Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    اتوار، 11 ستمبر، 2016

    کائنات کے ایک طرف سے دوسری طرف - حصّہ اوّل




    اس وقت شیپلی لڑکھڑایا اور غلط موڑ لے لیا۔ یہ مکمل طور پر اس کی غلطی نہیں تھی - اس کی پوری کائنات کے تصوراتی نمونے کو بنانے کی کوشش کا انحصار دوسروں کے مشاہدات اور توضیحات پر تھا۔ تاہم اس غلطی نے اس کے مستقبل کو ایک الگ راستے پر گامزن کر دیا، اگرچہ اس نے اپنی ہم عصروں کے درمیان کافی شہرت و عزت کمائی تھی تاہم اس نے ہمیشہ 1914ء سے لے کر 1920ء کے اپنے ماؤنٹ ولسن کے دور کو اپنے پیشے کے عروج کے طور پر دیکھا۔

    شیپلی کے ملکی وے کے اضافی حجم کے تخمینے کی وجہ سے ایسا لگا کہ جیسے میجیلانی بادل خود سے کوئی الگ کہکشاں نہیں بلکہ ملکی وے کا ہی حصّہ ہیں۔ اور اگر بادل کوئی حقیقی کہکشاں نہیں تھے تو شیپلی کے لئے اس کا نتیجہ یہ تھا کہ دوسرے سحابئے جیسا کہ مجمع النجوم اینڈرومیڈا کا عظیم مرغولہ نما لازمی طور پر ہماری اپنی کہکشاں کا کوئی صغیر سیارچہ ہوگا۔ اس تصویر کے مطابق ملکی وے لازمی طور پر کائنات تھی اور اس کی وسعت کو پہلے ہی دیکھ لیا گیا تھا۔ تاہم دوسرے ایسے فلکیات دان بھی تھے جو یہ سمجھتے تھے کہ سحابیہ لازمی طور پر الگ کہکشاں ہوتے ہیں اور شیپلی کا ملکی وے کے حجم کا تخمینہ لازمی طور پر بہت بڑا ہوگا اگرچہ وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ آیا کیوں یہ اتنا بڑا ہے۔ اس کا متبادل خیال سب سے زیادہ شور مچاتے ہوئے ہربر کرٹس نے پیش کیا جو لک رصدگاہ کے ایک ماہر فلکیات تھے۔

    کرٹس ایک دوسرے محقق تھے جو فلکیات کی جانب عجیب راستے سے آئے تھے۔ 1872ء میں مشی گن میں واقع مسکیگن میں پیدا ہوئے، انہوں نے کلاسکس کا مطالعہ کیا اور 22 برس کی عمر میں کیلی فورنیا میں واقع ناپا کالج میں لاطینی زبان کے پروفیسر تعینات ہوئے۔ وہاں ان کو فلکیات سے دلچسپی پیدا ہوئی، اور جب کالج کا انضمام 1897ء میں پیسفک یونیورسٹی کے ساتھ ہو گیا تو وہ فلکیات اور ریاضی کے پروفیسر بن گئے - آج کے دور میں اس کے لئے یہ بہت ہی چونکا دینے والا موڑ ہوگا جو اپنا مستقبل یونیورسٹی میں بنانا چاہتا ہوگا! کافی رصدگاہوں میں مختصر عرصے کی خاصی تحقیقات کرنے کے بعد کرٹس لک میں 1902ء میں گئے جہاں انہوں نے چلی کے جنوبی آسمانوں میں کچھ عرصے مشاہدے میں گزارنے کو چھوڑ کر، 1920ء تک قیام کیا۔ انہوں نے چلی سے 1909ء میں واپس آنے کے بعد اس وقت معلوم مرغولہ نما سحابیوں کی ماہیت کا تعین کرنے کے لئے غور و فکر شروع کیا۔ ان برسوں میں ان سحابیوں کی بہتر تصاویر دستیاب ہونے لگیں تھیں اور یہ تصاویر ہی تھیں جس نے کرٹس کو قائل کیا کہ سحابیہ خود سے ہی کہکشاں ہیں جو پوری قرص کی شان و شوکت اور مرئی مرغولہ نما ساخت کے ساتھ کبھی کنارے پر نظر آتے ہیں اور کبھی سطح کے میدان پر اور کبھی ان کے درمیان نظر آتے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو یہ بیرونی کہکشائیں جو ہماری ملکی وے سے بھی دور ہیں لازمی طور پر وسیع فاصلے پر موجود ہوں گی جب ہی وہ ہماری دوربینوں میں چھوٹے بادلوں کی طرح نظر آتی ہیں۔ تاہم کس طرح سے سحابیہ کے فاصلے کو ناپا جا سکتا ہے؟ اس سوال نے 1920ء تک دو جوابوں کو کھول دیا، اور اس میں سے ایک توضیح بدقسمتی سے ایک ایسے واقعے کی بنیاد پر قائم ہونے والے فہم پر ہوئی جو زمین پر 1885ء میں دیکھا گیا تھا۔ شیپلی کی بدقسمتی کہ وہ غلط گھوڑے پر سوار ہو گیا تھا۔

    یہ 20 اگست 1885ء کی بات تھی کہ ارنسٹ ہارٹوگ نے ایک نئے ستارے یا نوا کو دیکھا جوس اینڈرومیڈا سحابیہ میں چمک رہا تھا۔ ستارہ جلد ہی غائب ہونا شروع ہوا تاہم اس سے پہلے اس کے عروج کی شدت کو درج کرلیا گیا تھا۔ یہ پہلی مرتبہ ہوا تھا کہ کسی انفرادی ستارے کو کسی سحابیہ سے جوڑا گیا تھا، اور اس واقعہ کی ایک توضیح جو ہارٹوگ اور اس کے ہم عصروں نے مشاہدہ کی وہ یہ تھی کہ یہ ملکی وے کے اندر بھنور نما گیس و دھول کے بادلوں میں کسی ستارے کی پیدائش کا منظر تھا۔ ستارہ جو بھی تھا وہ مختصر عرصے کے لئے اس قدر زور سے چمکا تھا کہ جتنا ملا کر باقی سحابیہ اینڈرومیڈا چمک رہی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ اس کی تابانی کو ناپنے کا موقع 1901ء میں اس وقت آیا جب ایک اور دوسرا ستارہ مجمع النجوم پرسیس کی سمت میں پھٹا۔ یہ نوا اس قدر قریب تھا کہ اس کا فاصلہ اختلاف زاویہ سے سورج سے 100 نوری برس دور لگایا جا سکتا تھا۔ اس وقت فاصلہ ناپنے کے بہتر تخمینا جات میسر نہیں تھے فلکیات دانوں نے اندازہ لگایا کہ اینڈرومیڈا میں پھٹنے والا نوا بھی اسی تابانی کا ہوگا جتنا کہ پرسیس کا نوا، اور یوں اس طرح اس کو ہم سے سولہ گنا زیادہ دور، 1,600 نوری برس دور اس کی ظاہری تابانی کی وجہ سے سمجھا گیا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اینڈرومیڈا لازمی طور پر کافی بڑی ہوگی تاہم اس کو اب بھی ملکی وے کہکشاں ہی میں رکھا گیا۔
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: کائنات کے ایک طرف سے دوسری طرف - حصّہ اوّل Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top