Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    جمعرات، 15 ستمبر، 2016

    ہبل کی کائنات - حصّہ دوم



    ملکی وے کہکشاں کی اصل کم حیثیت کو ڈوبنے میں تھوڑا عرصہ لگا۔ سب سے پہلے ایسا لگا کہ جیسے ہماری کہکشاں دوسروں کے مقابلے میں بڑی اور متاثر کن ہے۔1952ء میں ہی قیقاؤسی فاصلے کے پیمانے میں ترمیم کے بعد یہ واضح ہوا کہ دوسری کہکشائیں بھی اتنی ہی بڑی ہیں جتنی کہ ہماری اپنی اور اصل میں وہ اس سے کہیں زیادہ دور ہیں جتنا کہ ہبل نے شروع میں اندازہ لگایا تھا۔ بہتر عکاسی آمیزے کے ساتھ ہبل نے 1923ء میں اس بات کو حل کرنے میں کامیابی حاصل کر لی تھی کہ اینڈرومیڈا سحابئے کا باہری حصّہ ایک کثیف ستاروں کا جمگھٹا ہے اور اس نے دونوں M31 اور دوسرے اتنے ہی فاصلے پر موجود ایک اور مرغولہ نما M33 میں اگلے چند مہینوں اور برسوں کے دوران مزید قیقاؤسیوں کی شناخت کی۔ 1924ء کے اختتام تک کافی ثبوت اکھٹے ہو چکے تھے جنہوں نے مرغولہ نما سحابیوں کی ماہیت کے بارے میں مسائل کو حل کر دیا تھا اور ہبل نے اس کو امریکن ایسٹرونامیکل سوسائٹی کے اجلاس میں پیش کیا، اگلے پانچ برسوں میں ہبل نے مزید ثبوت اکھٹے کئے اور اس نے ان تمام ثبوتوں کا خلاصہ اس دہائی کے آخری برس پیش کیا۔ اس وقت تک اس نے ان دور دراز سحابیوں - کہکشاؤں - کے فاصلے کا تخمینہ لگانے کی تیکنیک کو بنانا شروع کی جو اتنے زیادہ دور تھے کہ انفرادی ستاروں کی شناخت کی جا سکتی تھی اور قیقاؤسی پیمائشی چھڑی کا استعمال کیا جا سکتا تھا۔ 

    قیقاؤسیوں کو صرف قریبی تیس کہکشاؤں میں ہی 200 انچ والی دوربین کی مدد سے شناخت کیا جا سکتا تھا۔ ہبل کی دوربین اب اس مسئلے سے نمٹنے کے لئے تو بہتر ہو گئی تھی تاہم اس سے دور دراز کی کہکشاؤں کے فاصلے کو ناپنے کے لئے مزید دوسری تیکنیکوں کی ہمیشہ سے ضرورت رہے گی۔ ہبل نے سب سے پہلے جس قدم کا استعمال کرکے فوق دیوہیکل ستاروں کو بطور فاصلہ رہنما کے استعمال کیا بعینہ ایسے جیسے ان کا استعمال کرکے ہماری اپنی کہکشاں میں عالمگیر جھرمٹوں کے فاصلے کے بارے میں اندازہ لگایا جاتا ہے، یہ شیپلی کی ہی تیکنیک کا استعمال تھا۔ اس سے ہبل قیقاؤسیوں کی نسبت سے چار گنا زیادہ فاصلے پر دیکھنے کے قابل ہوا، اس فاصلے کا اندازہ اس نے تقریباً ایک کروڑ نوری برس کا لگایا۔ عالمگیر جھرمٹ بذات خود بھی استعمال ہو سکتے ہیں اور ان کا کائنات کو ناپنے کی چھڑی کے طور پر استعمال بھی اس مفروضے پر کیا گیا ہے کہ ہر کہکشاں میں موجود روشن ترین جھرمٹوں کی خلقی روشنی ہماری اپنی کہکشاں کے روشن ترین جھرمٹوں جیسی ہی ہوتی ہے، تاہم اس وقت تک فلکیات دان مزید دور دراز کہکشاؤں کے فاصلے کو ناپنے کے لئے پیمائش کے طریقوں میں دستیاب سب سے برے طریقوں کو ترک کرنا شروع ہو گئے تھے۔ مزید آگے بڑھنے کے لئے ہبل کو جرات مندانہ اور لگ بھگ درست مفروضوں کا استعمال کرنا تھا۔ جب اس نے مجمع النجموم سنبلہ کی سمت میں کہکشاؤں کے ایک بڑے جھرمٹ کو دیکھا تو اسے معلوم ہوا کہ وہ سب ایک جیسی ہی روشن ہیں - کم از کم ان میں سب سے روشن کہکشاں مدھم ترین سے دس گنا زیادہ روشن ہے۔ یہ فرض کرتے ہوئے کہ تمام کہکشائیں ایک جیسی ہی روشن ہیں اور ان کی تابانی مدھم ترین کہکشاں سے تین گنا ہے یا روشن ترین کہکشاں کی ایک تہائی، ہبل فاصلے کا اندازہ لگا سکتا تھا اور معقول حد تک یقین رکھ سکتا تھا کہ تخمینہ صحیح جواب کے اندر ایک سے تین کی نسبت کے اندر ہی ہوگا - شاید تین گنا زیادہ بڑا یا تین گنا زیادہ چھوٹا تاہم اس سے زیادہ برا اندازے کا نتیجہ نہیں نکلے گا۔ اس قسم کی تیکنیک کو بعد میں صرف جھرمٹ کی سب سے روشن ترین کہکشاں کو معیاری مان کر اور بہتر بنایا گیا؛ بعد میں معلوم ہوا کہ روشن ترین کہکشائیں تو بہت زیادہ کثرت سے ہیں بعینہ جس طرح فوق دیوہیکل ستارے ہوتے ہیں۔ اگرچہ یہ قریب قریب تھا، تاہم ہبل نے جس تیکنیک کا استعمال کیا یہ اس کو 50 کروڑ نوری برس دور تک لے گئی (یہ ہبل کے اعداد ہیں، جو بہت زیادہ بڑھ چکے ہیں تاہم یہ آپ کو اس بات کا اندازہ لگانے میں مدد دیں گے کہ وہ کس قدر آگے بڑھ گیا تھا)۔اس فاصلے میں خلاء کا حجم اس قدر تھا کہ اس میں 10 کروڑ کہکشائیں آسکتی تھیں۔ تاہم ان میں سے ہر ایک دور دراز کی پیمائش کا انحصار قیقاؤسی پیمائشی چھڑی کی درستگی پر تھا جس کو شماریاتی اختلاف زاویہ کی تیکنیک (اور اب رنگی مقداری خاکہ کہتے ہیں) کو اپنی کہکشاں کے اندر - حقیقت میں تو سورج کے بالکل آس پاس کے علاقے کو استعمال کرتے ہوئے بنایا تھا۔ پوری کائنات کے فاصلے کے بارے میں جو اطلاعات کا خزانہ ہمارے پاس اب موجود ہوتا نظر آتا ہے ایک طرح سے الٹی مخروطی صورت تھی، جو اوپر اور باہر کی جانب ایک قیقاؤسی میزان سے اس نقطے سے نکلتی ہوئی نظر آ رہی تھی جہاں پر مخروط توازن میں تھا۔ ان 30 عجیب کہکشاؤں کے فاصلے کی پیمائش کئے بغیر جہاں قیقاؤسیوں کو شناخت کیا گیا تھا، کوئی دوسرا ایسا طریقہ موجود نہیں تھا جس سے میزان کو درست کیا جاتا، یہ پیمائش کی چھڑی کم از کم کام چلاؤ تو تھی۔ اگر یہ قیقاؤسی پیمائشی چھڑی ٹھیک طرح سے ناپی نہیں گئی ہوتی اور بعد میں اس پر نظر ثانی بھی ہوئی ہے، تو ہمیں کائنات کے پورے پیمانے کو تبدیل کرنا پڑ جاتا۔ جیسا کہ ہم دیکھیں گے کہ ایسا دہائیوں میں کئی مرتبہ ہوا ہے، خاص طور پر 1950ء کی دہائی کی ابتداء میں۔ تاہم ان میں سے کسی بھی ترمیم نے کائنات کی وہ بنیادی تصویر جو ہبل نے بنائی تھی تبدیل نہیں کی۔
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: ہبل کی کائنات - حصّہ دوم Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top