تو ہم کس طرح سے ان پیمائش کی ہوئی سمتی رفتاروں سے فاصلے کی تشریح کر سکتے ہیں؟ ایک ترکیب تو صرف ستاروں کے جھرمٹوں یعنی وہ جماعت جو خلاء میں ایک ساتھ حرکت کرتی ہے، میں کام کرتی ہے، جو سورج سے بہت زیادہ دور نہیں ہیں۔ ستاروں کی وہ جماعت جو ایک ہی سمت میں حرکت کرتے ہیں اصل میں متوازی خطوط پر ہوتے ہیں، جس طرح سے ریل کی پٹری ہوتی ہے۔ اور جس طرح سے ریل کی پٹری دور جا کر ایک نقطے پر ملتی ہوئی لگتی ہیں لہٰذا اس طرح کی جماعت میں ستاروں کی حرکت، خاص حرکت کی پیمائش کے تعین کے لئے برسوں کے مشاہدات کی ضرورت ہوتی ہے، آسمان پر کسی ایک نقطہ کی طرف ملتی ہوئی لگتی ہے بشرطیکہ جھرمٹ ہم سے کافی قریب ہو۔ اس سے فلکیات دانوں کو اس بات کے بتانے کا بہت فائدہ تھا کہ خلاء کی کس سمت میں - سمت نظر کے کس زاویہ پر - جھرمٹ حرکت کر رہا ہے۔ لہٰذا جب وہ جھرمٹ میں ستاروں کے لئے ڈوپلر منتقلی کی پیمائش کرتے ہیں، تو وہ نہ صرف سمت نظر کے ساتھ سمتی رفتار کی پیمائش کو حاصل کرتے ہیں بلکہ ان کو اس زاویے سے ستارے کی سمت نظر کی طرف حقیقی حرکت بھی اور بحیثیت مجموعی اس سمتی رفتار کا کتنے حصّے کی یہ نمائندگی کرتا ہے، معلوم ہو جاتی ہے۔ وہ حصّہ جو باقی بچ جاتا ہے اسے لازمی طور پر ستارے کی اصل سمتی رفتار کلومیٹر فی سیکنڈ میں سمتی نظر پر ہونا چاہئے۔
اور کیونکہ ہم پہلے ہی سے خاص حرکت کو آسمان میں آرک کے سیکنڈ کی حرکت کی صورت میں جانتے ہیں لہٰذا وہ مارا !ہم ان میں سے ایک تصوراتی مہین مثلث اس بات کو جاننے کے لئے اخذ کر سکتے ہیں کہ اس مخصوص جھرمٹ کو کتنا دور ہونا چاہئے تاکہ وہ فی گھنٹہ رفتار سے اس منتقلی کو فی برس آرک کے سیکنڈ کے پیدا کر سکے۔ یہ بہت ہی پیاری ترکیب ہے، اور اگرچہ یہ صرف ان ستاروں کے جھرمٹ پر ہی کام کرتی ہے جو سورج سے چند دسیوں فلکی فرسخ کے اندر موجود ہوں، اس سے فلکیات دان ان میں سے ایک مخصوص جھرمٹ ہائیڈیز کا فاصلہ ناپنے کے قابل ہو گئے، جس میں بہت ہی مختلف قسم کے ستارے سب کے سب 40 فلکی فرسخ کے فاصلے پر موجود تھے۔ اس کی وجہ سے وہ اس قابل ہوئے کہ مختلف طیفی خطوط کی تابانی کو ٹھیک طرح سے توازن کر سکیں اور اس کے بعد وہ تابانی کی تیکنیک کا استعمال کرتے ہوئے ان ستاروں کے خاندان پر لاگو کر سکیں جو بہت دور ہیں تاکہ وہ آسمان پر قابل پیمائش حرکت کو دکھا سکیں۔
خاکہ 3.3 ڈوپلر اثر کسی شاہد کی طرف آتے ہوئے کسی جسم سے نکلنے والی روشنی کی امواج کو بھینچ دیتا ہے جبکہ دور جاتے ہوئے اس کو کھینچ دیتا ہے۔ حلقے اس سرخی لگے نکات پر مخصوص جسم سے نکلنے والی روشنی کو ظاہر کرتے ہیں۔ ہرچند کہ روشنی ہر سمت میں ایک ہی رفتار سے سفر کرتی ہے، حلقے حرکت کی سمت میں مل کر جمع ہو جاتے ہیں۔
دوسری اہم جیومیٹریکل تیکنیک سننے میں کام کے لائق نہیں لگتی تاہم یہ کام کرتی ہے۔ ستاروں کا بڑا مجموعہ لیں جو ہم سے اتنے قریب ہوں کہ ان کی خاص حرکت کی پیمائش کی جا سکے۔ ہو سکتا ہے کہ زمین پر دیکھنے سے وہ خلاء میں ایک عمومی سمت میں ہی ہوں، یا پھر وہ پورے آسمان پر پھیلے ہوئے ہوں، شاید، اس بنیاد پر کہ ان تمام کے رنگ ایک ہی جیسے ہیں یا ان کے طیف ایک ہی قسم کے ہیں۔ کچھ ایک طرح سے حرکت کر رہے ہوں گے کچھ دوسری طرح سے؛ کچھ دوسروں سے تیز حرکت کر رہے ہوں گے کچھ نسبتاً آہستہ۔ تاہم کہکشاں بحیثیت مجموعی - یقینی طور پر سورج کے گرد علاقے میں - نہ تو خود پر منہدم ہوتی ہوئی نہ ہی باہر کی جانب پھٹتی ہوئی لگے گی۔ ستارے عام طور سے منظم ہیں۔ لہٰذا ان اٹکل پچو حرکتوں میں سب کی اوسط نکالنے پر وہ ایک دوسرے کو لازمی طور پر زائل کرتے ہیں۔ اوسطاً ہم قیاس کرتے ہیں کہ اس بات کا کافی امکان ہے کہ ایک ستارے اس طرف جا رہا ہے جس طرف دوسرا ستارہ۔ لہٰذا اگر ہم اپنی جماعت کے سمت نظر کے ساتھ تمام ستاروں کی سمتی رفتاروں کو جمع کریں اور ڈوپلر سمتی رفتار کا اوسط لیں، تو ہم ایک ہی جماعت کے ستاروں کی اوسط سمتی رفتار کسی بھی دوسری سمت میں قیاس کر سکتے ہیں سمت نظر کے ساتھ سمتی رفتار کو تو بطور خاص ویسا ہی ہونا چاہئے۔ اس طرح سے فرض کرکے، یہ ممکن ہے کہ سمت نظر کے ساتھ فرض کی ہوئی اصل سمتی رفتاروں کو خاص زاویائی خاص حرکت کے ساتھ تقابل کرکے چنے ہوئے ستاروں کی جماعت کے تمام ستاروں کو 'اوسط فاصلہ' دے دیا جائے۔
اس تیکنیک کو 'شماریاتی اختلاف زاویہ' کہتے ہیں، تاہم اگر کسی انفرادی ستارے پر اس کا اطلاق کیا جائے گا تو اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا، تاہم جتنے زیادہ ستارے آپ کے پاس موجود ہوں گے، اتنی ہی زیادہ قابل بھروسہ اوسط آپ کو حاصل ہوگی، لہٰذا کچھ ستاروں کے فاصلوں کو بیان کرنے کا یہ کوئی بہت زیادہ برا اشارہ نہیں ہوگا - قطعی اس ترکیب کا استعمال کرتے ہوئے یہ ممکن ہے کہ ستاروں کی جماعت بشمول ایک مخصوص قسم قیقاؤسی متغیر کے 'اوسط فاصلے' کے بارے میں اندازہ لگایا جا سکے۔ ان فاصلوں سے ہمیں پوری ملکی وے نظام کو اور اس کے باہر کائنات کو ناپنے کی چھڑی مل جاتی ہے۔ ہمارے کائنات کے پیمانے کا انحصار جیسا کہ میں بیان کرنے جا رہا ہوں ایک یا دو قیقاؤسی کے فاصلوں کو جاننے پر ہے۔ اب دوسری تیکنیکیں بھی موجود ہیں جس کے بارے میں تفصیل نہیں بیان کروں گا، انہوں نے ابتدائی قیقاؤسی ناپنے کے پیمانے کو بہتر کیا ہے۔ اس کا انحصار ستاروں کے رنگ اور ان کے ظاہری تابانی پر ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے اگر آپ ستاروں کی ایسی جماعت کو لیں جو اصل میں طبیعی طور پر جھرمٹ میں متعلق ہوں تو انفرادی ستاروں کا رنگ گراف پر بنایا جا سکتا ہے جس کو رنگین ظاہری روشنی کا خاکہ کہتے ہیں۔
اس طرح کے پلاٹ سے بنے ہوئے خط کے مقام کا انحصار زمین سے دیکھنے پر جھرمٹ کی روشنی پر ہوتا ہے، اور اس مقام کو درست کیا جا سکتا ہے تاکہ تمام ایسے جھرمٹ ایک معیاری خط پر بیٹھ جائیں بشرطیکہ ہر جھرمٹ کے فاصلے کے لئے خیال کیا جائے۔ بالفاظ دیگرے فرض کریں کہ ہر جھرمٹ میں ستارے اسی ایک طبیعیاتی اصول پر کام کرتے ہیں (اور اگر یہ بات درست نہیں ہو تو ہم کو فلکیات پر کام کرنے کی کوشش ہی چھوڑ دینی چاہئے) ہم ہر جھرمٹ کو رنگین ظاہری روشنی خاکے میں اپنے سے دور منفرد فاصلے کو دے کر بیٹھا سکتے ہیں۔ تاہم اس کے باوجود بھی ہمیں کم از کم ایک جھرمٹ کے فاصلے کو کسی بھی ایک اختلاف زاویہ کی تیکنیک سے جاننا ہوگا تاکہ رنگین ظاہری روشنی کے خاکے میں فاصلے کے پیمانے کو پہلی دفعہ ٹھیک کر سکیں۔
بلاشبہ فلکیات دان دیکھ سکتے ہیں اور اختلاف زاویہ سے بہت زیادہ دور کے اجسام کے بارے میں تفتیش کرکے اس کو ناپ سکتے ہیں۔ تاہم وہ صرف اندازہ کر سکتے ہیں کہ دور درز کے اجسام کتنے دور ہو سکتے ہیں اور صرف وہی ملکی وے کہکشاں کی حقیقی وسعت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کہ کافی فلکیات دنوں کو ملکی وے نظام سے دور کی کہکشاؤں کے بارے میں تصوّر کافی مضحکہ خیز لگتا ہے۔ اس وقت تک ایک پیمائش کا نیا پیمانہ نکل آیا - ایک ایسا پیمانہ جو خلاء کو کھینچ سکتا ہے تاکہ ان ماورائے کہکشاں سحابیوں میں سے کچھ کی براہ راست پیمائش دے سکے۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں