1761ء میں زہرہ کے عبور کے بعد صدی کا تین چوتھائی حصّہ گزر چکا تھا جب فلکیات دانوں نے آخر کار کچھ قریبی ستاروں کا اختلاف زاویہ ناپنے میں کامیابی حاصل کی۔ اصول کافی سادہ تھا۔ کیونکہ زمین کے مدار کا نصف قطر 15 کروڑ کلومیٹر ہے لہٰذا مشاہدات کو چھ ماہ کے عرصے کی دوری میں کیا جاتا، سورج کے مخالف سمت سے بنیادی خط کا اختتام 30 کروڑ کلومیٹر (2 فلکیاتی اکائی) طویل ہے (ستاروں کا فاصلہ ناپنے کے لئے پہلے اندازے کے لئے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ بنیادی خط 29 کروڑ کلومیٹر کا ہے یا 31 کروڑ کلومیٹر کا ہے اور جو جواب ہمیں ملے گا وہ لگ بھگ ٹھیک ہی ہوگا)۔ یہ تو سادہ جیومیٹری کا مسئلہ ہے کہ اس بات کا حساب لگایا جائے کہ ستارے بنیادی خط میں مخصوص اختلاف زاویہ کےسرکاؤ کی وجہ سے کتنے فاصلے پر ہوگا۔ حقیقت میں فلکیات دان اس طریقے میں نئے حجم کی لمبائی کو بیان کرنا پسند کرتے ہیں۔ اختلاف زاویہ کے ایک آرک سیکنڈ یا مختصر طور پر فلکیاتی فرسخ (پارسیک) ستارے سے وہ فاصلہ ہے جو بنیادی خط کے مخالف آخری حصّے سے آرک کے ایک سیکنڈ کے سرکاؤ کو دکھاتا ہے جو سورج اور زمین کے فاصلے کے برابر ہے۔ دوسرے الفاظ میں زمین کے مدار کے بنیادی خط کے 30 کروڑ کلومیٹر سے زائد فاصلے پر ایک ستارہ جو ایک فلکیاتی فرسخ (1 PC) دور ہوگا وہ آرک کے دو سیکنڈ کو دکھائے گا۔
ایک فلکی فرسخ 30,000 ارب (ایک ارب میں دس ہزار لاکھ ہوتے ہیں) کلومیٹر سے کچھ زیادہ ہوتا ہے؛ روشنی کو اس ایک فلکی فرسخ کے فاصلے کا سفر کرنے کے لئے 30 کروڑ میٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے 3.26 برس کا عرصہ لگے گا۔ یا اس کو دوسری طرح سے دیکھیں، ایک فلکی فرسخ زمین کا سورج سے فاصلے کا 206,265 گنا فلکی اکائی کے اندر ہوتا ہے۔ اصل میں کوئی بھی ستارہ اتنا قریب نہیں ہے کہ اتنے اختلاف زاویہ کے سرکاؤ کو دکھا سکے۔ اور یہی وجہ ہے کہ پہلا نجمی اختلاف زاویہ 1830ء کی دہائی تک نہیں ناپا گیا۔
اگر آپ کوشش کریں گے کہ ستارے کے مقام پر ہونے والی تبدیلی کو ناپ لیں جو آرک کے ایک سیکنڈ سے کم ہو، ظاہر سی بات ہے کہ آپ کو ایک ایسی فہرست کی ضرورت ہوگی جس میں ستاروں کا مقام تقابلی صحت کے ساتھ موجود ہو۔ اٹھارویں صدی کی سب سے بہترین فہرست جس کو فلمسٹیڈ نے ترتیب دیا تھا اور 1725ء میں اس کی بعد وفات شایع ہوئی اس میں ستاروں کے مقام کی درستگی ایک آرک کے دس سیکنڈ کی تھی - یہ اس دور کا ایک زبردست کارنامہ تھا، تاہم یہ اس قدر نہیں تھا کہ اس کام کے لئے اس کو استعمال کیا جا سکے۔ تیسرا شاہی فلکیات دان جو ہیلے کا جانشین تھا وہ جمیز بریڈلی (1693 میں پیدا ہوا) تھا جس نے اس مسئلے پر کافی جان ماری اس نے ایک گاما اژدھے کہلانے والے ستارے کا اختلاف زاویہ ناپنے کی کوشش کی۔ وہ اس میں ناکام رہا تاہم اس دوران اس نے مشاہدے کی تیکنیک کو بہتر کیا، بہتر آلات بنائے، اور فلکیات دانوں کی اپنے مشاہدات کی ماہیت کی نظری تفہیم کو بھی بہتر بنایا۔ بریڈلی نے دیکھا کہ ایسا لگتا ہے کہ جیسے گاما اژدھا سال بھر میں آسمان پر اپنی جگہ تبدیل کرتا ہے، تاہم یہ تبدیلی ایسی نہیں تھی کہ جیسے کہ اختلاف زاویہ سے معلوم ہوتی ہے۔ اس نے دیکھا کہ یہی اثر دوسرے تمام ستاروں پر بھی لاگو ہو رہا ہے، اور بالآخر اسے احساس ہو گیا کہ یہ اثر زمین کی سورج کے گرد حرکت رفتار کی وجہ سے ہے۔ روشنی کی اشعاع جو دور دراز ستارے سے آتے ہوئے زمین کی حرکت کی وجہ سے جھکی ہوئی لگتی ہیں، بعینہ اسی طرح جس طرح سے آسمان سے برستی ہوئی سیدھی بارش آپ کے چہرے سے اس وقت ٹکراتی ہوئی لگتی ہے جب آپ آگے کی طرف چلتے ہیں۔ یہ اثر زمین کے مدار کے مختلف مقامات (سال کے مختلف اوقات میں) پر مختلف ہوتا ہے کیونکہ ہمارا سیارہ مختلف اوقات میں مختلف سمت میں حرکت کرتا ہے۔ کیونکہ روشنی کی رفتار بہت ہی عظیم ہے، لہٰذا اثر چھوٹا ہوتا ہے - تاہم اس کے باوجود اختلاف زاویہ کے مطالعہ میں پیمائش کے لئے جس قسم کی صحت چاہئے ہوتی ہے اس کے لحاظ سے قابل غور ہے۔
بریڈلی نے اس اثر کو 'خلل' کہا، ایک برس میں یہ ستارے کے مقام میں 20 1/2آرک فی سیکنڈ کی تبدیلی پیدا کرتی ہے۔ اگرچہ اٹھارویں صدی میں یہ کوئی خبر نہیں تھی تاہم اس دریافت نے تصدیق کی کہ روشنی کی رفتار محدود ہے اور رفتار کا جو تخمینہ اس نے دیا وہ دور حاضر کے تخمینے کے کافی قریب ہے؛ اس سے زمین کے خلاء میں حرکت کرنے کی بھی تصدیق ہو گئی۔ تاہم جب وہ ستاروں کا مقام ناپ رہا تھا تو بریڈلی کو مزید خلل کا سامنا کرنا پڑا بشمول زمین کی ڈگمگاہٹ کے جس کو اس نے رقص محوری کا نام دیا، جو زمین کی کرے سے تھوڑی سی الگ صورت کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ان تمام کاوشوں کا پھل ایک ایسی نئی اہم فہرست کی صورت میں آیا جس میں تین ہزار کے لگ بھگ ستاروں کے مقامات بے مثل صحت کے ساتھ موجود تھے - تاہم یہ صرف دو حصّوں میں 1798ء اور 1805ء میں بریڈلی کے مرنے کے تیس برسوں شایع ہوئی۔
خاکہ 3.2 آسمان سے برستی ہوئی سیدھی بارش آپ کے چہرے سے اس وقت ٹکراتی ہوئی لگتی ہے جب آپ آگے کی طرف چلتے ہیں۔ دور دراز کے تاروں سے آتی ہوئی روشنی کی 'اشعاع' ایسی ہی 'جھکی' ہوتی ہیں جب زمین خلاء میں سے گزرتی ہے۔ اس اثر کو خلل کہتے ہیں۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں