Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    جمعہ، 16 ستمبر، 2016

    ہبل کی کائنات - حصّہ سوم



    ہبل کی کائنات - ہماری کائنات ارب ہا برسوں تک پھیل گئی تھی۔ کچھ کہکشاؤں کی تصاویر جو ہم آج دیوہیکل دوربینوں جیسے کہ 100 انچ اور 200 انچ والی سے دیکھتے ہیں وہ اس قدر دور ہیں کہ ان سے سفر کرنے والی روشنی جو ہم دیکھتے ہیں وہ زمین سے بننے سے بھی پہلے کی ہے۔ درحقیقت میں کوئی ایسا طریقہ موجود نہیں ہے جس سے انسانی دماغ کائنات کی وسعت کا اندازہ کر سکے۔ بس ہم تو اعداد کو دیکھ سکتے ہیں جو ہمیں بتاتے ہیں کہ ہماری قریبی پڑوسی M33 اور M31 اتنی دور ہیں کہ روشنی کو 20 لاکھ برس یا اس سے بھی زیادہ کا عرصہ درکار ہوتا ہے کہ وہ وہاں سے چل کر ہماری کہکشاں تک آ سکے اور ہم تسلیم کرتے ہیں کہ اس بات سے ہم چکرا کر رہ جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ عظیم تر ماہر تکوینیات البرٹ آئن سٹائن یا اسٹیفن ہاکنگ کے دل میں بھی کارلائل کے ان جملوں کے لئے کچھ رحم موجود ہے: 'میں کائنات کے ادراک کا ڈرامہ نہیں کرتا - یہ اس چیز سے کہیں زیادہ بڑی ہے جس سے میں نمٹ سکتا ہوں۔'

    صرف ایک ہی وہ وجہ ہے کہ جس سے فلکیات دان اس قابل ہو سکیں ہیں کہ وہ کائنات کے خواص کو بحیثیت مجموعی کے جان سکیں اور وہ یہ ہے کہ نسبتاً کہکشائیں ستارے کے مقابلے میں ایک دوسرے سے زیادہ قریب ہیں۔ سب سے بہتر کائنات کے تصوراتی نمونے کو اسپرین کی گولی کا استعمال کرتے ہوئے بنا کر اس کی تصویر بنائی جا سکتی ہے۔ اگر ہمارا سورج اسپرین کی گولی کے حجم کا ہے، تو دوسرا قریبی ستارا جو اسپرین کے ہی حجم کا ہوگا وہ سورج سے 140 کلومیٹر دور ہوگا۔ یہ فاصلہ ستاروں کے درمیان عمومی طور پر پایا جاتا ہے - ایک عام ستارے اور اس کے قریبی دوسرے ستارے کا فاصلہ ستارے کے قطر سے دسیوں کروڑ سے بھی زیادہ ہوتا ہے ( بلاشبہ ثنائی ستاروں اور اسی طرح کے دوسرے ستاروں کو چھوڑ کر جہاں دو یا اس سے زیادہ ستارے ایک دوسرے کے گرد بہت قریب چکر لگا رہے ہوتے ہیں)۔کہکشائیں جیسی کہ ہماری اپنی ملکی وے کہکشاں ہے، ان میں ارب ہا ستارے خلاء کے بہت ہی مناسب حجم پر پھیلے ہوئے ہیں تاہم یہ سب آپس میں کہکشانی مرکز کے گرد چکر لگاتے ہوئے قوّت ثقل کی بدولت ایک ساتھ رہتے ہیں۔ ہم کہکشاؤں کے درمیان موجود خلاء کے بارے میں اپنے پیمانے کو تبدیل کرکے اندازہ لگا سکتے ہیں، اب سورج کے بجائے ملکی وے کہکشاں اسپرین کی گولی جتنی ہے۔ اب اس پیمانے پر قریبی کہکشاں M31 جو ایک اور اسپرین جتنی سمجھ لیں صرف 13 سینٹی میٹر دور ہے۔

    یہ تھوڑا سے گمراہ کن ہے، کیونکہ ملکی وے اور M31 ایک چھوٹے کہکشاؤں کے گروہ کی رکن ہیں، جس کو مقامی گروہ کہتے ہیں اور جو قوّت ثقل کی وجہ سے آپس میں ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے۔ اسی طرح کے چھوٹے کہکشاؤں کے قریبی گروہ نقاش گروہ کا بھی فاصلہ اسپرین کے پیمانے پر صرف 60 سینٹی میٹر کا ہے؛ بہرحال اس سے صرف 3 میٹر کے فاصلے پر ہمیں اس تصویر میں سنبلہ جھرمٹ مل جائے گا، جو دو سو کہکشاؤں کا بہت ہی بڑا مجموعہ ہے جو باسکٹ بال کے حجم جتنا پھیلا ہوا ہوگا۔ سنبلہ جھرمٹ ایک کھلے کہکشانی جھرمٹوں کے جھنڈ کے مرکز میں ہے اور اس کا ثقلی طور پر غلبہ ہے؛ اس میں دونوں مقامی گروہ اور نقاش گروہ شامل ہیں اور یہ پورا جھرمٹ مقامی فوق جھرمٹ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

    ہم اس تصویر پر آگے بھی جا سکتے ہیں۔ صرف 20 میٹر دور ایک اور دوسرا بڑا جھرمٹ کوما جھرمٹ ہے جس میں ہزاروں کہکشائیں شامل ہیں۔ مزید آگے جائیں اس سے بھی بڑے جھرمٹ ہیں جو 20 میٹر پر پھیلے ہوئے ہیں۔ طاقتور ریڈیائی امواج خارج کرنے والی کہکشاں دجاجہ الف 45 میٹر کے فاصلے پر ہے؛ رات کے آسمان میں روشن ترین کوزار 30273 ہے جو صرف 30 میٹر دور ہے۔ اور پوری قابل مشاہدہ کائنات صرف ایک کلومیٹر پھیلے ہوئے اس کرہ میں موجود ہو سکتی ہے جس کا پیمانہ ہم نے اپنی کہکشاں کو ایک اسپرین کی گولی جتنا رکھ کر بنایا ہے۔ 

    اس سے کوئی زیادہ فرق نہیں پڑنے والا کہ کہکشاؤں کے درمیان آپ کون سا پیمانے رکھ کر فاصلے کو ناپنا پسند کریں گے۔ سنبلہ جھرمٹ تک کا فاصلہ صرف چھ سو گنا ہماری کہکشاں کے قطر جتنا ہے، M31 ہم سے صرف تقریباً پچیس ملکی وے کے قطر جتنی دور ہے۔ اگر کہکشائیں ایک دوسرے سے کہکشاؤں کے اندر ستاروں کی نسبت سے اس قدر دور ہیں تو ہماری اگلے قریبی کہکشانی پڑوسی کا فاصلہ سو گنا زیادہ اس دور دراز جسم سے ہوگا جو ہم نے اصلی کائنات میں کبھی دیکھا ہوگا۔ واضح طور پر ماورائے کہکشانی خلاء کہکشاؤں سے اس سے کہیں زیادہ لبریز ہے جتنا کہکشانی خلاء ستاروں سے ہیں۔ اور اس سے ماہرین کونیات اس قابل ہوتے ہیں کہ پوری کائنات میں مرئی مادّے کی تقسیم کے طریقہ کار کی ایک بڑی تصویر کو حاصل کر سکیں، اور یہ معلوم کر سکیں کہ کس طرح سے یہ تقسیم کائنات کے ارتقاء کے ساتھ تبدیل ہوئی ہے۔ 

    فلکیات دان کوشش کرتے ہیں کہ کائنات کو سمجھ سکیں یا اتنا جتنا وہ اس کے بارے میں جانتے ہیں۔ ہبل نے جدید کونیات کی بنیاد رکھی۔ نہ صرف اس نے کائنات کے پیمانے کو قائم کیا، بلکہ اس نے اہم کہکشانی اقسام کو بیان کرکے ان کی صف بندی بھی کی - ان میں سے 75 فیصد کو مرغولہ نما دیکھا جا سکتا ہے، باقی میں سے زیادہ تر سگار یا امریکی فٹ بال کی طرح بیضوی صورت کی ہیں اور صرف چند ایک ہی بے قاعدہ صورت کی دکھائی دیتی ہیں ( شاید ان میں سے زیادہ تر اس قدر دور اور مدھم ہیں کہ اتنے فاصلے پر سے ٹھیک طرح سے مرئی نہیں ہوتیں)۔اور اس نے خلاء میں کہکشاؤں کی تقسیم کا بھی تجزیہ کیا اور دیکھا کہ تقسیم بحیثیت مجموعی یکساں ہے۔ اگرچہ کہکشائیں جھرمٹوں میں ہوتی ہیں، جھرمٹ خود سے آسمان میں بے ترتیب پھیلے ہوئے ہیں، اور آسمان کے کسی ایک حصّے میں کہکشاں، کہکشانی جھرمٹ کو دیکھنے کا اتفاق کسی بھی دوسرے حصّے میں ان کے دیکھے جانے کے اتفاق جیسا ہی ہے بشرطیکہ ملکی وے میں موجود مخفی دھول کے اثر کو نکال دیں۔ اپنے آپ میں یہ ایک اور اہم دریافت تھی جو بتاتی تھی کہ کائنات کے حتمی ساختی نمونے کی دریافت ہو چکی ہے؛ اس کی اہمیت دور حاضر میں تھوڑی سی کم اس لئے ہوئی ہے کہ ہو سکتا ہے کہ کہکشانی جھرمٹوں کے جھرمٹ کی ایک اور پرت ہو سکتی ہے۔ یہ اب بھی بنیادی اہمیت کی بات ہے کہ کائنات تمام سمتوں میں ایک ہی جیسی ہے، یعنی کہ کائنات میں کہیں کوئی خاص جگہ نہیں ہے۔ تاہم یہ بنیادی اہم مشاہدہ بھی اس دریافت کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے جس کا بم ہبل نے 1929ء میں گرایا تھا۔ اس نے دیکھا کہ ایک مرتبہ جب ہم مقامی گروہ سے پرے کائنات میں دیکھتے ہیں تو یہ تمام کروڑوں کہکشائیں ایک دوسرے سے دور ہٹ رہی ہیں، ایک دوسرے سے ایک ایسی رفتار سے دور بھاگ رہی ہیں جو روشنی کی رفتار کا کافی حصّہ ہے۔ پوری کائنات پھیلتی ہوئی لگ رہی تھی؛ یہ وہ دریافت تھی کہ جس نے واضح طور پر اس حقیقت کی جانب اشارہ کیا کہ لازمی طور پر پوری کائنات کی وقت میں کوئی ابتداء ہوگی۔ ایسی کوئی بھی حد نظر نہیں آتی جس سے دور فلکیات دان رات کے آسمان میں دیکھ سکیں؛ تاہم کائنات کے پھیلاؤ کا مطلب یہ تھا کہ اس بات کی تو حد موجود تھی کہ کائنات ماضی میں کب سے پھیلنی شروع ہوئی۔ یہ کائناتی پھیلاؤ کی دریافت ہی تھی جس نے 1929ء میں ہی فلکیات دانوں کو عظیم دھماکے کے راستے پر مضبوطی سے کھڑا کر دیا۔
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: ہبل کی کائنات - حصّہ سوم Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top