دماغ کو سن کر
دینے والی شرائط عظیم انجماد کے آخر میں آنے کے بعد سائنس دان اس بارے میں بحث کر رہے ہیں کہ آیا کسی بھی قسم کی
ذہین حیات ممکنہ طور پر زندہ باقی رہ سکتی ہے ۔ شروع میں ایسا لگتا تھا کہ مرحلہ
پنجم میں جب درجہ حرارت مطلق سفر تک گر جائے گا
حیات کا زندہ باقی رہنے کی بحث فضول ہے۔ بہرحال ایک روح کو گرما دینے والی
بحث طبیعیات دانوں کے درمیان جاری ہے کہ آیا ذی شعور حیات زندہ بچ سکتی ہے یا
نہیں۔
بحث دو اہم
سوالات کے گرد گھومتی ہے۔ پہلا یہ ہے کہ
آیا ذہین ہستیاں اپنی مشینوں کو اس وقت چلا سکتے ہیں جب درجہ حرارت مطلق صفر ہو؟
حر حرکیات کے قوانین کی رو سے توانائی کیوں کہ بلند درجہ سے پست درجہ تک بہتی ہے
لہٰذا اس توانائی کی حرکت کو قابل لائق میکانکی کام کرنے کے لئے استعمال کیا جا
سکتا ہے۔ مثال کے طور پر میکانکی کام ایک حرارتی انجن سے حاصل کیا جا سکتا ہے جو دو مختلف علاقوں کو آپس میں جوڑے جن کا درجہ
حرارت مختلف ہو۔ جتنا زیادہ درجہ حرارت میں فرق ہوگا اتنی ہی انجن کی کارکردگی
اچھی ہوگی۔ یہی وہ بنیادی میکانیات ہے جس نے صنعتی انقلاب کی داغ بیل ڈالی جیسا کہ
بھاپ سے چلنے والا انجن اور ریل ۔ شروع میں تو یہ ناممکن لگتا کہ مرحلہ پنجم سے
کسی قسم کی توانائی کو حاصل کیا جا سکتا ہے کیونکہ تمام درجہ حرارت ایک ہی جیسا
ہوگا۔
دوسرا سوال ہے کہ
آیا ذہین حیات اطلاعات کی ترسیل و وصولی
کر سکے گی؟ اطلاعات کے نظرئیے کے مطابق سب سے چھوٹی اکائی جس کو بھیجا اور وصول
کیا جا سکے وہ درجہ حرارت کی نسبت سے ہوتی ہے۔ کیونکہ درجہ حرارت مطلق صفر تک گر
جائے گا لہٰذا اطلاعات پر عمل کاری کرنے کی قابلیت بہت بری طرح سے متاثر ہوگی۔
اطلاعات کی اکائی کو ٹھنڈی ہوتی کائنات کے ساتھ چھوٹے سے چھوٹا تر ہونا پڑے گا۔
طبیعیات دان فری
مین ڈائی سن اور دوسروں نے مرتی ہوئی
کائنات میں ذی شعور حیات کی جدوجہد کا دوبارہ سے تجزیہ کیا۔ کیا کچھ اختراعی
طریقے ذہین حیات کے لئے اس وقت زندہ رہنے
کے لئے پائے جاتے ہوں گے جب درجہ حرارت گر
کر مطلق صفر کے قریب ہو گیا ہو ؟ وہ پوچھتے ہیں۔
کیونکہ درجہ
حرارت پوری کائنات میں ایک ساتھ گرنا شروع ہوگا
لہٰذا مخلوق پہلے اپنے جسم کا درجہ حرارت جینیاتی طریقوں سے کم کرنے کی کوشش کرے گی۔ اس طرح سے وہ کم ہوتی
توانائی سے بہتر انداز میں نمٹ سکیں گے۔
تاہم بالآخر جسمانی درجہ حرارت اس نقطے پر پہنچ جائے گا جہاں پانی جم جاتا ہے۔ اس
وقت ذی شعور مخلوق کو اپنے گوشت و خون سے بنے نازک بدن کو چھوڑنا پڑے گا اور
روبوٹک اجسام میں پناہ لینی ہوگی۔ میکانکی جسم گوشت پوست کے مقابلے میں سردی کو
بہتر انداز میں برداشت کر سکتی ہیں۔ تاہم مشینوں کو بھی قوانین اطلاعات و حر
حرکیات کا تابع ہونا پڑتا ہے جس کی وجہ سے
روبوٹس کے لئے بھی زندگی گزارنا انتہائی مشکل ہو جائی گی۔
یہاں تک کہ اگر ذی
شعور ہستیاں اپنے روبوٹک اجسام کو چھوڑ کر خود کو خالص شعور میں منتقل کر لیں تب بھی اطلاعات رسانی کی عمل کاری میں مسئلہ
ہوگا۔ درجہ حرارت مسلسل گر رہا ہوگا صرف
زندہ رہنے کا ایک ہی طریقہ یعنی آہستہ سوچو بچتا ہے ۔ ڈائی سن نتیجہ اخذ کرتے ہیں ذہین حیات کی صورت تب بھی
سوچنے کے قابل ہوگی بشرطیکہ وہ لامتناہی وقت میں سوچتے ہوئے اطلاعات
کی عمل کاری کے لئے درکار وقت کو پھیلا دے اور خود توانائی کو بچانے کے لئے
غنودگی میں چلی جائے۔
ہرچند کہ
طبیعیاتی وقت جو سوچنے اور اطلاعات پر عمل کاری کے لئے درکار ہوگا وہ ارب ہا برسوں
پر پھیل چکا ہوگا ، نفسی وقت ذہین مخلوق کے لئے ویسا ہی رہے گا۔ وہ اس کا
فرق کبھی محسوس نہیں کریں گے۔ وہ اس وقت بھی اتنی ہی گہرائی میں سوچیں گے تاہم وقت
کا پیمانے انتہائی سست ہوگا۔ ڈائی سن نتیجہ
ایک انتہائی عجیب تاہم رجائی طور پر
نکالتے ہیں کہ اس طرح سے ذہین حیات
اطلاعات پر عمل کاری کرکے سوچنے کے قابل لامتناہی طور پر ہو جائے گی۔ ایک خیال کو
سوچنے کے لئے کھرب ہا برس کا طویل عرصہ لگے گا تاہم نفسی وقت کے لحاظ سے سوچنا عام
حالت کی طرح ہی ہوگا۔ تاہم اگر ذہین مخلوق سست رفتاری سے سوچے گی تو شاید وہ
کونیاتی کوانٹم عبور کو کائنات میں دیکھ سکیں۔
عام طور پر اسی
طرح کا کونیاتی عبور جیسا کہ نوزائیدہ کائنات کی تخلیق یا کسی اور کوانٹم کائنات
میں منتقلی میں کھرب ہا برسوں کا وقت لگتا
ہے لہٰذا وہ خالص نظریاتی ہیں۔ مرحلہ پنجم
میں بہرحال کھرب ہا برس نفسی وقت سے کم ہو کر ان ہستیوں کے لئے صرف چند سیکنڈ ہی
ہوں؛ وہ اس قدر سست سوچیں گے کہ ہو سکتا ہے کہ انہوں عجیب و غریب کوانٹم کے واقعات
وقوع پذیر ہوتے ہوئے ہر وقت دکھائی دیں۔ وہ باقاعدگی کے ساتھ کائناتی بلبلے عدم سے نکلتے ہوئے یا کوانٹم کی چھلانگوں کو
دوسری متبادل کائنات میں لگاتا ہوا دیکھ سکیں گے۔
تاہم حالیہ اسراع پذیر کائنات کی دریافت کے بعد
طبیعیات دانوں نے ڈائی سن کے کام کا
دوبارہ تجزیہ کیا ہے اور ایک نئی بحث شروع کردی ہے اور وہ بحث کے مخالف نتیجے کو نکال کر بیٹھ گئے ہیں۔ ذی شعور حیات
کو ایک اسراع پذیر کائنات میں لازمی طور پر فنا ہونا ہوگا ۔ طبیعیات دان لارنس کراس اور گلین اسٹار مین نے نتیجہ نکالا، " ارب ہا برس پہلے کائنات
حیات کے وجود کے لئے بہت شدید گرم تھی، لاتعداد ادوار میں یہ ایسی
ٹھنڈی اور خالی ہو جائے گی کہ حیات کو لامحالہ چاہئے وہ جتنی ہی اختراعی
کیوں نہ ہو جائے ختم ہونا ہوگا۔"
ڈائی سن کے اصل کام میں اس نے کائنات میں منفی 2.7 ڈگری والی خرد امواج کو ہمیشہ کے لئے درجہ حرارت گرانا جاری
رکھا تھا اس طرح سے ذہین ہستیاں درجہ
حرارت میں ان معمولی فرق سے کام لائق
چیزیں حاصل کر سکتے تھے۔ جب تک درجہ حرارت گرنا جاری رکھے گا کام کے قابل
چیزوں کو حاصل کرنا ممکن ہوگا۔ بہرحال کراس اور اسٹیک مین نے کہا کہ اگر کائنات کے پاس کونیاتی مستقل ہے تو
درجہ حرارت ہمیشہ نہیں گرتا جائے گا، جیسا کہ ڈائی سن نے اندازہ لگایا تھا بلکہ یہ اپنی نچلی حد تک
گبسن ہاکنگ درجہ حرارت (لگ بھگ 10-29 تک جا پہنچے گا۔
ایک مرتبہ اس درجہ حرارت تک پہنچ جائے تو پوری کائنات میں یہی درجہ
حرارت رہے گا لہٰذا ذہین ہستیاں درجہ حرارت میں فرق کی وجہ سے قابل کام توانائی کو
حاصل نہیں کر سکیں گی۔ ایک مرتبہ تمام کائنات یکساں درجہ حرارت تک پہنچ جائے تو
تمام عمل کاری کا عمل رک جائے گا۔
(1980ء کی دہائی
میں یہ معلوم ہوا کہ کچھ مخصوص کوانٹم کے نظام
جیسا کہ مائع میں براؤنی حرکت کو کمپیوٹر کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے اس
بات سے قطع نظر کہ باہر کا درجہ حرارت کتنا سرد ہے۔ لہٰذا درجہ حرارت گرنے کے
باوجود یہ کمپیوٹر کم سے کم توانائی کا استعمال کرتے ہوئے بھی عمل
کاری کو جاری رکھ سکیں گے۔ یہ ڈائی سن کے
لئے ایک اچھی خبر ہے۔ تاہم یہاں ایک مسئلہ ہے۔ نظام کو دو شرائط کو پورا کرنا ہوگا
: اس کو ماحول کے ساتھ توازن میں رہنا ہوگا، اور
اطلاع کو ضائع کبھی نہیں کرنا ہوگا۔
تاہم اگر کائنات
پھیلتی ہے تو توازن حاصل کرنا مشکل ہے کیونکہ اشعاع اپنی طول موج میں مہین اور
کھینچتی چلی جائیں گی۔ ایک اسراع پذیر کائنات اتنی تیزی سے تبدیل ہوگی کہ نظام کو
توازن میں قائم رکھنا بہت ہی مشکل ہوگا۔
اور دوسری شرط
اطلاع کو کبھی ضائع نہ کرنے کا مطلب یہ ہوگا کہ ذہین ہستیوں کو کبھی بھولنا نہیں
ہوگا۔ بالآخر ذہین ہستیاں پرانے خیالات
کو بھلا نہیں سکیں گی اور پرانے خیالات کو بار بار یاد کرتی رہیں گی۔ " ابدیت
ایک طرح سے غیر مختتم تخلیقی و تفتیشی افق کے بجائے ایک جیل بن جائے گی۔ ہو سکتا ہے کہ وہ نروانا ہو ،
تاہم کیا اس کو زندگی کہیں گے؟" کراس اور اسٹار مین سوال اٹھاتے ہیں۔)
مختصراً ہم
دیکھتے ہیں کہ اگر کونیاتی مستقل صفر سے قریب ہے تو ذہین حیات غنودگی اور آہستہ سوچنے کے ساتھ لامحدود طور پر
سوچ سکتی ہے کیونکہ کائنات ٹھنڈی ہوگی۔ تاہم ایک اسراع پذیر کائنات میں جیسا کہ
ہماری ہے یہ ناممکن بات ہے۔ تمام ذہین حیات کا مقدر قوانین طبیعیات کی رو سے فنا ہونا لکھا ہے۔ اس تفوق کی جگہ کھڑے ہو کر کونیاتی تناظر سے
ہم دیکھتے ہیں کہ ہماری جانی پہچانی حیات کی شرائط ایک لمبی کہانی میں موجود عارضی قسط ہیں۔ صرف
تھوڑی سی جگہ ہی ایسی ہے جہاں درجہ حرارت
حیات کی نمو کے لئے موزوں ہے نہ زیادہ گرم نہ زیادہ ٹھنڈا۔
کائنات سے رخت سفر باندھنا
اطلاعات کی عمل
کاری کے حتمی طور پر رک جانے کو ہم موت
کہہ سکتے ہیں۔ کائنات میں موجود کوئی
بھی ذہین نوع جس نے طبیعیات کے بنیادی قوانین کو سمجھنا شروع کیا ہو وہ لامحالہ طور پر مجبور ہوگی کہ کائنات میں
موجود ذہین حیات کی حتمی
موت کا سامنا کرے۔
خوش قسمتی سے کافی
وقت موجود ہے جس میں ہم کسی ایسے سفر کے لئے توانائی کو جمع کر سکیں اور بہرحال اس
کے متبادل بھی موجود ہیں جیسا کہ ہم اگلے باب میں دیکھیں گے۔ جس سوال کو ہم جانیں گے
وہ یہ ہے کہ آیا قوانین طبیعیات ہمیں اجازت دیتے ہیں کہ ہم متوازی کائنات میں فرار
ہو جائیں؟
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں