Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    جمعرات، 8 ستمبر، 2016

    قیقاؤسی پیمائشی پیمانہ - حصّہ دوم



    1908ء میں لیوٹ نے کچھ اتنا اس وقت کہا جب اس نے اپنے کام کی پیش رفت کی ابتدائی رپورٹ شایع کی۔ ان اعداد و شمار کو لکھنے میں مزید چار برس لگ گئے۔ تاہم جب یہ 1912ء میں سمجھ لیا گیا تو اس نے کہکشاں کے پیمانے کے فاصلے کو قائم کرنے کے لئے حقیقی امید دلائی اور یہ سب میجیلانی بادلوں کی رہین منت تھی۔

    اس وقت لیوٹ نے میجیلانی بادلوں ( اکثر وہ ایس ایم سی بھی کہلاتا ہے جس کی وجہ صاف ظاہر ہے) میں سے چھوٹے بادل میں پچیس قیقاؤسیوں کی شناخت کی۔ یہ بہت واضح طور پر تابانی اور دورانیے کے درمیان تعلق کو ظاہر کرتے ہیں، جو بمشکل بذات خود ملکی وے کے تمام متغیر دکھاتے تھے۔ اس کی وجہ سمجھنا آسان ہے۔ ملکی وے کہکشاں میں ستارے ہم سے مختلف فاصلوں پر منتشر ہیں۔ کچھ قریب ہیں، دوسرے دس یا سینکڑوں گنا بلکہ اس سے بھی زیادہ دور ہیں۔ ایک ستارہ جو دوسرے ستارے سے دو گنا زیادہ روشن اور دو گنا زیادہ دور ہے حقیقت میں دونوں میں سے زیادہ دھندلا لگتا ہے - نظر آنے والی روشنی کا انحصار اصل درخشندگی کو فاصلے کے مربع سے تقسیم کرنے پر ہوتا ہے۔ لہٰذا جیسا کہ اب یہ بات جان لی گئی ہے کہ دورانیے اور تابانی کی نسبت ہماری اپنی کہکشاں کے اندر چھپ جاتی ہے۔

    تاہم چیزیں چھوٹے میجیلانی بادل کے لئے الگ طرح سے ہیں۔ بادل ہم سے اس قدر دور ہے کہ اس میں موجود تمام ستارے زمین سے لگ بھگ ایک جیسے ہی فاصلے پر لگتے ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی دوسرے سے تھوڑا اور قریب ہو سکتا ہے تاہم ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں سمجھا جاتا کہ وہ دوسروں سے دوگنے فاصلے پر موجود ہو۔ فاصلے میں اختلاف کا پیمانہ بادل کے اوسط فاصلے سے بہت ہی کم ہے بعینہ ایسے جیسے کہ انگلستان کے ایک چھوٹے سے قصبے میں یہ کتاب لکھ رہا ہوں ، نیویارک میں رہنے والا ہر کوئی اس کا فاصلہ ایک ہی جیسے سمجھے گا۔ مجھ سے سب سے نزدیک قصبہ ایک میل دور ہے، اور قصبے کی دور دراز جگہ قریبی جگہ سے دو گنا زیادہ دور ہے۔ ایک میل کا فاصلہ اس وقت کافی اہمیت رکھتا ہے جب میں قصبے کے ایک حصّے سے دوسری طرف کا سفر کروں۔ تاہم تمام عملی مقاصد کے لئے میں ٹائم اسکوائر اور اسٹیچو آف لبرٹی سے ایک جتنا ہی دو ہوں۔ چند میل کے فاصلے کو اگر شمالی بحراوقیانُوس کی چوڑائی سے ملایا جائے تو اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

    لہٰذا ایسا تھا کہ لیوٹ قیقاؤسی کی تابانی اور دورانیے کے درمیان تعلق کو ایس ایم سی میں اپنے پچیس متغیروں کی بدولت جاننے کے قابل ہو گئی تھی۔ مثال کے طور پر اس نے پایا کہ اگر ایک قیقاؤسی کے پاس تین دن کا وقت ہوتا ہے اور دوسرے کے پاس اکتیس دن کا تو وہ ستارہ جس کا دورانیہ لمبا ہوتا ہے وہ کم دورانیے والے ستارے سے چھ گنا زیادہ روشن ہوگا۔ فرض کریں کہ جو اصول اس نے میجیلانی بادل کے قیقاؤسیوں میں پایا تھا اگر تمام قیقاؤسیوں کے لئے درست ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ملکی وے کہکشاں میں موجود قیقاؤسیوں کا استعمال کرکے ملکی وے میں ستاروں اور ستاروں کے جھرمٹوں کا نسبتی فاصلے کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ تاہم کوئی بھی ایک بھی قیقاؤسی کی حقیقی اصل تابانی کو نہیں جانتا تھا لہٰذا فاصلے کا پیمانے کا توازن درست نہیں تھا۔ فلکیات دانوں کے ہاتھ اب کہکشاں کو ناپنے کی چھڑی لگ گئی تھی، تاہم وہ اس چھڑی کی لمبائی کو نہیں جانتے تھے؛ وہ یہ تو بتا سکتے تھے کہ ایک ستارہ یا ستاروں کے جھرمٹ دوسرے سے دوگنا زیادہ دور تھے، تاہم وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ وہ میلوں میں یا کلومیٹروں میں فاصلہ ناپ رہے ہیں۔ لہٰذا وہ اب بھی نہیں جانتے تھے کہ آیا میجیلانی بادلوں کے نظام ملکی وے کے اندر تھے یا وہ بہت دور کے اجسام یعنی کہ خود اپنے آپ میں کہکشاں ہیں۔

    سچائی کو ابھر کر سامنے آنے میں صرف ایک ہی برس لگا۔ ایجنار ہرٹزپرنگ جو ایک ڈنمارکی فلکیات دان اور طبیعیات تھے (اور جو 1867ء میں پیدا ہوئے اور 1967ء میں اپنی موت تک تحقیق میں سرگرم رہے تھے)، انہوں نے سب سے پہلے دو قریبی قیقاؤسیوں کے درمیان فاصلے کو شماریاتی اختلاف زاویہ کی ایک مختلف قسم کا استعمال کرتے ہوئے ناپا۔ اپنی تمام تر کمیوں کے ساتھ اس تیکنیک نے ان کو ایک یا دو قیقاؤسیوں کے اصل فاصلے کے بارے میں اشارہ دیا۔ فاصلے کے ساتھ ان کی نظر آنے والی تابانی کا موازنہ کرکے وہ آسانی کے ساتھ ہر صورت میں اصل تابانی کا حساب لگا سکتا تھا۔ اس سے کسی بھی دوسرے قیقاؤسی کا اصل فاصلے کا حساب لگانے کے لئے یہ ایک سادہ قدم تھا جس میں اس کے دورانیے کا حساب لگا کر اشارہ مل جاتا تھا کہ اس کو ان چند کے مقابلے کتنا مدھم یا روشن حقیقت میں ہونا چاہئے جن کے فاصلے اور مطلق تابانی کی پیمائش کی جاچکی تھی۔ ہرٹزپرنگ نے نتیجہ نکالا کہ ایس ایم سی 30,000 ہزار نوری برس (لگ بھگ 10,000 ہزار فلکی فرسخ) دور ہے، اس کا اتنا دور ہونے کی کسی کو بھی توقع نہیں تھی۔ تاہم ان پیمائشوں نے کائنات کے حقیقی حجم کے بارے میں فوراً ہی آنکھیں نہیں کھولیں، اس کی دو وجوہات تھیں۔ پہلی کیونکہ اس نے اس حقیقت کو شامل حال نہیں کیا تھا کہ خلاء میں موجود دھول دور دراز کے ستاروں کی کچھ روشنی کو روک لیتی ہے اور ان کو اصل سے کہیں زیادہ مدھم کر دیتی ہے، ہرٹزپرنگ کا حساب تھوڑا سے غلط تھا - سب سے بہترین جدید حسابات سے بڑے میجیلانی بادل کا فاصلہ مزید 170,000 نوری برس کا متاثر کرنے والا یا 52,000 فلکی فرسخ کا معلوم ہوا جبکہ چھوٹے میجیلانی بادل کا فاصلہ 63,000 فلکی فرسخ (63 کلو فلکی فرسخ) ہے۔ اور دوسری وجہ یہ تھی کہ فلکیات دان اگلے چند برس تک اپنی نئی حیرت انگیز پیمائش کی چھڑی کے ساتھ ملکی وے کا حجم ناپ کر پریشان ہونے میں بہت زیادہ مصروف تھے کہ ملکی وے سے آگے کیا ہے۔ میجیلانی بادلوں سے آگے اصل کائنات میں جانے کے لئے تخیل میں نئی چھلانگ لگانے کے لئے نئی نسل کی دوربینوں کی ضرورت تھی۔ اس سے پہلے کہ ہم یہ دو قدم اٹھاتے یہ عین درست بات ہے کہ ان فلکیات دانوں کی عظیم کامیابی کا اعتراف کیا جائے جنہوں نے ہماری اپنی کہکشاں کا نقشہ ان تیکنیک کا استعمال کرکے بنایا تھا جس نے بعد میں خلاء کی گہرائی میں کی جانے والی تفتیش کی بنیاد رکھی۔
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: قیقاؤسی پیمائشی پیمانہ - حصّہ دوم Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top