Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    جمعرات، 25 اگست، 2016

    آسیبی کوانٹمی الجھاؤ (اسپوکی کوانٹم انٹینگلمنٹ)


    آسیبی کوانٹم ربط کے مقابلے کا شاید کوئی فاتح ہے - الجھاؤ(Entanglement) کا تازہ ترین تجربہ شاید ناقابل ہیک انٹرنیٹ بنانے میں مدد دے سکتا ہے۔

    ڈیوین پال 



    ذرّات ان اصولوں کی پاسداری نہیں کرتے جن کی انسان کرتے ہیں۔ کسی ذرّے کو چھیڑیں، اور دور دراز پر موجود دوسرا ذرّہ فوری طور پر آپ کی اس چھیڑ چھاڑ کا جواب دے گا - یہ کام خلاء میں کسی بھی قسم کے پیغام رسانی کے بغیر ایسے ہوگا جیسے کہ وہ دو ذرّات ایک ہی ذرّے ہوں۔ "الجھاؤ" (Entanglement)کو کوانٹم طبیعیات "دلی قربت" کہتی ہے۔

    آئن سٹائن نے اس کو "آسیبی" کہا تھا ۔ مرنے کے وقت تک وہ اس بات سے انکاری تھا کہ قدرت اس قدر نامعقول ہو سکتی ہے۔

    تاہم ایک نیا نیدرلینڈز کا تحقیقی مقالہ شاید بابائے اضافیت کو بھی یقین دلا سکتا ہے کہ وہ غلط تھا۔ ٢٤ اگست ٢٠١٥ء کو آن لائن شایع ہوئے اس مقالے نے وہ پہلا تجربہ بیان کیا ہے جو الجھاؤ کو ثابت کرنے کے لئے ریاضی کے ان سنہری اصولوں سے مطابقت رکھتا ہے جن کو آج سے پچاس برس پہلے بنایا گیا تھا۔ مقالہ کا تجزیہ ابھی ساتھی طبیعیات دانوں نے اپنے تنقیدی جائزے (Peer review)میں نہیں کیا ہے؛ ابھی یہ ایک سائنس جریدے میں معائنے کے لئے گیا ہوا ہے، تاہم اس نے ابھی سے کوانٹم طبیعیات کی دنیا میں ہل چل مچا دی ہے۔

    "یہ کافی افسوس کی بات ہے کہ آئن سٹائن اس کو جاننے کے لئے زندہ نہیں ہے،" کینیڈا، البرٹا میں واقع یونیورسٹی آف کیلگری کے نظری کوانٹم طبیعیات دان کرسٹوفر سائمن کہتے ہیں۔ "کائنات ایسی معقول جگہ نہیں ہے جیسا کہ وہ چاہتا تھا۔"



    کوانٹم جستجو

    یہ تصوّر ١٩٣٠ء یا شاید اس سے بھی پہلے کا ہے کہ دو بظاہر ایک دوسرے سے الگ اجسام ایک کوانٹم جسم میں ضم ہو سکتے ہیں۔ تاہم ١٩٦٤ء میں طبیعیات دان جان اسٹیورٹ بیل نے پہلی مرتبہ الجھاؤ کا معیار درست کیا۔ ایک زبردست مقالہ اس نے ایک گمنام جریدے میں شایع کیا جس میں اس نے شماریاتی حد بندی کی تھی کہ کس طرح سے ذرّات انسانی پیمانے پر طبیعیات سے انحراف کئے بغیر ایک دوسرے سے باہمی عمل کرتے ہیں۔

    محققین نے اس کی تلاش میں دو دہائیاں بتا دیں یہاں تک کہ پہلی مرتبہ فرانس میں روشنی کے ذرّات کے جوڑے یہ برتاؤ کرتے ہوئے ملے جنہوں نے اس حد سے انحراف کیا۔ بہت سے لوگوں کے لئے یہ اس بات کا ثبوت تھا کہ ذرّات الجھ گئے تھے۔

    تاہم یہ اتنا آسان نہیں تھا۔ اس میں کچھ مسائل تھے۔ روشنی کا سراغ لگانے والے آلات کی محدودیت کی وجہ سے کچھ ذرّات غائب ہو گئے تھے۔ مزید براں فوٹون کو آپس میں اس قدر قریب رکھا گیا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ انہوں نے آپس میں کوئی پیغام رسانی کر لی ہو۔ الجھاؤ پر شک کرنے والوں نے نہ صرف اس سقم کی طرف اشارہ کیا تھا بلکہ کچھ اور چھپے ہوئے عوامل پر بھی اپنے شکوک و شبہات کا اظہار کیا تھا۔

    "غیر معمولی دعووں کے لئے غیر معمولی ثبوت درکار ہوتے ہیں،" کینیڈا ،اونٹاریو کے پریمیٹر انسٹیٹیوٹ فار تھیوریٹیکل فزکس ان واٹرلو کے نظری کوانٹم طبیعیات دان ، میتھیو لیفر کہتے ہیں۔ "اکثر کوانٹم طبیعیات دان جیسا کہ میں ہوں ، اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ الجھاؤ موجود ہے، تاہم چند ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو متبادل نظریات پر یقین رکھتے ہیں۔"

    ١٩٩٠ء کی دہائی کے آخر میں ویانا میں ایک ٹیم نے الجھے ہوئے فوٹون کو سینکڑوں میٹر دور الگ کرلیا تھا یہ فاصلہ اتنا تھا کہ "فاصلے کا مسئلہ" حل ہو گیا تھا۔ اکیسویں صدی کی شروعات میں یو ایس سائنس دانوں نے ایسے آلات بنائے جو اتنے اچھے تھے کہ وہ قریباً ان تمام بار دار جوہروں کا اتا پتا رکھ سکتے تھے جن کو انہوں نے ایک رسی میں باندھنے کی کوشش کی تھی اس طرح سے انہوں نے سراغ نہ لگانے کے مسئلے سے جان چھڑا لی تھی۔ تاہم ابھی تک کسی نے کوئی ایسا واحد مضبوط تجربہ نہیں کیا تھا جو دونوں مسائل کو ایک ہی وقت میں حل کر سکتا ہوں۔

    "بہت ساری گروہوں میں اس کام کو کرنے کی کوشش میں دوڑ لگی ہوئی ہے،" سائمن کہتے ہیں۔


    سخت ہیرا 

    رونالڈ ہینسن کی نظر تو ہیرے پر لگی ہوئی ہے۔ وہ قیمتی پتھر جس پر وہ اور ان کی ٹیم نیدرلینڈز کی ڈیلفٹ یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی میں انحصار کئے ہوئے ہیں وہ جان بوجھ کر ناقص بنائے ہیں۔ تجربہ گاہ میں تالیف کئے ہوئے اس میں بغیر الجھے الیکٹران موجود ہیں۔

    تازہ تجربے میں، ولندیزی سائنس دانوں نے ایک میل کے تین چوتھائی حصّے سے بھی کچھ زیادہ دور یونیورسٹی کے احاطے میں موجود دو الگ عمارتوں میں ہیرے کے چپس رکھے۔ ان بغیر الجھے ہوئے جوڑوں پر فوٹون کو الیکٹران کی مدد سے داغا گیا ۔ داغے گئے فوٹون فائبر آپٹک تاروں سے ہوتے ہوئے ایک تیسری عمارت میں ملے جہاں پر محققین نے ان کو الجھانے کی کوشش کی۔ جب وہ کامیاب ہو گئے تو ہیرے میں موجود الیکٹرانوں نے اپنے ساتھی بدل لئے اور ایک دوسرے سے الجھ گئے اس بات کی تصدیق نپائی کے ساتھ کی گئی۔

    الیکٹران کا پیچھا کرنے اور فوٹون کا کافی فاصلہ طے کرنے سے تجربہ دونوں سقم کو دور کرتا ہوا نظر آتا ہے۔



    ایک ناقابل ہیک انٹرنیٹ؟

    کرس مونرو جو جوائنٹ کوانٹم انسٹیٹیوٹ ان میری لینڈ کے ایک تجرباتی کوانٹم طبیعیات دان ہیں ، وہ ان سقم کے درو ہونے سے جس بات پرجوش ہیں وہ ایک نئی قسم کا انتہائی فائدہ مند ابلاغی جال (communication network)ہے، انٹرنیٹ کا کوانٹمی نسخہ۔ الجھے ہوئے ذرّات جو کسی ایسے جال میں روانہ کئے جائیں گے؛ وہ ہیکر سے محفوظ ہوں گے؛ کوئی بھی سن گن لینے والا اطلاعات کو اپنی موجودگی کو چھپا کر نہیں لے سکے گا۔

    "اطلاعات کی حفاظت کی ضمانت طبیعیات کے بنیادی قوانین دیں گے،" مونرو کہتے ہیں۔

    اگر اس طرح کے جال کبھی بنے تو کیا وہ ہیرے سے بنیں گے یہ ابھی دیکھنا ہوگا۔ اس نو دن چلنے والے تجربے میں، ہینسن کی جھلملاتی جگاڑ میں صرف ٢٤٥ الجھے ہوئے ذرّات کے جوڑے حاصل ہو سکے۔ ایک تجارتی پیمانے پر کام کرنے والے نظام کو ایک منٹ میں ہزار ہا یا شاید اس سے بھی زیادہ الجھے ہوئے جوڑے درکار ہوں گے۔

    ٢٤٥ واقعات کے ساتھ شماریات بتاتی ہے کہ چار فیصد امکان اس بات کا ہے کہ نتائج اتفاق سے حاصل ہوئے ہوں، یعنی اصل میں بیل کی حد ٹوٹی نہ ہو۔

    "بالفاظ دیگر٩٦ فیصد امکان اس بات کا ہے کہ انہوں نے مقابلہ جیت لیا،" پال کوئٹ کہتے ہیں جو ایک تجرباتی کوانٹم طبیعیات دان ہیں اور فوٹون پر کام کرتے ہیں اور یہ اس مقابلے میں یونیورسٹی آف ایلی نوائے ، اربانا شیمپین کی طرف سے حصّے لے رہے ہیں۔ "تابوت میں کیل گہرائی میں نہیں گڑھی ہے، اور مجھے یقین ہے کہ زیادہ عرصہ نہیں گزرے گا جب کم شماریاتی عدم یقینیت کے ساتھ نتائج ہمارے پاس موجود ہوں گے۔" 

    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    1 comments:

    Item Reviewed: آسیبی کوانٹمی الجھاؤ (اسپوکی کوانٹم انٹینگلمنٹ) Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top