.1ملاحظہ کیجئے)جیسا کہ اس کتاب کے شروع میں بیان کیا گیا ہے کہ یہ فلکیاتی اعداد اس بات پر اٹل دلالت نہیں کرتے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہم اپنے نمونوں کے لئے جتنا بھی اچھا محسوس کریں۔ ہمیں خود سے ہی تلاش کرنا ہوگا۔ ناسا کا کیپلر منصوبے کے تحت ہونے والا سروے یہ کام کرے گا۔
11.1 زمین پر موجود تمام ساحلوں کی ریت کے ذرّوں جتنی تعداد میں ستارے اور سیارے ہماری کائنات میں موجود ہیں۔ روشن نقطے سورج کے آس پاس کچھ نظام ہائے سیارگان ہیں جو ہم پہلے ہی دریافت کر چکے ہیں۔
اس دوران ابتدائی تخمینے لگانے کے لئے ہمیں حالیہ ماورائے شمس سیاروں کی دریافت کو بنیاد بنانا ہوگا۔ ٢٠١١ ء کی گرمیوں تک دریافت ہونے والے ماورائے شمس سیاروں کی تعداد کو بنیاد بنا کر شروع کرتے ہیں۔ جو سینکڑوں کی تعداد میں(لگ بھگ چھ سو کے قریب ) ہیں ان میں سے زیادہ تر کہکشاں میں ہمارے پڑوس میں ہی موجود ہیں (خاکہ نمبر 11.2ملاحظہ کیجئے)۔ یہ ایک مفید حوالہ ہوگا۔
11.2 ابھی تک دریافت ہونے والے زیادہ تر ماورائے شمس سیارے ہمارے نظام شمسی سے قریب ہیں؛ تمام معلوم سیارے پانچ سو نوری برس کے دائرے کے اندر اور ملکی وے کہکشاں کے اور ا ئن بازو میں موجود ستاروں کے گرد ہی موجود ہیں۔
سب سے پہلے تو مجھے کہکشاں میں موجود ستاروں کی تعداد معلوم کرنا ہو گئی۔ یہ تعداد مستقل طور پر تازہ ہوتی رہتی ہے لیکن پچھلی کچھ دہائیوں سے اس میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے اور اس کی بنیاد مختلف آزاد ہونے والے سروے پر ہے۔ کئی دسیوں لاکھ ستارے ، مختلف قسم کے اور ہماری کہکشاں کے مختلف حصّوں میں گنے جا چکے ہیں۔ کہکشاں کی وسعت اور اس میں موجود ستاروں کی تعداد کو دیکھتے ہوئے ستاروں کی مکمل تعداد کو حاصل کرنے کے لئے مجھے ضرب دینا ہو گی : جو مل ملا کر دو کھرب ستارے بنتے ہیں۔ ان میں سے نوے فیصد ستارے اتنی کم عمر کے ہیں کہ وہ کسی قسم کے سیاروں کو تشکیل نہیں دے پائیں گے۔ مزید براں صرف دس فیصد چھوٹے ستارے ایسے ہیں جن میں سیارہ زمین میں پائے جانے والے بھاری عناصر موجود ہوں گے۔ ابھی تک ہمارا تخمینہ بہت ہی محفوظ اور طاقتور ہے۔ اب مجھے ضرورت ہے کہ یہ معلوم کروں کہ ان دس فیصد ستاروں میں سے کتنے ایسے ہیں جو زمین جیسے سیاروں کو پیدا کر سکتے ہیں۔
اب میں واپس سیاروں کی تعداد پر آتا ہوں جیسا کہ ہم نے ستاروں کے ساتھ کیا تھا۔ میں اب اس کو گنتا ہوں کہ ہمارے اب تک کیے جانے والے سروے میں کتنے ارض اور فوق ارضی سیارے جیسے سیارے دریافت ہوئے ہیں۔ یہ ایک مشکل مرحلہ ہے کیونکہ ابھی تک چند ہی فوق ارضی سیارے دریافت ہوئے ہیں (کوئی بھی زمین جیسا سیارہ دریافت نہیں ہو سکا ہے )؛ جیسا کہ ہم نے دیکھا تھا کہ ان کو ڈھونڈنا بڑے اور بھاری جسیم سیاروں کے مقابلے میں جوئے شیر لانے کے برابر ہے لہٰذا اس مشکل بات کو ہمیں اپنے اندازہ لگانے کے کام میں مد نظر رکھنا ہوگا۔ ایک طریقہ تو یہ ہے کہ سیاروں کی دریافت کے دو مختلف طریقوں کا موازنہ کیا اور دیکھا جائے کہ اس سے ہم فوق ارض اور گیسی دیو کی نسبت سے کس نتیجے پر پہنچتے ہیں۔ ڈوپلر منتقلی کے طریقے کا ثقلی عدسے کے طریقے کا مقابلہ کرتے ہوئے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ بھاری عناصر والے آدھے ستاروں میں کم از کم ایک ارض یا فوق ارض جیسا سیارہ ضرور ہوگا۔ اگر ہم فرض کریں کہ کوئی استحقاقی مدار موجود نہیں ہے اور سب کے سب برابر ہیں اور سیارے بننے کے بعد کسی بھی مدار میں ستارے کے گرد چکر لگا سکتے ہیں تو صرف ایسے ارضی اور فوق ارضی سیاروں میں سے دو فیصد سیارے ایسے ہوں گے جو ستارے کے قابل رہائش علاقے میں واقع ہوں گے۔ باقی ماندہ اٹھانوے فیصد سیارے یا تو ستارے سے بہت نزدیک ہوں گے یا پھر کافی دور۔ حتمی جواب تو کیپلر کا منصوبہ چند سال بعد ہی دے سکے گا لیکن ابتدائی مواد ہمارے لگائے ہوئے تخمینا جات سے بہت حد تک میل کھاتا ہے۔
اب میں اعداد کو جمع کرنے کے لئے تیار ہوں۔ ہماری کہکشاں میں موجود ان دو کھرب ستاروں کو محتاط اندازوں کے ساتھ کم کرنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ دس کروڑ ستارے ایسے ہیں جو قابل رہائش ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
یہ اعداد اگرچہ درست نہیں ہیں لیکن ہم اس کے بڑے ہونے سے فرار حاصل نہیں کر سکتے۔ دوسری جانب ان میں سے زیادہ تر سیاروں کی تعداد عمر میں ہماری زمین کے برابر ہی ہے۔ ان میں سے کچھ ہم سے چھوٹے ہیں جبکہ حال ہی میں بننے ہونے والے بھاری عناصر کی تعداد کو مد نظر رکھتے ہوئے ان میں سے چند کو ہم سے بڑا ہونا چاہئے۔ اس طرح کے وقت کی روک کے ساتھ ہمیں حیات کی ناگزیریت کے بارے میں کافی محتاط رہنا چاہئے۔ جس بارے میں ہم قطعیت کے ساتھ کہہ سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ حیات کوئی نایاب مظہر نہیں ہے -غالب گمان ہے کہ لازمی طور پر یہ کم از کم دس کروڑ میں سے ایک سیارے میں تو ہو گی۔ یہ گمان کرنا کچھ ایسا بھی برا نہیں ہے ؛ ایسی شاذونادر واقع ضرور وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ مئی ٢٠١١ ء میں امریکہ کی میگا ملین لاٹری کا بڑا انعام اس سال میں چار دفعہ نکل آیا جس کا گمان سترہ کروڑ ساٹھ لاکھ میں سے ایک کا تھا۔ درحقیقت ثنائی تقسیم کے مطابق دس کروڑ میں سے اٹھارہ فیصد دو لگاتار کامیابی کے مواقع موجود ہیں۔
جیسا کہ میں نے پہلے بھی گزرے ہوئے ابواب میں بیان کیا ہے ، ہم ایک نوجوان اور بدلتی ہوئی کائنات میں رہتے ہیں ، لہٰذا صرف ہماری اپنی کہکشاں میں دس کروڑ قابل رہائش سیاروں کا تخمینہ صرف سمندر میں ایک قطرے کی مانند ہے۔ ایک دفعہ جائیداد کی خرید و فروخت کرنے والے نے مجھ سے قابل رہائش سیاروں کے رجحان کے بارے میں سوال کیا کہ آیا ان کی تعداد بڑھ رہی ہے یا گھٹ رہی ہے ؟ سوال بہت اچھا تھا !
ستارے اس کا جواب دیتے ہیں۔ صرف دس برس پہلے ، ہبل خلائی دوربین کی مدد سے کافی دور دراز موجود کہکشاؤں کو ناپنا ممکن ہوا اس عمل کے دوران وقت کے ماضی میں بھی جھانکا گیا۔ فلکیات دان کہکشاؤں کے رنگوں کو بھی دیکھ سکتے تھے۔ کہکشاں کے رنگ اصل میں ہزار ہا ستاروں کے رنگوں کا مجموعہ تھا۔ جب یہ کام انتہائی احتیاط کے ساتھ مکمل کر لیا گیا اور فلکیات دانوں نے اس بات کا مکمل یقین کر لیا کہ گرد کی وجہ سے ہونے والی سرخی کتنی ہے اور باقی کتنی تو ایک حیرت انگیز نمونہ ظاہر ہوا۔ کہکشاؤں کے رنگ ان کے ابتدائی وجود کے دور میں نیلے مائل تھے ، لیکن آج سے سات ارب سال پہلے ان کے سرخی مائل ہونے کی رفتار نہایت تیز ہونا شروع ہو گئی تھی۔
ان بدلتے رنگوں کا کیا مطلب ہے؟ کہکشاؤں کے رنگ ان کو بنانے والے ستاروں کے رنگ سے ہی بنتے ہیں لہٰذا ہمیں ستاروں کے رنگوں کو جاننا ہوگا۔ اپنی حیات کا لگ بھگ ٩٠ فیصد یا اس سے بھی زیادہ حصّے کے دوران ستاروں کا رنگ ان کی ضخامت کا بتا سکتا ہے۔ جیسا کہ ہم آخری باب میں دیکھیں گے کہ جتنا زیادہ ضخیم ستارہ ہوگا اتنی ہی تیزی سے وہ اپنا ہائیڈروجن کا ایندھن پھونک دے گا۔ اس طرح سے وہ ستارہ زیادہ گرم اور روشن ہو جائے گا۔ اس کی اضافی توانائی اس کو نیلی روشنی کے ساتھ منور کرنا شروع کر دے گی ، بعینہ جیسے کہ برقی قمقمے کا فلامنٹ بجلی کے اسٹوو ہیٹر کے مقابلے میں کرتا ہے۔ زیادہ تیزی سے جلنے کا مطلب یہ ہے کہ بڑے ستاروں کا دور حیات بھی کم ہوتا ہے۔
لہٰذا اگر ہم نے نیلی کہکشاؤں کا مشاہدہ کیا ہے تو ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ ان میں سے اکثر میں بہت زیادہ بڑے اور بھاری ستارے ہوں گے اور ایسے بڑے ستارے شرحاً بہت تیزی کے ساتھ پیدا ہو رہے ہوں گے۔ اگرچہ بعد کے دور میں نیلی کہکشائیں بہت ہی کمیاب ہوں گی۔ لہٰذا دور دراز کی کہکشاؤں کے رنگ ہمیں ستاروں کی شرح پیدائش کے بارے میں بتاتے ہیں۔
ہبل سے حاصل کردہ تصویر میں وقت کے ساتھ کہکشاؤں کے بدلتی رنگت ہمیں ستاروں کی بدلتی شرح پیدائش کے بارے میں بتاتی ہے۔ ستارے اور کہکشائیں شروع میں بنے اور اس کے بعد ستاروں نے اگلے پانچ ارب سال تک مستقل تیزی سے اپنی پیدائش کی شرح کو جاری رکھا۔ کچھ ارب سال پہلے ماضی میں اس شرح میں کمی دیکھنے کو ملی ہے جو ٢٠٠٨ء کو ہونے والی دنیا کی کساد بازاری سے بھی زیادہ خطرناک ہے کیونکہ اس شرح میں بہتری کی کوئی امید نہیں ہے۔ بڑے ستاروں کا دور پورا ہو چکا ہے ! ہماری اور دور حاضر کی کائنات کی دوسری کہکشاؤں میں دس سے پچاس گنا تک کم ستارے موجود ہیں جن میں سے زیادہ تر ستاروں کی تعداد چھوٹے ستاروں کی ہے۔
تاریخ کیمیا اور حیات دونوں کے لئے اچھی رہی ہے۔ کم عمر اولین ستاروں کی فراواں کھیپ نے کائنات اور اگلی نسل کے ستاروں (اور سیاروں ) کو ثمر آور بھاری عناصر سے لبریز کر دیا ہے۔ چند بڑے نیلے ستاروں والی کہکشاں کیمیا اور حیات دونوں کے لئے بہتر ہے۔ ایکس ریز اور بالائے بنفشی روشنی جو "نیلے " بڑے ستارے بڑی تعداد میں پیدا کرتے ہیں حیات کے لئے پرخطر ہوتی ہیں۔ ماضی میں سات سے آٹھ ارب سال پہلے تک ہماری کائنات حیات کے لئے زیادہ سے زیادہ مہربان ہونا شروع ہوئی ہوگی اور اس جانب اس کا ارتقاء مستقبل میں ایک لمبے عرصے کے لئے جاری رہے گا۔
اسی دوران کم از کم دو ایسی وجوہات موجود ہیں جو ہمیں اپنی کہکشاں میں کثیر جہانوں کے بارے میں پرامید لگتی ہیں جہاں ہر جگہ حیات کا ماخذ الگ ہوگا۔ پہلی وجہ تو بظاہر حیات کے نمودار ہونے اور زمین کی سطح پر اس کے قدم جمانے کا عرصہ نہایت ہی کم لگتا ہے۔ دوسرے اب ہم یہ جان گئے ہیں کہ قابل رہائش سیاروں کا خاندان ہمارے وہم و گمان سے بھی کہیں زیادہ بڑا ہے جس میں فوق ارضی سیارے تو حیات کو پالنے پوسنے کے لئے نہایت ہی شاندار جگہ ہیں۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں