جواب: رون ڈیوس، طبیعیات دان، تقریباً ہر چیز میں دلچپسی لینے والا، زمین کا دیرینہ رہائشی۔
اگر ہم زمین جیسے کسی ایسے سیارے کے گرد ارتقاء پذیر ہوتے جو مختلف رنگ کے ستارے کے گرد چکر لگاتا، تو ہماری آنکھیں اس رنگ کی روشنی کے زیادہ سے زیادہ استعمال سے فائدہ اٹھانے کے لئے ارتقاء پذیر ہوتیں۔ ستارے سے دور دن کے آسمان کی روشنی پر مختصر طول موج کی روشنی کا غلبہ ہوتا، کیونکہ وہ زمین کی ہوا کی وجہ سے طویل طول موج کے مقابلے میں زیادہ منتشر ہوتی، لہٰذا آسمان کا رنگ تو اس وقت بھی ہوتا اور وہ مختصر طول موج کے ساتھ آنکھوں سے تعلق بناتا۔ کافی حد تک ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ آسمان اس وقت بھی "نیلا" ہی ہو گا۔
اگر ہمارا سورج کسی دوسرے رنگ کے ستارے سے حالیہ دور میں، ہمیں نقصان پہنچائے بغیر بدل دیا جائے، تب ہماری آنکھیں الگ روشنی سے اچھی طرح سے مطابقت پیدا کر لیں گی۔ مثال کے طور پر موم بتی کی روشنی کے رنگ کا تصور "دن کی روشنی" کے فلوری روشنی کے تصور جیسا ہی ہے، اور ہم رنگین رنگ دار عینک سے بھی تیزی سے ہم آہنگی پیدا کر لیتے ہیں۔ تاہم، روشنی کا اس سے انحراف جس میں ہمارا ارتقاء ہوا ہے، ہمارے رنگوں کی شناخت کی صلاحیت کو متاثر کرے گا۔ آسمان نیلا تو لگے گا، تاہم یہ کم صاف ہو گا۔ شاید، ہم اپنی اندرونی جگہوں پر ایسی روشنی سے روشن کر سکیں جس میں ہمارا ارتقاء ہوا تھا، لیکن مطابقت باہر نکلتے وقت ہر مرتبہ تیز ہو گی۔
دوسرا جواب:سولاریا مورس
بنیادی طور پر جی ہاں آسمان کا رنگ الگ ہو گا۔ اس وقت ہم جو شمس (جی ہاں یہ سورج ہی کا نام ہے ) سے روشنی حاصل کر رہے ہیں اس کی ایک اپنی تعدد ارتعاش اور نورانیت ہے۔ اس میں ہونے والی کوئی بھی تبدیلی روشنی کو کرۂ فضائی میں سے پار کرتے ہوئے متاثر کرے گی۔
بہرحال ستارے کے رنگ میں تبدیلی اس کے درجہ حرارت میں تبدیلی کا اظہار ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ کرۂ فضائی کو بھی متاثر کرے گی۔ لہٰذا آپ کے قیاسی سوال میں ہم کسی طرح سے مختلف ستاروں کو باری باری سورج کی جگہ اٹھا کر رکھیں جہاں پروہ اس وقت موجود ہے تب درجہ حرارت کچھ عرصے کے لئے تو تبدیل نہیں ہوگا بلکہ ویسا ہی برقرار رہے گا، تاہم گزرتے وقت کے ساتھ وہ تبدیل ہو جائے گا۔
کرۂ فضائی کے انعطافی اشاریہ کی پیمائش ہوتی ہے اور اگر روشنی تبدیل ہو گی تو یہ بھی تبدیل ہو جائے گا۔ روشنی ایک مختلف زاویے پر جھکے گی اگرچہ یا تو وہ زیادہ تر نیلی ہو گی یا پھر سرخ۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں