ظاہر ہے، یہ کوئی عام ستارہ نہیں ہے۔ یہ وہ ستارہ ہے جو بس پھٹا ہی ہے، ایک نوتارا، کائنات میں سب سے روشن آتش بازی دکھانے والا۔ جب ایک ستارہ پھٹتا ہے، وہ مختصراً (ایک مہینے کے دوران یا اتنا ہی) بصری روشنی میں 10 ارب ستاروں کی روشنی جتنا چمکتا ہے۔
ہمارے لئے خوشی کی بات ہے کہ ستارے بہت زیادہ نہیں لگ بھگ ایک کہکشاں میں ایک صدی میں ایک کے قریب پھٹتا ہے۔ تاہم ہم خوش قسمت ہیں کہ وہ ایسا کرتے ہیں کیونکہ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو ہم یہاں موجود نہ ہوتے۔ ایک سب سے زیادہ شاعرانہ حقیقت جو میں کائنات کے بارے میں جانتا ہوں وہ یہ ہے کہ لگ بھگ ہمارے جسم میں موجود ہر جوہر کبھی اس ستارے کے اندر تھا جو پھٹا تھا۔ مزید براں، آپ کے بائیں ہاتھ کے جوہر شاید اس ستارے سے الگ دوسرے ستارے سے آئے ہوں جو آپ کے دائیں ہاتھ میں ہیں۔ واقعی سچ میں ہم ستاروں کے بچے ہیں، اور ہمارے جسم ستاروں کی دھول سے بنے ہیں۔
ہم یہ کیسے جانتے ہیں ؟ ٹھیک ہے کہ ہم بگ بینگ کی تصویر کو ماضی تک لے جا سکتے ہیں جب کائنات ایک سیکنڈ عمر کی تھی، اور ہم حساب لگا سکتے ہیں کہ تمام مادّہ ایک دبے ہوئے پلازما کی صورت میں تھا جس کا درجہ لگ بھگ 10 ارب ڈگری (کیلون پیمانے ) پر تھا۔ اس درجہ حرارت پر نیوکلیائی تعاملات فوری طور پر پروٹون اور نیوٹران کے درمیان وقوع پذیر ہو سکتے ہیں کیونکہ جب وہ آپس میں بندھتےتو مزید ہونے والے ٹکراؤ میں ٹوٹ کر بکھر جاتے۔ اس عمل کے بعد جب کائنات ٹھنڈی ہوئی، ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کتنی بار یہ قدیمی نیوکلیائی جز ہائیڈروجن سے بھاری جوہروں کے مرکزے باندھ لیں گے یعنی کہ ہیلیئم، لیتھیم علی ہذا القیاس)۔
جب ہم ایسا کرتے ہیں، تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ بنیادی طور پر لیتھیم کے بعد کوئی مرکزہ نہیں ملتا، قدرت میں پایا جانے والا تیسرا ہلکا ذرہ قدیمی آگ کے گولے یعنی کہ بگ بینگ میں بنا۔ ہمیں یقین ہے کہ ہمارے حسابات درست ہیں کیونکہ ہلکے ترین عناصر کی ہماری کائناتی فراوانی ان مشاہدات کے مطابق ہے۔ ان ہلکے ترین عناصر کی فراوانی ہائیڈروجن، ڈیوٹیریئم (بھاری ہائیڈروجن کے مرکزے )، ہیلیئم، اور لیتھیم دس کی قوت نما سے مختلف ہوتے ہیں (لگ بھگ 25 فیصد پروٹون اور نیوٹران، کمیت کے لحاظ سے ہیلیئم بنتے ہیں، جبکہ ہر دس ارب میں سے ایک نیوٹران اور پروٹون لیتھیم کا مرکزہ بناتا ہے )۔ یہ ناقابل یقین حد، مشاہدے اور نظریاتی تخمینہ جات متفق ہوتے ہیں۔
یہ سب سے مشہور، اہم اور کامیاب پیش گوئی بتاتی ہے کہ بگ بینگ اصل میں واقع ہوا تھا۔ صرف ایک گرم بگ بینگ ہی ہلکے عناصر کی مشاہدہ کردہ فراوانی کو پیدا کر سکتا اور حالیہ کائنات کے پھیلاؤ کی مشاہدہ کردہ مطابقت کو برقرار رکھ سکتا ہے۔ میں اپنی پچھلی جیب میں ایک جیبی کارڈ رکھتا ہوں جو ہلکے عناصر کی فراوانی کی پیش گوئیوں کے تقابل کو ظاہر کرتا ہے تاکہ ہر مرتبہ جب میں کسی ایسے شخص سے ملوں جو بگ بینگ کے واقع ہونے پر یقین نہیں رکھتا تو میں اس کو یہ دکھا سکوں۔ ظاہر سی بات ہے کہ مجھے بحث میں زیادہ دور تک نہیں جانا پڑتا کیونکہ اعدادوشمار شاذونادر ہی ان لوگوں کو متاثر کرتے ہیں جنہوں نے پہلے ہی سے یہ فیصلہ کر لیا ہو کہ تصویر کے ساتھ کچھ مسئلہ ہے۔ پھر بھی میں اس کارڈ کو لے کر چلتا ہوں اور اس کتاب میں بعد میں آپ کو بھی دکھاؤں گا۔
اگرچہ لیتھیم کچھ لوگوں کے لئے اہم ہو سکتی ہے، باقی لوگوں کے لئے اہم تمام بھاری عناصر ہیں جیسے کہ کاربن، نائٹروجن، آکسیجن، لوہا وغیرہ۔ یہ بگ بینگ میں نہیں بنے تھے۔
صرف وہ جگہ جہان یہ بن سکتے ہیں وہ ستاروں کے غضبناک قلب ہیں۔ اور آج آپ کے جسم میں ان کے آنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ اگر یہ ستارے پھٹنے والی قسم کے ہوں، اپنی پیداوار کو کائنات میں اگل دیں تاکہ وہ ایک دن اس ستارے کے گرد جس کو ہم سورج کہتے ہیں چھوٹے نیلے سیارے میں اور اس کے ارد گرد کثیف ہو سکیں۔ ہماری کہکشاں کی تاریخ کے دوران، لگ بھگ 20 کروڑ ستارے پھٹے ہیں۔ ان انگنت ستاروں نے اپنے آپ کو قربان کیا، اگر آپ چاہیں تو، کہ ایک دن آپ پیدا ہو سکیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ بات انہیں نجات دہندہ کے طور پر اہل بناتی ہے۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں