Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    ہفتہ، 10 ستمبر، 2016

    کہکشاں کا پیمانہ - حصّہ دوم



    ہارلو شیپلی کا پس منظر زمینداری تھی اور وہ مسوری میں 1885ء میں پیدا ہوا تھا۔ اس نے بطور بچہ بہت ہی تھوڑی سی تعلیم حاصل کی تھی، اور سولہ برس کی عمر میں کینساس اخبار میں بطور کرائم رپورٹر کے کام کر رہا تھا ۔تاہم شیپلی کو اندازہ ہو گیا کہ رسمی تعلیم اس کے پیشے میں مددگار ثابت ہوگی اور کارتھیج پریسبیٹیرین کالجیٹ میں دو برس گزارنے کے بعد وہ مسوری یونیورسٹی چلا گیا تاکہ صحافت کے کورس میں داخلہ لے سکے۔1907ء میں یہاں پہنچنے کے بعد اس کو معلوم ہوا کہ کورس اگلے ایک برس تک شروع نہیں ہوگا، اس سے اسے لگا کہ اس نے پہلے ہی تعلیم کو حاصل کرنے میں کافی وقت ضائع کر دیا ہے لہٰذا اس نے کچھ بھی پڑھنے کا فیصلہ کیا - کچھ بھی - بجائے کہ آوارہ گردی کرتا۔ اپنی زندگی کے آخر میں (شیپلی کی موت صرف 1972ء میں ہو گئی تھی) وہ ہمیشہ کہتا تھا کہ اس نے فلکیات اس لئے چنی کہ اس کی شروعات انگریزی حرف تہجی کے A سے ہوتی ہے لہٰذا دستیاب کورسز کی فہرست میں اس کی آنکھ نے اس کو سب سے پہلے دیکھا تھا۔ چار برسوں کے بعد شیپلی ایسے ہی چنے ہوئی مخصوص بی اے اور ایم اے کے ساتھ نمودار ہوا، اور پرنسٹن گیا جہاں ہینری نورس رسل نے اس کو ثنائی ستاروں کی تحقیق کا کام سونپا۔ اگلے تین برسوں تک شیپلی کا زیادہ تر کام گرہن لگتے ثنائی ستاروں سے متعلق تھا، اس نے ہمیشہ کے لئے یہ بات طے کردی کہ تمام قیقاؤسی ستارے ثنائی ستارے نہیں ہوتے بلکہ وہ نابض ستارے بھی ہو سکتے ہیں۔ اور 1914ء میں اس بات کے سات برس بعد جب مسوری یونیورسٹی میں اس کو صحافت کا کورس نہیں ملا تھا، شیپلی پرنسٹن سے پی ایچ ڈی کی سند لے کر اور نئی نسل کے روشن ترین فلکیات دانوں میں سے ایک بن کر ابھرا۔ اس کا صلہ اس کو ماؤنٹ ولسن کی نئی رصدگاہ میں ماہانہ 135 ڈالر کی نوکری کی صورت میں ملا، اس سے کہیں زیادہ اہم بات یہ تھی کہ اس کے پاس اب دنیا کی سب سے بڑی نئی 60 انچ والی دوربین تک رسائی تھی۔ 

    یہ بات اس کے ایک برس بعد کی ہے جب ہرٹزپرنگ نے قیقاؤسیوں کو دور کے اشارے کے طور پر استعمال کرنے کی پہلی کوشش کی تھی، اور قیقاؤسی خود شیپلی کی پی ایچ ڈی کا حصّہ تھے اگرچہ ان کا حصّہ کافی کم تھا۔ دنیا کی بہترین دوربین تک اپنی مرضی سے استعمال کرنے کی رسائی کے بعد شیپلی نے قیقاؤسیوں کی مدد سے ملکی وے کا نقشہ بنایا۔ جس طریقے کا استعمال اس نے کیا اس سے ہماری کہکشاں کی ایک اور خاصیت سامنے آئی، ایک ایسی چیز جو اس سے بالکل الگ تھی جس سے ہمارا ابھی تک واسطہ پڑا تھا۔ یہ عالمگیری جھرمٹ تھے، ستاروں کی کروی جماعت جس میں سے ہر ایک میں دسیوں ہزار سے لے کر چند کروڑ تک مختلف ستارے آپس میں بندھے ہوئے تھے جو کسی عام دوربین سے دیکھنے پر خوبصورت نگینے کی طرف چمکتے تھے۔ یہ عالمگیر جھرمٹ زیادہ تر آسمان کے ایک حصّے میں موجود تھے اور وہ خود سے کرہ کی شکل میں منظم لگتے تھے۔ لیکن کیا یہ کوئی چھوٹا قریبی کرہ تھا یا بڑا دور کا کرہ تھا؟ خوش قسمتی سے عالمگیر جھرمٹوں میں اکثر عام متغیر بھی موجود تھے - جن میں سے اکثر تو صرف ایک ہی جھرمٹ میں پائے گئے تھے۔ لہٰذا شیپلی نے نئی پیمائش کی چھڑی اور نئی دوربین کا استعمال کرکے ان میں سے کچھ جھرمٹوں کا ٹھیک فاصلہ معلوم کرلیا۔ جب اس نے یہ کام کیا تو اس کو معلوم ہوا کہ ہر جھرمٹ میں سے روشن ترین ستارے ہمیشہ سے لگ بھگ ایک ہی خلقی تابانی کے ہوتے ہیں جس طرح سے دوسرے جھرمٹوں میں روشن ترین ستارے۔ قیقاؤسی پیمائشی چھڑی کی مدد سے اس نے ملکی وے کی نئی پیمائش کی - ان عالمگیر جھرمٹوں میں جن میں کوئی قیقاؤسی نہ بھی دیکھا جاسکے اس کے فاصلے کا تخمینہ ان کے روشن ترین ستاروں کو دیکھ کر یہ فرض کرکے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کی روشنی دوسرے جھرمٹوں میں موجود ستاروں کے جیسی ہی ہوگی، اور ان کا فاصلہ ان دیوہیکل ستاروں کی ظاہری تابانی (یا دھندلے پن) سے لگایا جا سکتا ہے۔



    خاکہ 3.4 ہارلو شیپلی نے معلوم کیا کہ عالمگیر جھرمٹوں کی تقسیم جس کو یہاں دائروں میں ظاہر کیا ہے بتاتی ہے کہ سورج اور ہمارا نظام شمسی ملکی وے کے مرکز سے بہت دور موجود ہے۔

    اس سب کا نتیجہ ہماری کہکشاں کا ایک نیا نقشہ تھا۔ عالمگیر جھرمٹوں کو ہم اپنے سے بہت دور ملکی وے کے قلب میں مجمع النجوم برج قوس کی مرکزی سمت کی طرف ایک نقطہ میں ایک وسیع کرہ کو بھرتا ہوا دیکھ سکتے ہیں۔ صرف ایک معقول نتیجہ یہ تھا کہ اس کروی نظام کا مرکز اصل میں ملکی وے کہکشاں کا مرکز ہے اور سورج اور نظام شمسی نجمی مضافات سے کافی دور لگ بھگ ستاروں کے مرغولہ نما نظام کے کونے کے دو تہائی حصّے میں واقع ہے۔ شیپلی کے نتائج ایک مقالہ کے سلسلے کی صورت میں 1918ء اور 1919ء میں کئی مہینوں کے عرصے کے دوران شایع ہوئے۔ پوری ملکی وے نظام کا اصل اندازہ جو اس نے لگایا وہ لگ بھگ تین گنا زیادہ بڑا تھا کیونکہ اس نے دور موجود عالمگیر جھرمٹوں کی روشنی پر دھندلاتی دھول کے اثر کا نہیں لیا (ایک جھرمٹ جس کی روشنی دھول سے کم ہو مدھم لگے گااور یوں شیپلی نے اس کی دوری کا اندازہ اصل دوری سے کہیں زیادہ لگایا تھا۔) 

    تاہم اس کی اہم نتائج درست تھے۔ ہم اب حساب لگا سکتے ہیں کہ ملکی وے 100,000 نوری برس (30 کلو فلکی فرسخ) پر پھیلی ہوئی ایک چپٹی قرص ہے بعینہ جس طرح رائٹ اور کانٹ نے تصور کیا تھا۔ قرص کے مرکز سے اس کے کناروں تک کا فاصلہ 50,000 ہزار نوری برس جبکہ سورج لگ بھگ 30,000 نوری برس (10 کلو فلکی فرسخ) مرکز سے دور ہے۔ ہم اپنی کہکشاں کے کافی دور پچھواڑے میں رہتے ہیں۔ تاہم ہماری کہکشاں کی حیثیت کائناتی چیزوں کے نظام میں کیا ہے؟ لیوٹ، ہرٹزپرنگ اور شیپلی نے مل کر اندازہ لگانے کے لئے اپنی بہترین صلاحیتیں صرف کیں کہ 'ہم آسمان فلک میں کس قدر لاکھوں نوری برس دور' تک دیکھ سکتے ہیں۔ اب یہ دوری مزید کس قدر بڑھ سکتی ہے؟
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: کہکشاں کا پیمانہ - حصّہ دوم Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top