لیکن وہ مشین جو حتمی طور پر اس طرح کے کافی سوالات کا فیصلہ کرے گی وہ ایل ایچ سی (لارج ہیڈرون کولائیڈر ) ہے جو اب تکمیل کے آخری مراحل میں جنیوا ،سوئٹزر لینڈ کے قریب مشہور زمانہ تجربہ سرن میں واقع ہے۔ ہماری دنیا میں قدرتی طور پر پائے جانے والی مادّے کی اجنبی اقسام پر ہونے والے تجربات کے برعکس ایل ایچ سی اس قابل ہوگی کہ تجربہ گاہ میں خود سے ان ذرّات کو براہ راست پیدا کر سکے۔ ایل ایچ سی اس قابل ہوگی کہ ننھے فاصلوں یعنی پروٹون سے دس ہزار گنا چھوٹے فاصلے تک کی کھوج کر سکے اور ساتھ ساتھ ایسا درجہ حرارت پیدا کرے گی جس کو بگ بینگ کے بعد نہیں دیکھا گیا ہوگا۔ "طبیعیات دانوں کو یقین ہے کہ قدرت نے جن چیزوں کو اپنی آستینوں میں چھپایا ہوا ہے ان کو ان جھولوں میں لازمی طور پر افشاں ہونا ہوگا - شاید ایک اجنبی ذرّہ جیسا کہ ہگس بوسون جو شاید فوق تشاکل کے معجزانہ اثر کے ثبوت کے طور پر دریافت ہو جائے۔ یا شاید کوئی ایسی ناقابل امید چیز سامنے نمودار ہو جائے جو نظری ذرّاتی طبیعیات کو اپنے سر پر اٹھا لے،" سرن کے سابقہ ڈائریکٹر جنرل اور اب لندن کی یونیورسٹی کالج کے صدر لیویلن اسمتھ لکھتے ہیں۔ سرن کے آلات سے پہلے ہی ہزاروں استعمال کنندہ موجود ہیں یہاں سیارے پر موجود آدھے سے بھی زائد ذرّاتی طبیعیات کام کر رہے ہیں۔ اور ان میں سے اکثر ایل ایچ سی کے تجربات میں براہ راست شامل ہیں۔
ایل ایچ سی ایک طاقتور دائروی مشین ہے جس کا نصف قطر ٢٧ کلومیٹر ہے یہ اتنی بڑی ہے کہ دنیا کے کافی شہروں کے گرد لپٹ جائے۔ اس کی سرنگ اتنی لمبی ہے کہ یہ فرانسیسی سوئس سرحد تک پھیلی ہوئی ہے۔ ایل ایچ سی کی لاگت اتنی زیادہ تھی کہ یورپ کی کئی اقوام نے مل کر اس کو بنانے کا اشتراک کیا۔ جب یہ 2007ء میں حتمی طور پر چلنا شروع کرے گی تو طاقتور مقناطیس اس طرح سے دائروی سرنگ میں ترتیب ہوں گے کہ وہ پروٹون کی شعاع کو بڑھتی ہوئی توانائی کے ساتھ چکر لگوائیں گے تاوقتیکہ توانائی کی سطح 14 کھرب الیکٹران وولٹ تک پہنچ جائے گی۔
یہ مشین بڑے دائروی خالی خانے پر مشتمل ہوگی جہاں بہت بڑے مقناطیس اس طرح سے لگے ہوں گے کہ وہ طاقتور کرن کو ایک دائرے میں موڑ دیں گے۔ جیسا کہ یہ ذرّات سرنگ میں گھومتے ہیں توانائی خانے میں ڈالی جاتی ہے جس سے پروٹون کی سمتی رفتار بتدریج بڑھتی ہے۔ جب کرن حتمی طور پر اپنے ہدف سے ٹکراتی ہے تو اس سے دیوہیکل اشعاع کی پھوار نکلتی ہے۔ اس سے نکلنے والے ٹکڑوں کی سراغ رساں تصاویر بناتے ہیں تاکہ نئے ، اجنبی ذیلی جوہری ذرّات کے ثبوت حاصل کرسکیں۔
ایل ایچ سی واقعی میں ایک قوی الجثہ مشین ہے۔ لیگو اور لیزا حساسیت کے لحاظ سے تاہم ایل ایچ سی زبردست طاقت کے لحاظ سے آگے ہوگی۔ اس کے طاقتور مقناطیس جو پروٹون کی کرن کو ایک نفیس قوس میں تبدیل کرتے ہیں وہ 8.3 کے ٹیسلاس کے میدان پیدا کرے گی جو زمین کے مقناطیسی میدان سے 160 ہزار گنا زیادہ طاقتور ہیں۔ اس طرح کے جناتی مقناطیسی میدان پیدا کرکے طبیعیات دان برقی رو کو 120 ہزار ایمپ تک ایک لچھے میں پہنچا سکتے ہیں جس کو منفی 271 سینٹی گریڈ تک ٹھنڈا کرنا ہوتا ہے۔ اس درجہ حرارت پر لچھے تمام مزاحمت کو ترک کرکے فوق موصل بن جاتے ہیں۔ کل ملا کر اس میں 15,123 میٹر لمبے مقناطیس موجود ہیں جنہوں نے مشین کے گھیراؤ کے 85 فیصد حصّے کو قبضے میں لیا ہوا ہے۔ سرنگ میں پروٹون کو روشنی کی رفتار کے 99.999999 فیصد تک اس وقت تک اسراع دیا جاتا ہے جب تک وہ ہدف سے نہ ٹکرا جائیں جو سرنگ میں چار جگہوں پر موجود ہوتے ہیں ، اس طرح سے ہر سیکنڈ میں ارب ہا تصادم پیدا کئے جاتے ہیں۔ عظیم الجثہ سراغ رساں وہاں لگائے ہوئے ہیں( سب سے بڑے کا حجم چھ منزلہ عمارت جتنا ہے) تاکہ دھول کا تجزیہ کرکے حیران کن ذیلی جوہری ذرّات کی تلاش کی جا سکے۔
جیسا کہ اسمتھ نے پہلے بتایا ہے ایل ایچ سی کا ایک مقصد حیرت انگیز ذرّے ہگس بوسون کی تلاش ہے جو معیاری نمونے کا آخری ٹکڑا اور قابو ہونے سے ابھی تک باقی بچا ہوا ہے۔ اس کی اہمیت کی وجہ یہ ہے کہ یہ ذرّہ بے ساختہ تشاکل کو توڑنے کا ذرّاتی نظریات میں ذمہ دار ہے اور کوانٹم کی دنیا میں کمیت دینے کا ذمہ دار بھی ہے۔ ہگس بوسون کی کمیت کا تخمینہ کہیں 115 سے 200 ارب الیکٹران وولٹ کے درمیان ہے (موازنے کے لئے سمجھ لیں کہ پروٹون کا وزن ایک ارب الیکٹران وولٹ ہوتا ہے۔ ٹیواٹران ، شکاگو کے باہر فرمی لیب کی ایک کافی چھوٹی مشین ہے ، ہو سکتا ہے کہ یہ وہ پہلی مشین ہو جو حیران کن ہگس بوسون کو ڈھونڈ لے بشرطیکہ ذرّہ کی کمیت زیادہ نہ ہو ۔ اصولی طور پر ٹیوا ٹران دس ہزار تک ہگس بوسون کو پیدا کر سکتی ہے اگر وہ منصوبہ کے مطابق چل پائے ۔ ایل ایچ سی بہرحال اس سے سات گنا زیادہ توانائی کے ساتھ ذرّات کو پیدا کر سکتی ہے۔ 14 کھرب الیکٹران کے ساتھ ایل ایچ سی ہگس بوسون کے ذرّات کا کارخانہ بن سکتی ہے جس میں وہ پروٹون کے تصادم سے لاکھوں کی تعداد میں ان کو جنم دے سکتی ہے ۔)
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں