1905ء میں جرمنی کا جریدہ انالین ڈر فزک کا والیوم نمبر 17 شایع ہوا، اور اب تو سائنس دانوں کے لئے یہ تو نوادرات جیسی حیثیت رکھتا ہے۔ اس جریدے کے ایک والیوم میں، نوجوان آئن سٹائن جو ایک گمنام پیٹنٹ محرر تھا (اس وقت اس کے پاس پی ایچ ڈی کی سند بھی نہیں تھی)، نے تین مقالے شایع کئے جنہوں نے دنیا کی ماہیت کے بارے میں نئی راہ دکھائی۔ ان میں سے ایک نے جوہر کی حقیقت کو قائم کرنے میں مدد دی؛ دوسرے نے اشارہ دیا کہ ہو سکتا ہے کہ روشنی صرف موج ہی نہ ہو بلکہ وہ ذرّات کے سلسلوں کی طرح برتاؤ کرتی ہو۔ ان دونوں مقالات نے کوانٹم طبیعات میں ہونے والی پیش رفت میں اپنی اہمیت کو ثابت کیا، اور یہ ان میں سے دوسرا تھا جو ضیا برقی اثر پر تھا جس پر سترہ برس بعد آئن سٹائن نے نوبل انعام حاصل کیا۔ تاہم یہ تیسرا مقالہ تھا جو سب سے زیادہ مشہور ہوا۔ اس نے تیس صفحات کو بھرا تھا اور اس کا عنوان متاثر کن 'حرکت کرتے ہوئے اجسام کی برقی حرکیات پر' تھا۔ یہ وہ مقالہ تھا جو ہمیں بتاتا ہے کہ نہ تو خلاء اور نہ ہی وقت کوئی مطلق چیز ہے بلکہ اس کو کھینچا یا سکیڑا جا سکتا ہے جس کا انحصار آپ کے دیکھنے پر منحصر ہے ؛ اور یہ کہ حرکت کرتی ہوئے اجسام بھاری ہو جاتے ہیں ؛ اور یہ کہ E = mc 2 جس نے جوہری بم اور نیوکلیائی بجلی گھر کو بنانے کی راہ دکھائی، اس کے علاوہ اس فہم کے ادراک کہ سورج اور ستاروں کو اندر سے کیا چیز گرم رکھتی ہے۔ اگر یہ سب متاثر کن لگتا ہے، یاد رہے کہ 1905ء میں جس چیز کو آئن سٹائن نے اپنے عظیم ترین کام ثابت کرنا تھا اس میں اب بھی مستقبل میں دس برس لگنے تھے۔
1905ء کا مقالہ خصوصی نظریہ اضافیت کی بنیادی اینٹیں آج کی دنیا میں کافی اہم ہیں، تاہم بگ بینگ کی طرف جانے والے راستے کا ایک چھوٹا تماشہ ہے۔ آئن سٹائن کی روشنی کی ماہیت کے اوپر غور و فکر کرنے کی جڑیں انیسویں صدی کے عظیم اسکاٹ لینڈ کے رہائشی جیمز کلارک میکسویل تک جاتی تھیں، جس نے وہ مساوات بنائی تھی جو روشنی کو بطور برقی مقناطیسی موجوں کے ایک مخصوص رفتار سے حرکت کرتا ہوا بیان کرتی ہے جس کو عام طور پر c سے بیان کیا جاتا ہے۔ یہ سوال کہ یہ موجیں اس وقت کیسی دکھائی دیں گی جب آپ ان کے ساتھ مستقل رفتار c کے ساتھ بھاگیں، اس سے روشنی کے برتاؤ اور ہمارے روز مرہ کی عقلی اصول جو ہم دنیا میں رہتے ہوئے روز مرہ زندگی میں سیکھتے ہیں، کے درمیان ایک اہم تضاد کے بارے میں معلوم ہوتا ہے۔ اگر آپ اس طرح بھاگیں جیسے کہ آئن سٹائن نے تصور کیا ہے تو برقی مقناطیسی موجیں اس وقت بھی قیاس ہے کہ لہروں کی طرح چل رہی ہوں گی، تاہم جہاں تک آپ کے سمجھنے کے لئے ہے تو یہ حرکت نہیں کر رہی ہوں گی جو میکسویل کی مساوات کے خلاف بات ہے۔ دنیا کو اس طرح سے دیکھنے میں ضرور کچھ غلطی ہے۔ میکسویل کی مساوات روزمرہ عقل سے میل نہیں کھاتی کچھ تو دینا ہو گا۔ آئن سٹائن کی ذہانت میکسویل کی مساوات کو بعینہ اسی طرح سے قبول کرنے میں تھی تاہم پہلے سے معلوم شدہ تصورات کو پھینک دینے سے حقیقت کی ایک نئی اور بہتر تشریح سامنے آتی ہے۔
1900ء کے عشرے کی ابتداء میں تجربات نے بتایا کہ روشنی کی رفتار کو کیسے بھی ناپیں اس سے ہمیشہ ایک ہی جواب c آئے گا۔ سائنس کے مورخین اب بھی اس بات پر بحث کرتے ہیں کہ آیا آئن سٹائن کو اس وقت ان تجربات کا علم تھا یا نہیں، لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ روشنی کی کرنوں اور آئینوں کے لطیف انتظام سے یہ ممکن ہے کہ روشنی کی حرکت کرتی ہوئی کرن کو اسی سمت میں ناپ لیا جائے جس سمت میں زمین خلاء میں گزر رہی ہے یا اس سمت کے برخلاف بھی ناپا جا سکتا ہے۔ عقل بتاتی ہے کہ جواب کو کچھ اور ہونا چاہئے۔ اگر میں ایک بس کو 10 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے جاتا ہوا دیکھ رہا ہوں اور اس کو پکڑنے کے لئے ایک وین میں 9 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اس کو پکڑنے کے لئے جاؤں تو بس کی رفتار میرے لئے 1 میل فی گھنٹے کی ہے، اور اگر میں ایک ایسی بس پر سفر کروں جس کی رفتار 30 میل کی ہے اور ایک اور دوسری بس جو اس کے مخالف سمت میں روڈ پر مجھے 30 کلومیٹر کی رفتار سے پاس کرتی ہے تو بس میری نسبت سے 60 میل فی گھنٹے سے حرکت کر رہی ہے۔ تاہم روشنی اس طرح کی نہیں ہوتی۔ خلاء میں زمین کسی سمتی رفتار سے حرکت کر رہی ہے جس کو ہم v کہہ سکتے ہیں۔ وہ روشنی کی کرن جو ہم سے c سمتی رفتار سے آگے نکلے گی اس کی رفتار c - v نہیں ہو گی، اور نہ ہی کوئی روشنی کی کرن جو مخالف سمت سے ہمارے پاس آ رہی ہو اس کی رفتار c+v ہو گی۔ ہماری جو بھی سمتی رفتار ہو اور کسی بھی سمت سے روشنی کی کرن ہماری طرف آئے، جب ہم اس کی رفتار کی ناپیں گے ہمیں ہمیشہ ایک ہی جواب c ملے گا۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں