Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    جمعہ، 30 ستمبر، 2016

    آئن سٹائن کے نظریات - حصّہ دوم



    لہٰذا آئن سٹائن نے کہا ہمیں اپنے روز مرہ کے مشاہدات کو رد کرنا ہو گا۔ جب ہم سمتی رفتاروں سے نبٹتے ہیں تو ایک جمع ایک دو نہیں ہوتے۔ اس نے ایک ریاضیاتی ڈھانچہ بنایا جس کے اندر روشنی کی رفتار ہمیشہ سے کسی بھی مشاہد کے لئے ایک جیسی ہو گی جو اس کی پیمائش کو کسی بھی حرکت کرتی ہوئی جگہ سے خط مستقیم میں ایک ہی متوازن رفتار سے آ رہی ہو۔ یہ تمام جگہیں ایک دوسری کی نسبت حرکت کر سکتی ہیں (اور 'اضافیت' کے آنے کی یہ ہی وجہ ہے)، تاہم ان کو گھومنا یا اسرع پذیر نہیں ہونا چاہئے(لہٰذا 'اضافی' کا مطلب یہ ہے کہ نظریہ صرف طبیعات کی مخصوص مسائل سے ہی نبٹتی ہے ) ۔ کوئی بھی اس طرح کی حوالاتی جگہ میں ایک جیسی ہی قوانین طبیعیات دیکھے گا، اور اس جگہ جہاں وہ رہتا ہے اس کو 'ساکن' سمجھے گا۔ اور سب روشنی کی رفتار کو c ہی ناپیں گے۔ کائنات میں کوئی خصوصی حوالاتی جگہ نہیں موجود ہے۔


    تفصیلات میں جائے بغیر آئن سٹائن کے حسابات کے نتائج کے کا خلاصہ سادے طور پر کیا جا سکتا ہے۔ دو سمتی رفتاروں کو جمع کرنے کے بہتر قانون v 1 اور v 2 یہ (V = (v 1 + v 2 نہیں بلکہ V = (v 1 + v 2) تقسیم (1+ v 1 v 2 /c 2) کے برابر ہے، جہاں c روشنی کی رفتار ہے۔ کیونکہ c بہت زیادہ بڑی ہے یعنی 300,000 کلومیٹر فی سیکنڈ لہٰذا روز مرہ کی سمتی رفتار جیسے کہ 10 میل فی گھنٹہ یا 30 میل فی گھنٹہ لہٰذا جس عدد کو آپ اس سے تقسیم کریں گے اس کا حاصل لامحالہ طور پر ناقابل شناخت ہو گا اور مجازی طور پر وہ صفر ہی ہو گا۔ تاہم اگر آپ کسی ایک سمتی رفتار کو یا دونوں کو c کے برابر لیں تو عجیب و غریب چیزیں وقوع پذیر ہونے لگتی ہیں۔ آپ کبھی بھی دو سمتی رفتاروں کو لے کر جو روشنی کی رفتار سے کم ہوں جمع کر کے ایک ایسا جواب حاصل نہیں کر سکتے جو روشنی کی رفتار سے بڑا ہو۔ 

    اسی طرح کی مساوات جو ریاضی سے نکلتی ہے ہمیں بتاتی ہے کہ ایک حرکت کرتا ہوا جسم اپنی منتخب کی ہوئی جگہ میں اس وقت بھاری ہوتا جاتا ہے جب اس کی رفتار روشنی کی رفتار کے قریب پہنچنے لگتی ہے اور اسی وقت حرکت کرتا ہوا جسم اپنی حرکت کرنے کی سمت میں سکڑ بھی جاتا ہے۔ ایک حرکت کرتی ہوئی گھڑی اس ساکن حوالاتی جگہ کے مقابلے میں آہستہ چلنے لگتی ہے۔ اور مزید فائدہ دیتے ہوئے دو واقعات تو ایک ساتھ وقوع پذیر ہو رہے ہیں تو ان میں سے ایک حوالاتی جگہ میں صرف ایک ہی معنی ہوتا ہے - ایک مشاہد جو آپ کو مستقل سمتی رفتار سے پاس کرتا ہے اس کی نظر اسی وقت ہونے والے واقعہ یا اس واقعے کو جو اس نے پیچھے چھوڑا ہے کے لئے مختلف ہو گی۔ اور یہ تمام آج کے دور کی انجینئرنگ کا حصّہ ہے۔ وہ مشینیں جو پروٹون یا الیکٹران کو روشنی کی رفتار کے قریب اسراع دیتی ہیں وہ اس وقت کام نہیں کرتیں اگر مساوات دنیا کے کام کرنے کے طریقہ کار کو ٹھیک طرح سے بیان نہ کرتی، اور کیونکہ وہ کام کرتی ہیں لہٰذا وہ طبیعیات دانوں کو براہ راست کمیت میں اضافے، وقتی کشادگی اور دوسرے اثرات جن کی پیش گوئی آئن سٹائن نے کی ہے ان کی پیمائش کو کرنے کے قابل بناتی ہیں۔ خصوصی اضافیت روزمرہ کی دنیا میں زبردست طریقے سے کام کرتی ہے اور نیوٹن کی پرانی میکانیات کے ساتھ اور برقی مقناطیسی مساوات جو میکسویل نے بنائی تھی ان دونوں کے ساتھ کافی اچھا چلتی ہے (اس وقت تک ٹھیک کام کرتی ہے جب تک چیزیں روشنی کی رفتار کے قریب نہیں پہنچ جاتیں )۔ تاہم یہ اب بھی 'خصوصی' اضافیت کا نظریہ ہے۔ یہ قوّت ثقل کے ساتھ ٹھیک طرح سے کام نہیں کرتی، اور قوّت ثقل وہ قوّت ہے جس کا کائنات پر غلبہ ہے۔ لہٰذا یہ بحیثیت مجموعی کائنات کی مکمل تشریح بیان نہیں کرتی۔ ایسا کرنے کے لئے آئن سٹائن کو ایک مزید عمومی نظریے کی ضرورت تھی۔ 

    خصوصی نظریہ اپنے وقت کا بچہ تھی۔ نیوٹن اور میکسویل کے تصورات کے نظریات میں موافقت پیدا کرنے کی واضح طور پر ضرورت تھی اور اگر آئن سٹائن 1905ء میں خصوصی اضافیت کے ساتھ نہیں آتا تو کوئی دوسرا اس کو ایک یا دو برسوں میں تلاش کر لیتا۔ تاہم عمومی نظریہ کچھ خاص تھا۔ آئن سٹائن کے علاوہ کوئی اور خصوصی نظریہ کی محدودیت کی وجہ سے اتنا تنگ نہیں تھا۔ تاہم دس برس کے مزید کام کے بعد (صرف اسی معمے پر کام نہیں کیا؛ آئن سٹائن نے ان دس برسوں میں کوانٹم نظریے کو بنانے میں کافی اہم حصّہ ڈالا تھا) اس نے ایک نظریہ پیش کیا جو کائنات کے حالیہ مشاہدے سے کہیں زیادہ مکمل تھا۔ جب مبصرین نے اس وقت تک سحابیہ کے پیمانے کے فاصلے کا تعین نہیں کیا تھا اور اس بات کو تو چھوڑ دیجئے کہ کہکشائیں ہم سے بہت تیزی سے دور ہو رہی ہیں وہ اس بات کو یقین سے نہیں جانتے تھے کہ یہ سحابیہ اصل میں دوسری کہکشائیں ہیں، آئن سٹائن نے ایک ایسے نظریہ کو پیش کیا جو قدرتی طور پر اور اپنے آپ میں کائنات کو ایسا بیان کرتا ہے جو کافی بڑی، خالی جگہ تھی جس کو پھیلنا تھا۔ اب آئن سٹائن اس مساوات کے ساتھ کائنات کو بیان نہیں کر سکتا تھا۔ اس کی دلچسپی کا بنیادی مقصد کائنات کا نمونہ حاصل کرنا تھا - ایک ریاضیاتی نمونہ - تاکہ وہ جانچ کر سکے کہ عمومی اضافیت حقیقت میں مکمل کائنات سے نبٹ سکتی ہے اور لا محدودیت تک پہنچنے کی صورتحال یا کائنات کے 'کونے ' تک پہنچنے میں مسائل کا شکار نہیں ہوتی - نام نہاد سرحدی شرائط۔ یہ کافی گہرا ریاضیاتی سچ تھا۔ لہٰذا وہ اس بات سے زیادہ پریشان نہیں تھا کہ اس کی سادی مکمل ترین اور قائم بالذات نظریہ جس کو کوئی خاص سرحدی شرائط کی ضرورت نہیں تھی وہ اصل کائنات کو بیان کرتا ہوا نہیں لگتا تھا۔ وہ اس حقیقت کو جاننے میں زیادہ دلچسپی رکھتا تھا کہ نمونہ اصل میں مکمل ہونا چاہئے اور اس میں کوئی خصوصی سرحدی شرائط کی ضرورت نہیں ہونی چاہئے۔ ایک لحاظ سے اس نے یہ بات قبول نہیں کی کہ نظریہ اس کو کیا بتانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اور اپنی زندگی میں ایک مرتبہ اس نے اس اصول کی پاسداری نہیں کہ جو تمام عصبیت کو ایک طرف اٹھا کر رکھ دے۔ اپنے نمونے کو اپنے پیش تصوری کے نمونے میں زیادہ بہتر طور پر اتارنے کے لئے جس میں کائنات ایک ساکن جگہ تھی اس نے مساوات میں تھوڑی سی تبدیلی کی جس سے وہ تھوڑی پیچیدہ ہو گئی تاکہ وہ ایک تھوڑا سا مختلف مکمل نمونہ بنا سکے جس کی کوئی خصوصی سرحدی شرائط نہ ہوں۔
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: آئن سٹائن کے نظریات - حصّہ دوم Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top