ڈبلیومیپ سیارچے سے حاصل ہونے والا حالیہ ڈیٹا عظیم انجماد کا اشارہ کر رہا ہے۔ کائنات کی حیات کی تاریخ کا تجزیہ کرنے کے لئے یونیورسٹی آف مشی گن کے سائنس دانوں فریڈ ایڈم اور گریگ لافلن نے کوشش کی ہے کہ کائنات کی حیات کو پانچ مختلف مراحل میں بانٹ دیں۔ کیونکہ ہم اصل میں فلکیاتی وقت کے پیمانے کی بات کر رہے ہیں لہٰذا ہم لوگارتھمی وقت کا پیمانہ استعمال کریں گے۔ لہٰذا 1020 کا مطلب 20 ہوگا۔ (یہ وقت کا پیمانہ اسراع پذیر کائنات کے اثرات کو جانے بغیر بنایا گیا تھا۔ تاہم کائنات کے مراحل عمومی طور پر یہی رہیں گے۔)
وہ سوال جو ہمارا
پیچھا کرتا ہے وہ یہ ہے کہ کیا ذہین نوع
اپنی ذہانت کا استعمال باقی رہنے کے لئے، ان مختلف مراحل کے دوران جس میں قدرتی
تباہی کے سلسلے یہاں تک کہ کائنات کی موت بھی شامل ہے، کر سکتی ہے؟
مرحلہ اوّل :
قدیمی دور
پہلے مرحلے میں
(منفی 50 اور 5 یا 10-50 اور 105 کے درمیان ) کائنات ایک تیز رفتار پھیلاؤ سے گزرتی ہوئی تیزی سے ٹھنڈی ہوئی۔ ٹھنڈے ہوتے
ہوئے کافی قوّتیں جو پہلے "فوق قوّت " کی صورت میں متحد تھیں بتدریج الگ
ہوتی گئیں اور ہماری شناسا چار قوّتوں میں بٹ گئیں۔ قوّت ثقل سب سے پہلے الگ ہوئی،
اس کے بعد مضبوط نیوکلیائی قوّت، اور بالآخر کمزور نیوکلیائی قوّت۔ شروع میں
کائنات گدلی تھی اور آسمان سفید تھا کیونکہ روشنی بنتے ہی جذب ہو گئی تھی۔ تاہم 380
ہزار برس کے بعد کائنات اتنی ٹھنڈی ہو گئی
کہ جوہر آپس میں ٹکرا کر شدید حرارت سے
الگ ہونے کے بجائے قائم رہ سکیں ۔
آسمان کالا ہو گیا۔ پس منظر کی اشعاع
اسی دور سے تعلق رکھتی ہیں۔
اس دور میں،
قدیمی ہائیڈروجن ہیلیئم میں گداخت ہو گئی اور یوں حالیہ دور میں استعمال ہونے والے
نجمی ایندھن کی تخلیق ہوئی جو تمام کائنات
میں پھیلا ہوا ہے۔ کائنات کے ارتقا کے اس مرحلے پر ہماری معلوم حیات کا
وجود ناممکن تھا۔ حرارت اس قدر شدید تھی کہ کوئی بھی ڈی این اے یا دوسرا خود عمل انگیز منحنی سالمہ دوسرے جوہروں کے ساتھ اٹکل پچو ہونے والے
تصادموں میں پاش پاش ہو جاتے اور حیات کو ممکن بنانے والے کیمیائی عناصر کو بنا نہ
پاتے۔
مرحلہ دوم:
ستاروں بھرا دور
آج ہم مرحلے دوم
(6 اور 14 کے درمیان یا 106 یا 1014 سیکنڈ کے درمیان رہ رہے ہیں)، جب ہائیڈروجن گیس کو دبا کر ستارے
جل کر آسمان کو روشن کرنے لگے۔ اس دور میں ہم ہائیڈروجن سے لبریز ستاروں کو دیکھتے
ہیں جو ارب ہا برس تک جلتے رہیں گے تاوقتیکہ اپنا ایندھن پھونک نہ ڈالیں۔ ہبل
خلائی دوربین نے ستاروں کی تصاویر کو ان کے ارتقا کے تمام مراحل میں لیا ہے جس میں طفلی ستارے گھومتی ہوئی گرد و غبار کی
قرص گھرے ہوئے ہیں جو شاید سیاروں اور نظام ہائے شمسی کے پیش رو
ہیں۔
اس مرحلے میں ڈی
این اے اور حیات کو بنانے کی صورتحال
مثالی ہے۔ قابل مشاہدہ کائنات میں ستاروں کی زبردست تعداد کو دیکھتے ہوئے ماہرین
فلکیات معلوم سائنس کے قوانین کی بنیاد پر دوسرے نظام ہائے سیارگان پر ذی شعور مخلوق کے ابھرنے سے متعلق معقول دلائل دیتے ہیں۔ تاہم کسی بھی ذی شعور
حیات کی شکل کو کئی کونیاتی مسائل کو سامنا کرنا ہوگا ، کچھ تو اس کے خود ہی بنائے
ہوئے ہوں گے جیسا کہ آلودگی، عالمگیر حرارت
اور نیوکلیائی ہتھیار۔ فرض کریں کہ ذہین مخلوق اپنے آپ کو تباہ نہیں کرتی
تب اس کو لازمی طور پر قدرتی تباہی کے
سلسلے کا سامنا کرنا ہوگا جس میں سے کوئی
بھی اس کو تباہ کر دے گا۔
دس ہزار ہا برس کے وقت کے پیمانے پر کوئی برفیلا
دور ہو سکتا ہے ایسا جس نے شمالی امریکا کو
ایک میل گہری برف میں دفن کر دیا تھا ، یوں انسانی تہذیب کا پروان چڑھنا
ناممکن ہوگا۔ دس ہزار برس سے پہلے انسانی زندگی بھیڑیوں کے غول کی طرح خوراک کی تلاش میں چھوٹے اور الگ قبیلوں میں
رہتے ہوں۔ سائنس یا علم کی کوئی جمع پونجی نہ ہو۔ کوئی لکھی ہوئی چیز نہ ہو۔
انسانیت کا بس ایک ہی مقصد ہو : زندہ رہنا۔ پھر کسی وجہ سے برفیلا دور ختم ہو گیا
ہو جس کی وجہ کو ہم نہیں جانتے اور پھر انسان تیزی سے برف سے ستاروں پر کمند ڈالنے
کے لئے تیار ہو گیا ہو۔ بہرحال یہ بین
ثلجین دور بھی ہمیشہ باقی رہنے کے لئے نہیں ہے۔ شاید ایک اور دس ہزار برس کے بعد
ایک اور برفیلا دور پوری دنیا کو برف کی لپیٹ میں لے لے گا۔ ماہرین ارضیات کو یقین
ہے کہ زمین کے محور کے گرد گھماؤ میں ہونے والی چھوٹی
تبدیلیاں بالآخر برف کی چوٹیوں کو نیچے ارتفاع
پر بہنے کی اجازت دیتی ہیں جس سے زمین جما دینے والی برف سے ڈھک جاتی ہے۔ اس
وقت ہم شاید زمین کے اندر اپنے آپ کو گرم رکھنے کے لئے چلے جائیں گے۔ کبھی زمین
پوری برف سے ڈھکی ہوئی تھی۔ یہ دوبارہ بھی ہو سکتا ہے۔
ہزار ہا برس سے
لے کر دس لاکھ برس کے پیمانے پر ہمیں لازمی طور پر سیارچوں اور شہابیوں کے حملوں
کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ شہابیے یا سیارچے کے تصادم نے ہی 6
کروڑ 50 لاکھ برس پہلے ڈائنوسارس کا خاتمہ کر دیا تھا۔ سائنس دانوں کو یقین ہے کہ
خلائی ماورائے ارضی جسم نےمیکسیکو کے
جزیرہ نما یوکاتان کو کھود ڈالا
تھا جس سے 180 میل پر پھیلا ہوا شہابی گڑھا بنا اور اتنا گرد و غبار نکلا جس نے
ماحول کو ڈھانک کر سورج کی روشنی کو اپنی اوٹ میں چھپا لیا تھا اور زمین پر
اندھیرا کر دیا تھا یوں زمین پر جما دینے والے درجہ حرارت نے نباتاتی حیات اور اس وقت زمین پر حکمرانی کرنے والے
ڈائنوسارس کو ختم کر دیا تھا۔ ایک برس کے عرصے سے بھی کم وقت میں ڈائنوسارس اور
زمین پر زیادہ تر نوع ختم ہو گئیں تھیں۔
ماضی کے تصادموں
کی شرح کو دیکھتے ہوئے ایک لاکھ میں سے ایک کے
اتفاقا وقوع ہونے کا امکان ہے کہ اگلے پچاس برسوں میں ایک سیارچے کا
تصادم پوری دنیا میں تباہی پھیلا سکتا ہے۔
دسیوں لاکھوں برس میں ایسے کسی اتفاق کی
شرح بڑھ کر شاید سو فیصد ہو سکتی ہے۔
(اندرونی نظام
شمسی جہاں پر زمین واقع ہے، وہاں اندازاً ایک ہزار سے پندرہ سو کے قریب سیارچے ایسے ہیں
جو ایک کلومیٹر یا اس سے بڑے ہیں اور دس لاکھ کے قریب 50 میٹر یا اس سے بڑے سیارچے
موجود ہیں۔ کیمبرج کی اسمتھ سونین فلکی طبیعیاتی رصدگاہ میں کیا جانے والے مشاہدے میں پندرہ ہزار
روزانہ کی شرح سے سیارچوں کا زمین سے ٹکرانا معلوم ہوا ہے۔ خوش قسمتی سے صرف
بیالیس معلوم سیارچے ایسے ہیں جن کا زمین سے ٹکرانے کا محدود امکان ہے۔ ماضی میں ان سیارچوں کے ٹکرانے سے
متعلق کچھ غلط اشارے بھی ملے ہیں، سب سے مشہور سیارچہ 1997XF11 تھا جس کے بارے میں ماہرین فلکیات نے غلطی سے تیس برس کے اندر زمین سے ٹکرانے کا اندازہ لگا لیا تھا جس سے
پوری دنیا میں کھلبلی مچ گئی تھی۔ تاہم ایک سیارچے 1950DA کا محتاط اندازہ لگانے کے بعد سائنس دانوں نے حساب لگایا کہ اس
بات کا امکان اگرچہ صفر تو نہیں ہے تاہم کم ہے کہ یہ شاید زمین سے 16مارچ 2880ء میں
زمین سے ٹکڑا جائے۔ سانتا کروز میں واقع یونیورسٹی آف کیلی فورنیا میں کی گئی
کمپیوٹر نقل نے بتایا کہ اگر یہ سیارچہ
سمندروں سے ٹکرایا تو یہ 400 فٹ بلند
لہریں پیدا کرے گا جو زیادہ تر ساحلی
علاقوں کو تباہ کن سیلاب کی صورت میں نگل لے گا۔)
ایک ارب برس کے پیمانے پر ہمیں اس بات کی فکر
کرنی ہوگی کہ سورج زمین کو نگل جائے گا۔ سورج پہلے ہی اپنی عہد طفلی کے دور کے
مقابلے میں 30 فیصد زیادہ گرم ہو گیا ہے۔ کمپیوٹر سے کی گئی تحقیق سے معلوم ہوتا
ہے کہ تین ارب 50 کروڑ برس میں سورج آج کے مقابلے میں 40 فیصد زیادہ گرم ہوگا یعنی
زمین بتدریج گرم ہوتی جائے گی۔ دن کے آسمان میں سورج بڑے سے بڑا ہوتا نظر آتا جائے
گا تاوقتیکہ افق تا افق زیادہ تر آسمان کو ڈھانک لے ۔ کم عرصے کے درمیان زندہ مخلوق بے بسی کی حالت میں سورج کی جلا دینے
والی حرارت سے جائے پناہ تلاش کر رہی ہوں گی۔ شاید وہ مجبور ہو کر سمندر میں واپس
چلی جائیں اور یوں ارتقا کی تاریخ اس
سیارے پر پلٹ جائے ۔ بالآخر سمندر بھی
ابل جائیں گے اور ہماری جانی پہچانی حیات
کا وجود قائم رکھنا ناممکن ہو جائے گا۔ 5 ارب برس بعد سورج کے قلب میں
ہائیڈروجن ختم ہو جائے گی اور وہ سرخ دیو میں منقلب ہو جائے گا۔ کچھ سرخ ستارے تو
اتنا دیوہیکل ہوتے ہیں کہ وہ اگر ہمارے
سورج کی جگہ ہوتے تو مریخ تک ہر چیز نگل
جاتے۔ تاہم ہمارا سورج ممکنہ طور پر صرف زمین کے مدار تک ہی پھیلے گا اور عطارد
اور زہرہ کو نگلتا ہوا زمین کے پہاڑوں کو پگھلا دے گا۔ لہٰذا ہماری زمین کا مقدر برف کے بجائے آگ کی موت ہوگا اور مرنے کے بعد
ایک جلی ہوئی سوختہ لاش سورج کے گرد چکر لگانے کو باقی بچ جائے گی۔
کچھ طبیعیات دان
کہتے ہیں کہ اس سے پہلے کہ یہ واقعہ وقوع پذیر ہو اگر ہم کسی دیوہیکل خلائی کشتی
میں زمین سے دوسرے سیارے کی طرف ہجرت نہ کر سکے تو ہمیں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے زمین
کو سورج کے گرد بڑے مدار میں اٹھا کر رکھ دینا چاہئے۔ " جب تک لوگ سورج کے زیادہ روشن ہونے سے پہلے ذہین اور برق
رفتار ہوں گے تو زمین زندہ رہے گی،" یہ ماہر فلکیات اور مصنف کین کراس
ویل کہتے ہیں۔
سائنس دانوں نے
زمین کو اس کے سورج کے گرد دور حاضر کے مدار سے اٹھا کر کہیں اور رکھنے کے کئی
طریقے پیش کئے ہیں۔ ایک سادہ طریقہ تو یہ ہے کہ احتیاط کے ساتھ سیارچوں کے سلسلے
کو سیارچوں کی پٹی سے لاکر زمین کے قریب زور سے گزارا جائے۔ غلیل کا یہ اثر زمین
کے مدار کو افزودہ کرکے اس کا فاصلہ سورج سے بڑھا دے گا۔ ہر مرتبہ زمین بتدریج
حرکت کرے گی تاہم سینکڑوں سیارچوں کو اس
طرح سے استعمال کرنے کے لئے کافی وقت درکار ہوگا۔ "سورج کے سرخ دیو میں بدلنے
سے پہلے کافی ارب برسوں کے دوران ہماری
نسل کسی گزرتے تارے کو پھانس کر سورج کے
گرد مدار میں ڈال سکتی ہے اور پھر اپنے شمس کے گرد مدار کو ترک کرکے خود کو نئے ستارے کے مدار میں ڈال سکتی ہے ،"
کراس ویل مزید اضافہ کرتے ہیں۔
ہمارے سورج کا
مقدر زمین سے الگ ہوگا، یہ آگ کے بجائے برف میں منجمد ہو کر مرے گا۔ 70 کروڑ برس
تک ہیلیئم کو بطور سرخ دیو جلانے کے بعد
بالآخر سورج اپنا زیادہ تر نیوکلیائی ایندھن پھونک چکا ہوگا اور قوّت ثقل اس کو
ایک سفید بونے میں تبدیل کر چکی ہوگی جس کا حجم لگ بھگ زمین کے جتنا ہوگا۔ ہمارے
سورج سپرنووا اور پھر بلیک ہول بننے کے لئے کافی چھوٹا ہے۔ جب ہمارا سورج سفید
بونا بن جائے گا اور آخر میں ٹھنڈا ہو جائے گا اس کے بعد مدھم سرخ رنگ میں چمکتا
رہے گا پھر بھورا ہوگا اور آخر میں کالا ہو جائے گا۔ یہ کونیاتی خلاء میں مردہ
نیوکلیائی فضلے کی صورت میں گھومتا رہے گا۔ اپنے ارد گرد دیکھے جانے والے تمام
جوہروں کا مستقبل بشمول ہمارے اور ہمارے
پیاروں کے اجسام کا مستقبل ایک جلے ہوئے
کالے بونے ستارے کے گرد گھومتے ہوئے ہوگا۔ کیونکہ یہ بونا ستارہ صرف سورج کی کمیت
کا 0.55
ہوگا لہٰذا زمین پر جو بھی کچھ بچا ہوا ہوگا وہ آج سے مزید 70 فیصد دور مدار میں
چلا جائے گا۔
اس پیمانے پر ہم
دیکھتے ہیں کہ نباتات اور جمادات کی بہار
زمین پر صرف ایک ارب برس تک ہی قائم رہ سکتی ہے ( اور ہم اس سنہری دور کا نصف حصّہ
طے کر چکے ہیں )۔ "اماں قدرت نے اس
طرح چیزوں کو نہیں بنایا کہ ہمیں خوش رکھے،" ماہر فلکیات ڈونلڈ براؤن لی کہتے
ہیں۔ کائنات کی عمر سے موازنہ کرتے ہوئے
حیات کی بہار تو وقت میں بہت ہی مختصر عرصے کے لئے قائم ہے۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں