تمام تعریفیں اس پروردگار کے لئے جو تمام جہانوں کا رب ہے اور درودو سلام ہو حضرت محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کی مطہر آل و اولاد پر ۔
کائنات کا آغاز کیسے ہوا؟ اس میں ہم اور ہماری دنیا سمیت نظر آنے والا مادہ کہاں سے آیا اور کیسے بنا؟ غالباً اس سوال نے انسانیت کو کافی عرصے سے پریشان کیا ہوا ہے اور وہ مسلسل اس جستجو میں ہے کہ کسی طرح کائنات کے آغاز و ارتقاء کے مراحل کی اچھی طرح سے تفہیم حاصل کر لے۔ پھیلتی ہوئی کائنات کا تصور کچھ زیادہ عرصہ پرانا نہیں ہے ۔ پچھلی صدی کے تیسرے عشرے کے اختتام تک ایڈون ہبل نے اپنے مشاہدات سے ثابت کیا کہ صرف ملکی وے کہکشاں ہی کل کائنات نہیں ہے بلکہ یہ تو کھربوں کہکشاؤں میں سے صرف ایک کہکشاں ہے اور اس نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ یہ بھی ثابت کیا کہ کائنات پھیل رہی ہے۔
پھیلتی ہوئی کائنات کا اثر علم کائنات پر بہت عمیق پڑا ، اگر وقت کو پیچھے کی طرف چلانا شروع کیا جائے تو ایک وقت ایسا آئے گا جب ہر چیز ایک ایسے نقطے میں سمائی ہوئی ہوگی جس کا حجم صفر اور کمیت لامتناہی ہوگی۔ بالفاظ دیگر کائنات کا آغاز عدم سے ہوا یا دوسرے الفاظ میں کائنات عدم سے وجود میں آئی۔
عدم سے وجود میں آنے والی کائنات کو موحدین و ملحدین دونوں نے اپنے اپنے عقائد کو ثابت کرنے کے لئے استعمال کرنا شروع کیا۔ زیر نظر کتاب مشہور نظری طبیعیات دان اور ماہر تکوینیات لارنس ایم کراس کی" آ یونیورس فرام نتھنگ"، کا اردو ترجمہ ہے۔ لارنس ایک کٹر ملحد ہیں اور جیسا کہ انہوں نے اس کتاب کی تمہید باندھتے ہوئے لکھا کہ اس کتاب کا لکھنے کا اصل مقصد اس بات کو ثابت کرنا ہے کہ کائنات عدم سے وجود میں بغیر کسی خالق کی موجودگی سے آسکتی ہے ۔ بہرحال لارنس کے ملحدانہ عقائد سے قطع نظر اس کتاب میں بڑی خوبی سے کائنات کے عدم سے وجود میں آنے کی کہانی کوسائنسی نقطہ نظر سے بیان کیا گیا ہے۔ اس کتاب کے ترجمے کو شائع کرنے کا مقصد ملحدانہ عقائد کی ترویج نہیں بلکہ اس کائنات کی ابتداء کے بارے میں تازہ ترین تحقیق و افکار کا اشتراک ہے۔
مترجم
زہیر عبّاس
تمہید
خواب خوشگوار ہو یا ڈراؤنا، جاگنے کے بعد ہمیں اسی کی یاد کے ساتھ رہنا ہوتا ہے، بعینہ جیسے ہمیں اپنے تجربے کے ساتھ زندہ رہنا ہوتا ہے۔ ہم ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں جس میں سائنس پوری طرح سے سرایت کر گئی ہے اور یہ مکمل اور مبنی بر حقیقت دونوں ہی ہے۔ ہم کسی کی حمایت کرکے اس کو کھیل میں نہیں بدل سکتے۔
جیکب برونوسکی
میں کسی لگی لپٹے بغیر شروع میں ہی یہ تسلیم کرتا ہوں کہ میں تخلیق کے لئے کسی خالق کے ہونے کی ضرورت پر یقین نہیں رکھتا۔ دنیا کے تمام مذاہب کی بنیاد اسی پر کھڑی ہے۔ یخ موسم سرما کی صبح میں برف کے گالے سے لے کر موسم گرما کی پھوار کی طویل دوپہر کے بعد تھرتھراتی قوس و قزح تک ہر روز خوبصورت اور معجزاتی اجسام یکایک ظاہر ہوتے ہیں۔ جذباتی بنیاد پرست سمجھتے ہیں کہ اس طرح کا ہر جسم پیار اور عرق ریزی اور سب سے اہم کسی مقصد سے خدائی حکمت کی تخلیق ہے۔ حقیقت میں کئی عام آدمی اور سائنس دان قوانین طبیعیات کی بنیاد پر خود بخود بننے والے برف کے گالے اور قوس و قزح کے بیان کرنے کی ہماری لیاقت پر مسرور ہوتے ہیں۔
بلاشبہ کوئی بھی پوچھ سکتا ہے اور کئی ایسا کرتے بھی ہیں، "قوانین طبیعیات کہاں سے آئے؟"بلکہ اکثریت تو یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں، "یہ قوانین کس نے بنائے ہیں ؟"
پلاٹو، اقیناس یا جدید رومی جیسے کئی صاحب فکر لوگ بظاہر پہلی وجہ کی ضرورت کی طرف آئے جبکہ کیتھولک گرجا گھر کسی خدائی ہستی کو فرض کرتے ہیں۔ان کے مطابق کوئی ایک ایسا خالق ہے جو موجود ہے اور یہاں ہمیشہ کوئی ابد تک اور جا بجا موجود ہو گا۔
بہرحال پہلی وجہ کا اعلان اب بھی جواب طلب ہے، "خالق کو کس نے تخلیق کیا ہے؟"بہرحال اس بحث سے کیا فرق پڑتا ہے کہ کوئی ایک ازلی خالق وجود رکھتا ہے یا کائنات بغیر کسی خالق کے ازل سے موجود ہے؟
جب بھی میں یہ دلائل سنتا ہوں مجھے ایک کہانی یاد آجاتی ہے جس میں ایک ماہر، کائنات کے ماخذ کے بارے میں لیکچر دے رہا تھا ( کبھی اس کو برٹرینڈ رسل اور کبھی ولیم جیمز کہا جاتا ہے )، لیکچر کے دوران اس کو ایک عورت نے للکارا۔ اس عورت کو یقین تھا کہ دنیا کو ایک عظیم کچھوے نے تھاما ہوا ہے، اور اس کچھوے کو ایک اور دوسرے کچھوے نے، اور اس کو۔ ۔ ۔ ایک اور کچھوے نے " اور یوں یہ سلسلہ نیچے تک چلا جاتا ہے !" کسی تخلیقی قوت کی ایک لامحدود مراجعت جس نے اپنے آپ کو خود جنا تھا یہاں تک کہ کچھ تخیلاتی قوت جو ان کچھووں سے بھی عظیم ہے، اور اس کے تو قریب بھی نہیں پھٹکتی جس نے کائنات کی تخلیق کی ہے۔ اس بات سے قطع نظر اس لامحدود رجعت کے استعارہ حقیقت میں اصل عمل کے قریب تر ہو سکتا ہے جس کے ذریعہ کائنات وجود میں آئی بجائے کوئی اس کو کسی واحد خالق سے بیان کرے۔
سوال سے دور جاتے ہوئے خدا کے ساتھ مقابلہ روک کر یہ دلیل دیتے ہوئے شاید ایسا محسوس ہو سکتا ہے کہ لامتناہی رجعت سے بچا جا سکتا ہے تاہم یہاں پر میں اپنے منتر کو پکارتا ہوں : کائنات ایسی ہے جیسی کہ ہونی چاہئے، چاہئے ہمیں اچھا لگے یا نہ لگے۔ خالق کا وجود یا عدم وجود ہماری خواہشات سے آزاد ہے۔ خدا کے بغیر دنیا یا مقصد سخت یا فضول لگ سکتا ہے تاہم یہ بذات خود خدا کے حقیقی وجود کے لئے کافی نہیں ہے۔
بعینہ ہمارا دماغ لامتناہی کو نہیں سمجھ سکتا (اگرچہ ہمارے اپنے دماغ کی پیداوار یعنی ریاضی اس سے کافی اچھے طریقے سے نمٹ لیتی ہے )، تاہم یہ ہمیں یہ نہیں بتاتی کہ لامحدود کا کوئی وجود نہیں ہے۔ ہماری کائنات مکانی یا دنیاوی طور پر لامحدود ہو سکتی ہے۔ یا جیسا کہ رچرڈ فائن مین نے ایک مرتبہ کہا تھا، قوانین طبیعیات ایک لامحدود چھلکے والی پیاز کی طرح ہیں، ہم جب بھی نئے پیمانہ پر کھوج کرتے ہیں تو نئے قوانین لاگو ہونے شروع ہو جاتے ہیں۔ بس ہم کچھ نہیں جانتے ! دو ہزار برس سے یہ سوال کہ "یہاں عدم کے بجائے وجود کیوں ہے ؟" معمے کو حل کرنے کے لئے ایک مبارزت کے طور پر پیش کیا جاتا رہا ہے۔ ہماری کائنات جس میں وسیع ستارے، کہکشائیں، انسان اور کون جانتا ہے کہ اس میں اور کیا کچھ ہو سکتا ہے بغیر کسی صورت گری، نیت یا مقصد کے بنی ہے۔اس سوال کو بطور عام طور پر ایک فلسفیانہ یا مذہبی سوال کے طور پر رکھا جاتا ہے۔ اس سوال کو حل کرنے کی کوشش کے لئے پہلی اور اول جگہ سائنس ہی ہے۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں