Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    پیر، 26 ستمبر، 2016

    سرخ منتقلی کا حاوی ہونا -حصّہ اوّل




    1920ء کے وسط میں کچھ فلکیات دانوں کے درمیان بطور خاص جرمن کارل ورٹز کو شک و شبہ تھا کہ سلائیفر نے جو دور جاتی ہوئی بڑی سمتی رفتاروں کی پیمائش کی تھی وہ تفتیش کئے گئے سحابیوں میں سب سے زیادہ دور تھے۔ تاہم اب یہ کوئی شک و شبے کی بات نہیں رہی کیونکہ ہبل سے پہلے کسی کو بھی سحابیوں کے فاصلے کے بارے میں کچھ زیادہ معلوم نہیں تھا۔ لہذا، قدرتی طور پرثبوتوں کے دونوں حصّوں - سرخ منتقلی اور فاصلے - کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑنا ہبل کی قسمت میں آیا جس سے اس کو سرخ منتقلی فاصلے کی نسبت معلوم ہوئی۔ ملکی وے کے گرد سورج کی سمتی رفتار کا تعین کرنے کے بعد، جزوی طور پر ورٹز کے کام کی وجہ سے، 1927ء میں نمونہ ان چالیس منفرد کہکشاؤں میں بھی صاف صاف دیکھا جا سکتا تھا جن کی سرخ منتقلی کی پیمائش کی گئی تھی، اور اس کی وجہ سے نئے اہم منصوبے کی تحریک ملی جس میں مزید دھندلے اور دور دراز کی کہکشاؤں کی سرخ منتقلی کا تعین کیا جا سکے، ایک ایسا منصوبہ جو ہبل کے رفیق ملٹن ہماسن سے پورا کیا۔ 

    1924ء، میں ورٹز نے دکھایا کہ زمین سے دیکھے جانے والے سحابیہ کا ظاہری قطر اس کے دور جاتی سمتی رفتار سے نسبت رکھتا ہوا لگتا ہے۔ اس کے پاس بیالیس کہکشاؤں کے اعداد و شمار تھے اور اس نے دیکھا کہ جتنی چھوٹی کہکشاں تھی اتنا ہی زیادہ اس کے مائل بہ سرخ منتقل ہونے کا امکان تھا۔ فرض کریں کہ تمام کہکشائیں کم و بیش ایک ہی حجم کی ہیں اس سے فوری طور پر معلوم ہوتا ہے کہ چھوٹے سحابئے صرف چھوٹے لگتے ہیں کیونکہ وہ بہت دور ہوتے ہیں اور لہٰذا ہم سے عظیم فاصلے پر ہونے کی وجہ سے ان کی عظیم دور جاتی ہوئی رفتار ساتھ ساتھ ہوتی ہے۔ تاہم یہ صرف ظن و تخمین ہی ہے کیونکہ اس وقت سحابیہ کے مطلق فاصلے کی پیمائش کا کوئی براہ راست طریقہ نہیں تھا۔ 1929ء تک معاملہ ایسا ہی رہا۔ سلائیفر نے اپنی توجہ دوسرے مسائل کی طرف کر دی تھی، اور اس وقت تک بھی ملکی وے سے دور صرف چھیالیس کہکشاؤں کی سرخ منتقلی معلوم تھی۔ تاہم اس وقت تک یہ واضح ہو گیا تھا کہ یہ اجسام بذات خود کہکشائیں ہیں، اور لیوٹ اور شیپلی کے رہنما کام کو ہبل نے آگے بڑھا کر ان کے نسبتی فاصلے کے بارے میں اچھا اندازہ دے دیا۔ اگرچہ ہم جانتے ہیں کہ ہبل پیمانے کی بنیاد غلط تھی وہ اس کے باوجود مکمل درستگی کے ساتھ کہہ سکتا تھا کہ ایک کہکشاں ہم سے دوسری کی نسبت دو گنا فاصلے پر موجود ہے یا ڈیڑھ گنا زیادہ فاصلہ پر موجود ہے یا جو بھی نسبت ہو۔ اور یہ ہی وہ معلومات تھیں جس کی اس کو ضرورت تھی۔ اس کے باوجود یہ حیرانی کی بات ہے کہ ہبل نے (درست) بہت ہی کم معلومات کی بنیاد پر نتیجہ اخذ کر لیا۔ 

    ہبل کے پاس چھیالیس سرخ منتقلی کے اعداد و شمار تھے جو زیادہ تر سلائیفر سے ملے تھے تاہم ان چھیالیس اجسام میں اس کے پاس صرف اٹھارہ الگ کہکشاؤں اور برج سنبلہ کے فاصلے موجود تھے۔ ان کے موازنے کا ایک واضح طریقہ تو یہ تھا کہ ان انیس اجسام کی سمتی رفتار (سرخ منتقلی) کو فاصلوں کے خلاف ایک گراف پر پلاٹ کیا جائے۔ ہر جسم کی ایک منفرد سمتی رفتار اور منفرد فاصلہ لہٰذا وہ اس طرح کے گراف پر ایک مخصوص جگہ کے تعلق کو ظاہر کر رہا تھا۔ 

    جب تمام انیس نکتے پلاٹ کر لئے گئے تو ہبل نے نتیجے اخذ کیا کہ وہ ایک سیدھے خط پر تھے اس کا مطلب یہ تھا کہ سمتی رفتار لازمی طور پر فاصلے کے راست متناسب تھی - جو کہکشاں ہم سے دو گنا فاصلے پر تھی اسی طرح دوسری کہکشاں قریبی کہکشاں جتنی دور دو گنا تیزی سے بھاگتی ہوئی نظر آ رہی تھی۔ حقیقت میں یہ ایک عمومی بات لگتی ہے جس کو ان چند بکھرے ہوئے نکتوں کی مدد سے بنایا گیا ہے جس کو ہبل نے اس گراف پر پلاٹ کیا تھا (خاکہ 4.1 کو دیکھیں )۔ 


    خاکہ 4.1 الف ایڈون ہبل کے ابتدائی سرخ منتقلی-فاصلے کا پلاٹ ، 1929ء میں صرف 33 اعداد و شمار کے نکتوں اور ان کے درمیان میں ایک رجائیت پسند خط مستقیم کھینچا ہوا ہے۔ 


    ان نکات کے درمیان ایک سیدھے خط کو کھنچنے اور یہ کہنے کے لئے کہ تمام نکات ایک ہی خط پر موجود ہیں آپ کو بہت زیادہ یقین کی ضرورت ہے اور ساتھ میں تخیل کی بھی کمی نہیں ہونی چاہئے ۔ تاہم فلکیات دان اس قسم کی نئی چیزیں پیش کرنے کے ماہر ہوتے ہیں اور جیسا کہ ہم دیکھیں گے کہ یہ اسی طرح کی چیز تھی جس کے تعلق کے بارے میں ہبل کو خفیف سا اشارہ ملا تھا اور وہ اسی کو تلاش کر رہا تھا۔ آج اس تعلق کی بنیادیں لرزاں لگتی ہیں تاہم مزید تحقیق جلد ہی کسی شک و شبے سے بالاتر ہو کر اس کی بنیادی سچائی کو قائم کرنے والی تھی اور آج ہم اس کو ہبل کے قانون کے نام سے جانتے ہیں : سرخ منتقلی فاصلے کی نسبت ہوتی ہے۔ اگر واقعی قانون حقیقت میں آفاقی تھا اور اس مسلسل نسبت کو قیاس کیا جائے (جس کو اب ہبل کا قانون کہتے ہیں ) کہ وہ ٹھیک طرح سے ناپ لیا گیا ہے تو یہ فلکیات دانوں کو کائنات کی پیمائشی چھڑی مہیا کرتی ہے۔ صرف ان کو اتنا کرنا تھا کہ سرخ منتقلی کی پیمائش کرنی تھی اور وہ فاصلہ جان جاتے۔ دریافت کی اہمیت بہت دور تک تھی بہرحال اس سے پہلے کہ ہم اس کے مضمرات کو جانیں ہمیں اس شخص کو خراج تحسین پیش کرنا چاہئے جس نے سرخ منتقلی کو وہاں سے آگے بڑھایا جہاں سے سلائیفر نے اس کو چھوڑ دیا تھا، اور جس نے 'ہبل کے قانون' کی صحت کو ہبل سے کہیں زیادہ قائم کیا۔
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: سرخ منتقلی کا حاوی ہونا -حصّہ اوّل Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top