اس تصویر سے پیچھے کی طرف کام کر کے جھرمٹ میں کمیت کی تقسیم کا تعین کرنا ایک پیچیدہ اور ریاضیاتی چیلنج ہے۔ ایسا کرنے کے لئے ٹائیسن کو جھرمٹ کے لئے کمپیوٹر کا ماڈل بنانا تھا اور منبع سے آنے والی جھرمٹ میں اشعاع کا سراغ تمام ممکنہ سمتوں میں، عمومی اضافیت کے قوانین کا استعمال کر کے مناسب راستوں کا تعین اس وقت تک کرنا تھا جب تک نتائج محققین کے مشاہدات سے بہترین طور پر میل نہیں کھا جاتے۔ جب دھول بیٹھ گئی، ٹائیسن اور رفقاء نے ایک ترسیمی تصویر لی جو درست طور پر بتا رہی تھی کہ کمیت نظام کی اس تصویر میں اصل تصویر میں کہاں پر واقع ہے :
اس تصویر میں کچھ عجیب چیزیں چل رہی ہیں۔ گراف میں موجود نوکیں خطوط نظر آنے والی کہکشاؤں کے مقام کو اصل تصویر میں ظاہر کرتی ہیں، تاہم نظام کی زیادہ تر کمیت کہکشاؤں کے درمیان ہموار تاریک تقسیم واقع ہے۔ اصل میں، 40 فیصد سے زیادہ کمیت کہکشاؤں کے درمیان نظر آنے والے مادّے کی نسبت سے نظام میں زیادہ موجود ہے (صرف ستاروں کے مقابلے میں 300 سے زائد جبکہ باقی نظر آنے والا مادّہ ان کے گرد گرم گیس کی صورت میں ہے )۔ تاریک مادّہ واضح طور پر صرف کہکشاؤں کی حد تک نہیں تھا بلکہ کہکشاؤں کے جھرمٹوں کی کمیت پر بھی غالب تھا۔
میرے جیسے ذرّاتی طبیعیات اس بات کو جان کر حیران نہیں ہوئے تھے کہ تاریک مادّہ جھرمٹوں پر بھی غالب ہے۔ اگرچہ ہمارے پاس براہ راست ثبوت نہیں تھے، ہم سب امید کرتے تھے کہ تاریک مادّے کی مقدار چپٹی کائنات کی صورت کے لئے کافی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ بصری مادّے سے 100 گنا زیادہ تاریک مادّہ کائنات میں موجود ہے۔
وجہ بہت سادی ہے : ایک چپٹی کائنات ہی ریاضیاتی طور پر صرف خوبصورت کائنات ہوتی ہے۔ کیوں ؟جاننے کے لئے ساتھ رہئے۔
چاہئے تاریک مادّے کی کل مقدار چپٹی کائنات کو بنانے کے لئے موجود ہو یا نہ ہو، مشاہدات جیسا کہ ثقلی عدسے سے حاصل کردہ نتائج (میں آپ کو یاد دلاتا چلوں کہ ضخیم اجسام کے گرد خلاء کی مقامی خمیدگی سے حاصل کردہ ثقلی عدسے کے نتائج، ضخیم اجسام کے گرد مقامی لہروں کو نظر انداز کرتے ہیں ) اور فلکیات کے دوسری جگہوں سے حاصل کردہ مزید حالیہ مشاہدات تصدیق کرتے ہیں کہ کہکشاؤں اور جھرمٹوں میں تاریک مادّے کی کل مقدار اس سے کہیں زیادہ ہے جو بگ بینگ کے نیوکلیائی تالیف کے حسابات بتاتے ہیں۔ اب ہم کافی حد تک یقین رکھتے ہیں کہ تاریک مادّہ - جس کو میں دوبارہ دہراتا ہوں، کو مختلف آزاد ذرائع سے مختلف فلکی طبیعیاتی پس منظر سے حاصل کیا گیا ہے، کہکشاؤں سے کہکشاؤں کے جھرمٹوں تک - لازمی طور پر مکمل کسی اور نئی چیز سے بنا ہونا چاہئے، کچھ ایسا جو عام طور پر زمین پر نہیں پایا جاتا۔ اس طرح کا مادّہ، جو ستاروں کا مادّہ نہیں ہے، وہ زمین کا مادّہ بھی نہیں ہے۔ لیکن یہ کچھ ہے !
ہماری کہکشاں کے تاریک مادّے کے ابتدائی استخراج میں تجرباتی طبیعیات کے میدان کی مکمل طور پر ایک نئی قسم ہے، اور میں یہ خوشی سے کہتا ہوں کہ میں نے اس کی ترقی میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ جیسا کہ میں مذکورہ بالا ذکر کیا ہے، تاریک مادّے کے ذرّات ہمارے ارد گرد موجود ہیں، اس کمرے میں جس میں، میں لکھ رہا ہوں اور "باہر" خلاء میں بھی۔ لہٰذا ہم تاریک مادّے کو دیکھنے کے لئے اور بنیادی ذرّے یا ذرّات کی نئی قسم کو جس سے مل کر وہ بنے ہیں تجربات کر سکتے ہیں۔
تجربات گہری زیر زمین سرنگوں اور کانوں میں کئے جا رہے ہیں۔ زیر زمین کیوں ؟ کیونکہ زمین کی سطح پر باقاعدگی سے تمام اقسام کی کائناتی اشعاع کی بمباری ہوتی ہے، سورج سے لے کر کافی دور دراز اجسام تک۔ کیونکہ تاریک مادّہ اپنی نوعیت میں برقی مقناطیسی طور پر متعامل ہو کر روشنی نہیں پیدا کرتا، ہم فرض کرتے ہیں کہ اس تعامل عام مادّے سے حد درجہ طور پر کمزور ہوتا ہے، لہٰذا اس کا سراغ لگانا حد درجے مشکل ہو گا۔ یہاں تک کہ اگر روزانہ ہمارے اوپر تاریک مادّے کے کروڑوں ذرّات کی بارش بھی ہوتی ہے، تو اس میں سے زیادہ تر تو ہم میں سے اور زمین سے گزر جاتے ہیں، اس بات کو "جانے " بغیر کہ ہم یہاں موجود ہیں اور ہم کو توجہ ہی نہیں دیتے۔ لہٰذا اگر آپ اس اصول کے بہت ہی نایاب اِستثنیٰ کے اثر کا سراغ لگانا چاہتے ہیں، تاریک مادّے کے ذرّات جو اصل میں مادّے کے جوہر سے ٹکراتے ہیں، تو آپ کو سراغ لگانے کے بہت ہی کمیاب اور کبھی کبھار ہونے والے واقعات کے لئے تیار ہونا پڑے گا۔ صرف زیر زمین میں ہی آپ کائناتی اشعاع سے اچھی طرح سے محفوظ ہوتے ہیں تاکہ اس طرح اصولی طور پر ممکن ہو سکے۔
جب میں یہ لکھ رہا ہوں، ایک ایسا ہی پرجوش امکان ابھر رہا ہے۔ جنیوا، سویٹزرلینڈ کے باہر، لارج ہیڈرون کولائیڈر، دنیا کا سب سے بڑا اور طاقتور ذرّاتی اسراع گر نے ابھی کام کرنا شروع کر دیا ہے۔ تاہم ہماری پاس یقین کرنے کے لئے کئی وجوہات ہیں کہ بہت بلند توانائی جس پر پروٹون ایک ساتھ آلے میں ٹکراتے ہیں، صورتحال جیسی کہ بہت ابتدائی کائنات میں تھی ویسی بنائی جا سکتی ہے، اگرچہ ایسا بہت ہی چھوٹے خرد علاقے میں ہوتا ہے۔ ایسے علاقوں میں وہی تعاملات جنہوں نے پہلی مرتبہ اب تاریک مادّہ کہلانے والے ذرّات کو بہت ہی ابتدائی کائنات کے دوران بنایا تھا ہو سکتا ہے کہ تجربہ گاہ میں اسی طرح کے ذرّات کو پیدا کر دیں ! لہٰذا زبردست دوڑ لگی ہوئی ہے۔ تاریک مادّے کے ذرّات کا سراغ پہلے کون لگائے گا: گہرے زیر زمین میں کئے جانے والے تجرباتی یا لارج ہیڈرون کولائیڈر میں کئے جانے والے آزمائش کار؟ اچھی خبر یہ ہے کہ کوئی بھی جماعت دوڑ کو جیتے تب بھی کوئی بھی ہارے گا نہیں۔ یہ جان کر کہ مادّے کا حتمی جز کیا ہے سب جیت جائیں گے۔
یہاں تک کہ فلکی طبیعیاتی پیمائش جس کی میں نے وضاحت کی ہے تاریک مادّے کی شناخت کو ظاہر نہیں کرتی، یہ ہمیں بتاتی ہے کہ وہ کتنا موجود ہے۔ ایک حتمی کائنات میں مادّے کی کل مقدار کا براہ راست تعین ثقلی عدسے سے کی گئی پیمائش کے خوبصورت استنباط سے ایسا آیا جیسا کہ میں نے وضاحت کی تھی اور جھرمٹوں سے خارج ہونے والی ایکس رے کے مشاہدات سے مل گیا۔ جھرمٹوں کی کل کمیت کے آزاد تخمینہ جات لگانا ممکن ہے کیونکہ جھرمٹوں میں موجود گیس کا درجہ حرارت جو ایکس رے پیدا کر رہا ہے اس کا تعلق اس نظام کی کل کمیت سے ہے جس سے وہ خارج ہو رہے ہیں۔ نتائج حیران کن، اور جیسا کہ میں نے اشارہ دیا تھا ہم میں سے کئی سائنس دانوں کے لئے مایوس کن تھے۔ جب دھول بیٹھ گئی، لفظی اور تشبیہاتی طور پر، کہکشاؤں اور جھرمٹوں میں اور ان کے ارد گرد کل کمیت اس کمیت کا 30 فیصد نکلی جو آج ایک چپٹی کائنات کے لئے درکار ہے۔ (غور کریں کہ یہ اس نظر آنے والے مادّے سے 40 گنا تک زیادہ ہے، جو چپٹی کائنات کو بنانے کے لئے 1 فیصد سے بھی کم ہے۔ )
آئن سٹائن حیران رہ گیا ہوتا اس کی "چھوٹی اشاعت" حتمی طور پر بے سود ہونے سے کہیں زیادہ دور ہے۔ نئے اضافی حیران کن تجربات اور مشاہداتی آلات جنہوں نے کائنات کے نئے دریچے وا کر دیئے، نئی نظریاتی ترقی جو اس کو حیران اور خوش کر دیتی، اور تاریک مادّے کی دریافت جو اس کا فشار خون بڑھا دیتی، آئن سٹائن کا خمیدہ خلاء کی دنیا میں چھوٹا سا قدم حتمی طور پر ایک عظیم قدم میں بدل گیا۔ 1990ء کے ابتدائی عشرے میں، علم کائنات کا شجر ممنوع بظاہر حاصل ہو گیا تھا۔ مشاہدات نے تعین کر دیا تھا کہ ہم ایک کھلی کائنات میں رہتے ہیں، ایک ایسی جو ہمیشہ پھیلتی رہے گی۔ کیا واقعی ایسا ہی تھا؟
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں