اس سے بھی زیادہ دلچسپ، کم از کم میرے لئے، اس کا مطلب تین نئے تحقیقی خطوط ہیں جو بنیادی طور پر حقیقت کی نوعیت کو دوبارہ سے ظاہر کرتے ہیں۔
1۔ جن ذرّات کے بارے میں ، میں نے پہلے وضاحت کی ہے اگر یہ ذرّات بگ بینگ میں پیدا ہوئے تھے ، ان قوتوں کے تصور کو استعمال کرکے جو بنیادی ذرّات (بجائے مرکزے کے تعاملات جو بنیادی کثرت سے متعلقہ ہوں ) کے تعاملات کو چلاتی ہیں ہمیں اس قابل ہونا چاہئے کہ آج ہم کائنات میں موجود ممکنہ نئے ذرّات کی کثرت کے بارے میں تخمینہ جات لگانے میں کر سکتے ہیں۔
2۔ یہ ممکن ہے کہ کائنات میں تاریک مادّے کی کثرت کو ذرّاتی طبیعیات کے نظری خیالات کی بنیاد پر اخذ کیا جائے، اور تاریک مادّے کا سراغ لگانے کے نئے تجربات کی تجویز پیش کرنا بھی ممکن ہے - ان دونوں میں سے ایک ہمیں بتا سکتا ہے کہ یہاں کل کتنا مادہ موجود ہے لہٰذا کائنات کی جیومیٹری کیا ہو گی۔ طبیعیات کا کام ان چیزوں کی ایجاد کرنا نہیں ہے جن کو ہم دیکھ نہیں سکتے تاکہ ان چیزوں کو بیان کریں جن کو دیکھ سکتے ہیں، تاہم یہ ضرور ہے کہ معلوم کریں ہم کیا نہیں دیکھ سکتے - تاکہ یہ دیکھ سکیں کہ پہلے کیا چیز ظاہر تھی، یعنی 'معلوم' نامعلوم۔ تاریک مادّے کے لئے ہر نیا بنیادی ذرّہ اس تاریک مادّے کے ذرّات کا براہ راست سراغ لگانے کے لئے تجربات کے لئے نئے امکانات کی تجویز دیتا ہے جو پوری کہکشاں میں پھر رہے ہیں، اس کام کے لئے زمین پر نئے آلات بنا کر ان کا سراغ اس وقت لگایا جائے جب زمین ان کی خلاء میں حرکت میں حائل ہو۔ دور دراز اجسام کی تلاش کرنے کے لئے دوربین کا استعمال کرنے کے بجائے، اگر تاریک مادّے کے ذرّات پوری کہکشاں میں منتشر ہو کر سرایت کئے ہوئے ہیں، تب وہ ہمارے ساتھ اب بھی ہیں، اور ارضی سراغ رساں ممکن ہے کہ ان کے وجود کو ظاہر کر دیں۔
3۔ ہم تاریک مادے کی نوعیت، اور اس کی کثرت کا تعین کر سکیں، تو ہم اس بات کا تعین کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں کہ کس طرح سے کائنات کا اختتام ہو گا۔
آخری امکان سب سے زیادہ دلچسپ ہے لہٰذا میں اس سے شروعات کروں گا۔ بے شک میں علم کائنات میں اس لئے ملوث ہوا تھا کیونکہ میں پہلا شخص بننا چاہتا تھا جو یہ جانے کہ کائنات کا اختتام کیسے ہو گا۔
اس وقت یہ ایک اچھا خیال تھا۔
جب آئن سٹائن نے اپنی عمومی نظریہ اضافیت کو بنایا تھا، اس کے قلب میں یہ امکان تھا کہ خلاء مادّے یا توانائی کی موجودگی میں خم زدہ ہو سکتا ہے۔ یہ نظریاتی تصور 1919ء میں اس وقت صرف قیاس سے زیادہ نہیں تھا جب دو مہمات نے سورج گرہن کے دوران سورج کے گرد ستاروں کی روشنی کو خم زدہ بعینہ ویسے ہی دیکھا جیسا کہ آئن سٹائن نے سورج کی موجودگی میں خلاء کو اس کے ارد گرد خم زدہ ہونے کا قیاس کیا تھا۔ آئن سٹائن فوری طور پر مشہور ہو گیا اور گھر گھر جانا جاننے لگا۔ (آج زیادہ تر لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ پہلے پیش کی جانے والی 2 E = mc کی مساوات کی وجہ سے مشہور ہوا تھا، پر ایسا نہیں تھا)، جو اس کے پندرہ برس کے بعد آئی تھی۔
اب جب خلاء ممکنہ طور پر خم زدہ ہے، تب ہماری پوری کائنات کی جیومیٹری یکایک کافی زیادہ دلچسپی کی حامل ہو جاتی ہے۔ ہماری کائنات کی کل مادّے کی مقدار پر منحصر، اس کی شکل تین جیومیٹریوں میں سے ایک کی صورت ہو سکتی ہے، جس کو کھلی، بند یا چپٹا کہہ سکتے ہیں۔
اس بات کا تصور کرنا مشکل ہے کہ سہ جہتی خم زدہ خلاء اصل میں کیسی دکھائی دیتی ہو گی۔ کیونکہ ہم سہ جہتی ہستیاں ہیں، ہم اس سے زیادہ آسانی سے خم زدہ جہتی خلاء کے بارے میں بدیہی طور پر تصور نہیں کر سکتے جیسا کہ مشہور کتاب فلیٹ لینڈ جیسی دو جہتی مخلوق تصور کر سکتی تھی کہ ان کی دنیا اگر وہ کرہ کی طرح خمیدہ ہو تو تیسری جہت کے شاہد کو کیسی لگتی ہو گی۔ مزید براں اگر خم بہت چھوٹا ہے، تو یہ تصور کرنا محال ہے کہ کوئی اس کو روز مرہ زندگی میں کیسے دیکھے گا، بعینہ جیسے قرون وسطیٰ میں کم از کم کافی لوگ سمجھتے تھے کہ زمین کو چپٹا ہونا چاہئے کیونکہ ان کے نقطہ نظر سے یہ چپٹی نظر آتی تھی۔
خمیدہ سہ جہتی کائنات کا تصور بند کائنات میں کرنا مشکل ہے اور یہ ایسا ہی ہے جیسے کہ سہہ جہتی کرہ، جو کافی خوبصورت لگتا ہے - تاہم کچھ پہلوؤں کی آسانی سے وضاحت کی جا سکتی ہے۔ اگر آپ ایک بند کائنات میں کسی ایک سمت میں کافی دور تک دیکھیں گے، تو آپ کو اپنے سر کا پچھلا حصّہ نظر آئے گا۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں