نظام شمسی سے ملکی وے کہکشاں میں جانے کے لئے پہلے قدم کا انحصار قریبی ستارے کا فاصلہ جاننے میں ہے، لہٰذا ملکی وے سے نکل کر کہکشاں میں جانے کا انحصار بڑی طور پر ماورائے کہکشانی خلاء میں اپنے قریبی پڑوسیوں کے فاصلے کو ڈھونڈنے میں ہے جن میں دو سحابئے میجیلانی بادل کہلاتے ہیں جو جنوبی نصف کرہ کے آسمان میں نظر آتے ہیں۔ ان کا نام ایک کھوجی میجیلان کے نام پر رکھا گیا ہے جب اس نے کرے کے گرد بحر گردی کے رسمی واقعہ نگاری میں ان کو 1521ء میں بیان کیا تھا۔ یہ پہلی یورپ کی تہذیب تھی جو ان ایک چھوٹے اور دوسرے بڑے بادلوں کو جانتی تھی جو ملکی وے کے ایسے ٹکڑے لگتے تھے جو ٹوٹ گئے ہوں۔ سولہویں صدی میں کوئی بھی نہیں جانتا تھا کہ بادل کیا تھے - یا ملکی وے خود اس مسئلہ کے لئے کیا ہو سکتی تھی۔ حقیقت میں تو ان کو فلکیات دانوں نے بری طرح نظر انداز کیا یہاں تک کہ جان ہرشل جو ولیم کا بیٹا تھا اس نے جنوبی نصف کرے کے ستاروں اور سحابیوں کا سروے 1830ء کی دہائی میں کیا۔ بیسویں صدی کے آغاز میں اس میں کوئی شک باقی نہیں رہا تھا کہ یہ بادل ملکی وے کی طرح ستاروں کا مجموعہ تھے۔ تاہم سحابیہ کا نظریہ بطور جزیرہ کائنات ختم ہو چکا تھا اور فلکیات دان عمومی طور پر سمجھتے تھے کہ میجیلانی بادل ملکی وے نظام کا حصّہ تھے یا شاید بہت ہی چھوٹے خودمختار نظام ملکی وے سے تھوڑا سا باہر کے تھے، چھوٹے سیارچے جو اس کے ثقلی پیش بند سے بندھے ہوئے تھے۔ میجیلانی بادلوں کے بارے میں سچائی کا ظہور - اور کائنات کے پیمانے کے بارے میں - کسی اندھے الہام کے ذریعے یا نئے مظاہر کے مشاہدے سے نہیں ہوا بلکہ عرق ریزی اور انتہائی محتاط ہزار ہا ستاروں کی فہرست بنانے اور ان کا جائزہ لینے سے ہوا جس کو ایڈورڈ پکرنگ نے انیسویں صدی کے آخری ربع میں ہارورڈ کالج رصدگاہ میں شروع کیا تھا۔
پکرنگ 1846ء میں بوسٹن، میسا چوسٹس میں پیدا ہوا تھا۔ اس نے طبیعیات کی تعلیم نئے میسا چوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں 1860ء اور 1870ء کی دہائی میں حاصل کی اور 1876ء میں ہارورڈ میں فلکیات کا پروفیسر اور رصدگاہ کا نگران مقرر ہوا۔ اگلی چار دہائیوں کے دوران وہ آسمان کی بنائی جانے والی کافی ساری فہرستوں کا ذمہ دار تھا جس میں سے ہر ایک اپنے پیش رو سے بڑی اور بہتر تھی، اور وہ فلکیات دانوں کی ایک پوری نسل کے لئے مثالی فلکیات دان تھا۔ وقت کے ساتھ شانہ بشانہ چلنے میں ستاروں کی تابانی اور ان کے محل وقوع کی فہرست بنانے کی اکتا دینے والا کام جس میں اعداد کی لمبی فہرست کو انتہائی احتیاط کے ساتھ صاف ستھرا کالی دوات سے لکھا جاتا تھا وہ کم اجرت والی عورتوں کو دیا جاتا تھا، فطرتاً وقت کے برخلاف پکرنگ نے پہلے عورتوں کو کام کرنے کی اجازت دی اور پھر ان کی حوصلہ افزائی کی جس میں ان میں سے کچھ عورتیں بہتر مقام پر آ گئیں اور اس وقت کی خاص مردانہ علمی دنیا میں انہوں نے پہلا قدم رکھا۔ ان خواتین میں سے ایک ہینریٹا سوان لیوٹ تھیں جن کو جنوبی آسمان کی عکاسی تختیوں میں سے متغیر ستاروں کی شناخت کا کام سونپا گیا تھا، جس کو پکرنگ کے بھائی ولیم نے پیرو میں واقع ایک مشاہداتی جگہ سے حاصل کیا تھا۔
ہینریٹا لیوٹ 1868ء (جولائی کی چار تاریخ کو؛ ایک حقیقی انقلاب کی بیٹی) میں پیدا ہوئیں اور انہوں نے سوسائٹی فار کالجیٹ انسٹرکشن آف وومن سے تعلیم حاصل کی جو بعد میں ریڈکلف کالج بن گیا تھا۔ وہ پکرنگ کے پروگرام میں 1895ء میں بطور تحقیقی ماتحت رضاکار کے شامل ہوئی اور 1902ء میں اس مقام پر مستقل ہو گئیں اور جلد ہی وہ وہاں شعبے کی سربراہ بن گئیں۔ بلاشبہ پکرنگ خوش تھا کہ اس کی ٹیم میں کوئی ایسی صلاحیت، صبر اور لیاقت کے ساتھ موجود تھا جو پیرو سے لائی گئی عکاسی تختیوں سے کچھ کام کی چیز نکالنے کی حس رکھتا تھا، اگرچہ ان دونوں کو 1895ء میں اس بات کا خفیف سا بھی علم نہیں تھا کہ لیوٹ کی تحقیق سے اگلے سترہ برسوں میں کیا چیز نکل کر سامنے آنے والی تھی۔
متغیر ستارے - وہ ستارے جن کی روشنی میں تغیر ہوتا ہے - ظاہر ہے کہ فلکیات دانوں کی دلچسپی کا باعث ہیں۔ زیادہ تر ستارے ایک جیسے لگتے ہیں، کم از کم انسانی زندگی کے عرصے کے دوران تو ایسا ہی ہوتا ہے، اور کوئی بھی چیز جو اس عمومی حالت سے باہر ہوتی ہے لازمی طور پر مرکز نگاہ بن جاتی ہے۔ کچھ متغیر تو حقیقت میں دو ستارے ہوتے ہیں جو ایک دوسرے کے گرد چکر لگاتے ہوئے اپنے ساتھی کو گرہن لگاتے ہیں اور اس کی روشنی کو چھپا دیتے ہیں۔ دوسرے جیسا کہ ہم اب ان کے بارے میں جان گئے ہیں، وہ دھڑکتے ستارے ہوتے ہیں، پہلے پھولتے ہیں اور پھر خود پر سکڑ جاتے ہیں اور یہ چکر باقاعدگی سے دہراتے ہیں جس سے ان کی روشنی کم اور زیادہ ہوتی ہے۔ قیقاؤسی اسی طرح کے ہوتے ہیں۔ اور کچھ - چند ایک - ستارے بہت ہی متشدد متغیر ہوتے ہیں، اور اپنی عام زندگی خاموشی سے گزارنے کے بعد منہدم ہونے سے پہلے اور نجمی راکھ بن کر ختم ہونے سے پہلے تھوڑے ہی وقت میں باہر کی جانب بلند توانائی کو پھینکتے ہیں، فلکیاتی عکس بندی کا ایک عظیم فائدہ یہ ہے کہ دنوں، مہینوں یا برسوں کے وقفے سے لی گئی تصاویر کا موازنہ کرکے یہ ممکن ہے کہ اس قسم کی تمام سرگرمیوں کی شناخت کر لی جائے۔ یہاں تک کہ آپ اس مظہر کی تفتیش بھی کر سکتے ہیں جس کے اہمیت عکس بندی کے دوران اس وقت بھی نہ معلوم ہو جب تصاویر اتاری جا رہی ہوں۔ اپنے کام کے دوران، لیوٹ نے 2,400 متغیر ستاروں کی (اس کی 1921ء میں موت کے وقت فلکیات کی دنیا میں کل جانے والے اس طرح کے ستاروں کا نصف) اور چار پھٹتے ہوئے ستاروں کی شناخت کی جس کو نووا کہتے ہیں۔ اور یہ اس کی ایک مخصوص قسم کے متغیر ستارے پر تحقیق تھی جس نے اس کو کائنات کے رازوں کے قفل کی کنجی پکڑا دی تھی۔
متغیر ستاروں کا وہ خاندان جس کو قیقاؤسی کہتے ہیں اس کا نام ڈیلٹا قیقاؤس سے پڑا جس کو بطور متغیر ستارے ایک نوجوان انگریز فلکیات دان جان گڈریک نے 1784ء میں شناخت کیا تھا۔ وہ صرف دو برس بعد اکیس برس کی عمر میں انتقال کرگیا۔ قیقاؤسی تابانی میں ایک باقاعدہ تغیر کا نمونے کی خاصیت کو دکھاتے ہیں، تاہم مختلف قیقاؤسیوں میں اس طرح کا تغیر مختلف ہوتا ہے، کسی میں دو دن سے بھی کم ہوتا ہے جبکہ کچھ کا سو دن سے بھی زیادہ کا دورانیہ ہوتا ہے۔ اوسط پانچ دنوں کی ہوتی ہے۔ روشن اور مدھم دونوں کے مخصوص ہونے کی وجہ سے اور کیونکہ وہ اپنے طیف میں بھی خاندانی شبہات دکھاتے ہیں ان کی ایک خاندان کے رکن کی حیثیت سے شناخت کی جا سکتی ہے۔ قیقاؤسیوں کے بارے میں بلاشبہ ایک دلچسپ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے کہ ان کے دورانیے مختلف ہوتے ہیں جب کہ ہر انفرادی ستارہ ایک مستقل میعاد دکھاتا ہے۔ جیسا کہ لیوٹ نے اپنا عرق ریزی سے کیا جانے والا کام جاری رکھا، اور قیقاؤسوں (اور دیگر متغیروں) کو عکسی تختیوں پر شناخت کرتی رہی، اور ان میں سے ہر ایک کی طوالت اور چکر، ان کی اوسط بظاہر روشنی درج کرتی رہی تو اس نے ایک ظاہر ہوتا ہوا نمونہ دیکھا۔ جتنا زیادہ قیقاؤسی روشن ہوگا اتنا ہی آہستہ وہ اپنے تغیر کے چکر سے گزرے گا۔
1 comments:
sir ap bht acha kam kr rahy hain plz isko bnd mat kijey ga ...isi tarah info shair krty rhy thankx
ایک تبصرہ شائع کریں