Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    اتوار، 25 ستمبر، 2016

    سرخ منتقلی اور نیلی منتقلی - حصّہ دوم


    یاد رہے کہ ڈوپلر منتقلی حرکت کرتے ہوئے جسم سے آتی ہوئی روشنی کے طیف میں دیکھے جانے والے روشن یا تاریک خطوط ہوتے ہیں۔ اگر کوئی جسم ہماری طرف حرکت کرتا ہے تو بصری طیف میں منتقلی نیلے حصّے کی طرف ہوتی ہے اور اس کو نیلی منتقلی کہتے ہیں۔ اگر جسم ہم سے دور کی طرف جا رہا ہے تو اس کو سرخ منتقلی کہیں گے۔ اور منتقلی کا حجم جب ساکن جسم سے آنے والی روشنی کے طیف کے خطوط کے مقام سے موازنہ کیا جائے گا تو اس سے اس رفتار کی براہ راست پیمائش ملے گی جس سے جسم ہماری طرف یا ہم سے دور جاتا ہے یعنی ڈوپلر سمتی رفتار۔ 

    سحابیہ کے لئے ڈوپلر سمتی رفتار کی پہلی پیمائش میں اس تکنیکی کامیابی کی طرف اشارہ لائق سزاوار ہے۔ 24 انچ دوربین اس دور کا سب سے بہترین آلہ تھا۔ لیکن یہ دن ہیل کی دوربین کی ٹیکنالوجی میں پیش رفت میں عظیم چھلانگ لگانے سے پہلے کا تھا۔ دستیاب بہترین ٹیکنالوجی - بہترین طیف پیما اور بہترین عکسی تختیوں - کا استعمال کر کے سلائیفر کو اب ابھی ایک تصویر لینے کے لئے بیس، تیس، یا چالیس گھنٹے ( لازمی سی بات ہے کہ یہ کئی راتوں پر پھیلا ہوا عمل ہوتا تھا) تک کا وقت لگتا تھا تاکہ وہ ایک طیف حاصل کر سکے جس سے ڈوپلر منتقلی کی پیمائش کی جا سکتی ہو۔ یاد رہے کہ ایک غیر گرم دوربینی گنبد میں یہ سب کام کرنے کے دوران مرطوب ہوا اتصالی رو پیدا کر دیتی تھی جس سے دوربین میں یا طیف نگار کی ریخ میں تصویر دھندلی ہو جاتی تھی، بلند عرض البلد میں ٹھنڈی ہوا میں کام کر کے اور واقعی دوربین میں نظر آنے والی تصویر پر نظریں جما کر اس بات کا یقین کرنا ہوتا تھا کہ سحابیہ میدان کے مرکز کے مقام پر درست طرح سے عکس بند ہو رہا ہے۔ جب وہ تصویر لے لیتا تھا تو سلائیفر کے مسائل کافی حد تک دور ہو جاتے تھے۔ ستارے کی روشنی دوربین سے لی جانے والی تصویر میں ایک نقطہ پر مرتکز ہوتی ہے، اور جب یہ روشنی کا نقطہ طیف پیما سے پھیلتا ہے، تو پھیلی ہوئی تصویر اس وقت بھی اتنی روشن ہوتی ہے کہ خطوط اور ان کا سرکاؤ اگر کوئی ہو تو اس کی شناخت ہو سکے اور نسبتاً آسانی کے ساتھ پیمائش ہو جائے۔ دوسری طرف سحابیہ - ایک کہکشاں – کی دھندلی تصویر آغاز کرنے کے لئے کافی وسیع ہوتی ہے، اور پہلے ہی سے دھندلی تصویر کی طیف بینی کے پھیلنے سے یہ ہنوز دھندلی ہی ہوتی ہے، جس کے طیف میں خطوط کو ڈھونڈنا اور ان کی شناخت کرنا مشکل ہوتا ہے۔ اگر پھیلی ہوئی تصویر کافی بڑی ہوتی ہے ، تو خطوط اتنے دھندلے ہوتے ہیں کہ ان کو نہیں دیکھا جا سکتا؛ اگر تصویر اتنی روشن ہو کہ خطوط نظر آ جائیں، تو امکان یہ ہے کہ یہ اس قدر چھوٹے ہوں گے کہ ان خطوط میں منتقلی کی پیمائش نہیں ہو سکے گی۔ ڈوپلر پیمائش کی تیکنیک کی کامیابی کا انحصار اہم طور پر اس رنگ ریز عکاسی تختیوں کی کارکردگی یا رفتار پر ہوتا ہے جو اس کو درج کرنے کے لئے استعمال ہوتی ہیں۔ ان تمام مشکلات کے باوجود 1912ء میں سلائیفر نے اینڈرومیڈا سحابیہ، M31 کے چار طیفی خاکے حاصل کر لے جو تمام کے تمام واضح طور پر اس ڈوپلر منتقلی کے برابر بتا رہے تھے جس کی سمتی رفتار 300 کلومیٹر فی سیکنڈ تھی۔ اینڈرومیڈا سے آنے والی روشنی میں نیلی منتقلی بتاتی ہے کہ نا صرف سحابیہ ہماری طرف آ رہا ہے بلکہ اس کی سمتی رفتار اس وقت کے پیمائش کردہ کسی بھی فلکیاتی جسم - ستارے، سیارے - سے بہت زیادہ ہے۔ 

    ایک مرتبہ یہ پیش رفت حاصل ہو گئی تو دوسرے سحابیوں کی ڈوپلر سمتی رفتاروں کو بھی جلد ہی ناپ لیا گیا تاہم ان کی پیمائش میں کوئی جلد بازی نہیں کی گئی۔ بڑی عرق ریزی کے ساتھ اپنے آلات کو آخری استعداد تک استعمال کرنے کے بعد سلائیفر نے سحابیوں کے ڈوپلر کی منتقلی کی پیمائش کو 1914ء تک تیرا سحابیوں تک پہنچا دیا۔ اب ایک نمونہ ابھر کر سامنے آنا شروع ہو گیا۔ ان تیرہ میں سے صرف دو نے نیلی منتقلی کو ظاہر کیا؛ باقی دوسرے گیارہ سرخ منتقلی والے تھے جس سے اشارہ ملتا تھا کہ جن سحابیوں پر تحقیق ہو رہی تھی وہ سب ہم سے سینکڑوں کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے دور بھاگ رہے تھے۔ یہ اب بھی ایک اتفاق ہو سکتا تھا کہ سلائیفر کے پیمائش کردہ پہلے طیف میں نظر آنے والی سرخ منتقلی کی کوئی اہمیت ہو سکتی تھی۔ بائیں ہمہ آپ اس بات کی امید کر سکتے ہیں کہ ایک بے عیب سکے کو جب متواتر اچھالا جائے گا تو چت یا پٹ ایک ہی جتنی دفعہ آئیں گے ؛ تیرہ مرتبہ اچھالنے پر صرف دو مرتبہ چت آئے ایسا ہونا کافی حیران کن ہو گا۔ تاہم جیسے جیسے اور سرخ منتقلی کی پیمائش کی گئی نمونہ ویسا ہی رہا۔ 1925ء تک سلائیفر نے اکتالیس سحابیوں کے ڈوپلر منتقلی کی پیمائش کر لی تھی، اور دوسرے فلکیات دانوں نے اس فہرست میں مزید چار کا اضافہ کیا تھا (سلائیفر کی کامیابی کا کچھ اشارہ - اس نے دوسرے تمام لوگوں کی پیمائش کے مقابلے میں دس گنا زیادہ پیمائش کی تھی)؛ اب یہ پینتالیس میں سے تینتالیس ہو گئے تھے جو سرخ منتقلی دکھا رہے تھے، اور سب سے زیادہ تیز رفتاری جس سے وہ ہم سے دور جا رہے تھے وہ 1,000 ہزار کلومیٹر فی سیکنڈ تھی۔ اب یہ اتفاق سے بڑھ کر لگنا شروع ہو گیا تھا، اگرچہ اس وقت تک فلکیات دانوں کے پاس کوئی ثبوت نہیں تھا کہ سحابیہ اصل میں خود سے بیرونی کہکشائیں ملکی وے سے کہیں دور کی تھیں۔ تاہم وہ اس بارے میں شکوک و شبہات کا شکار تھے۔ آرتھر ایڈنگٹن جو ایک عظیم برطانوی فلکیات دان تھا اور جس نے سائنس کو کافی مقبول بنایا تھا 1923ء میں لکھتا ہے :
    کونیات کا ایک سب سے تنگ کرنے والا مسئلہ مرغولہ نما سحابیوں کی عظیم رفتار ہے۔ ان کی شعاعی سمتی رفتار کی اوسط تقریباً 600 کلومیٹر فی سیکنڈ ہے اور نظام شمسی سے دور جاتے ہوئے سمتی رفتار میں عظیم طاقت ہے۔ عام طور پر فرض کیا جاتا ہے کہ یہ سب سے دور دراز معلوم جسم ہیں (اگرچہ اس نقطہ نظر کے خلاف بھی کچھ لوگ تھے )، اس طرح اگر کہیں بھی ہم اس اثر کو دیکھیں تو یہ دنیا کی عمومی خاصیت کی وجہ سے ہوتا ہے۔
    'دنیا' سے بلاشبہ ایڈنگٹن کا مطلب وہ تھا جس کو ہم اب کائنات کہتے ہیں۔ اس نے مزید لکھا:

    مثبت سمتی رفتار (دور جانے )کی عظیم مقدار بہت ہی حیران کن ہے ؛ تاہم جنوبی سحابیوں کے مشاہدے کی عدم دستیابی بدقسمتی ہے اور یہ حتمی نتائج اخذ کرنے سے روکتی ہے۔ 
    اگلے چند سالوں کے دوران ڈاپلر پیمائش کے لئے ایک اہم اصلاح اس وقت کی گئی جب یہ تصدیق ہو گئی کہ ملکی وے مجموعی طور پر گھومتی ہے، اور کئی تکنیکوں کے استعمال سے یہ ممکن ہو گیا کہ ملکی وے کے مرکز کے گرد سورج کے مدار میں گھومنے کی رفتار کا اندازہ لگایا جا سکے۔ ایسا لگتا ہے کہ نظام شمسی لگ بھگ 250 کلومیٹر فی سیکنڈ کے ساتھ حرکت کر رہا ہے اور ایسا کم و بیش اینڈرومیڈا کہکشاں کی سمت میں ہی ہو رہا ہے۔ 300 کلومیٹر فی سیکنڈ کی متاثر کن رفتار اصل میں ملکی وے کے گرد ہماری حرکت کی وجہ سے ہے ؛ صرف 50 کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار اصل میں بحیثیت مجموعی اینڈرومیڈا سحابئے کے ملکی وے کی طرف آنے کی وجہ سے ہے۔ اگرچہ ناپی ہوئی سرخ منتقلی مزید تیز رفتاری کے نئے اندراج کر رہی تھی تاہم کچھ جانی ہوئی نیلی منتقلی پہلے کے تاثر کے مقابلے میں کہیں زیادہ منکسرالمزاج ہونے کا اشارہ دے رہی تھی۔ ہبل اور اس کے رفیق ملٹن ہماسن کے لئے سیج سج گئی تھی جنہوں نے کائنات کی پہلی جدید تصویر دی تھی۔
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: سرخ منتقلی اور نیلی منتقلی - حصّہ دوم Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top