یہ ایک بہت ہی اہم حقیقت کی عکاسی کرتا ہے۔ جب بات ہماری کائنات کے ارتقاء کے فہم کی آتی ہے تو مذہب اور دین غیر متعلقہ ہو جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ اکثر بغیر کسی اصطلاح کی تعریف جس کی بنیاد تجربی ثبوت پر رکھی ہوئی عدم پر سوالات کو مرکز بنا کر اس کو گنجلک کر دیتے ہیں۔
اگرچہ ہم ابھی تک مکمل طور پر اپنی کائنات کے ماخذ کو مکمل طور پر نہیں سمجھ سکے تاہم کوئی ایسی وجہ موجود نہیں ہے جو اس سلسلے کو بدلنے کی امید دے۔ مزید براں میں ایسا سمجھتا ہوں کہ بالآخر یہی بات ہماری فہم ان چیزوں کے لئے ہے جس پر مذہب اپنی اجارہ داری سمجھتا ہے جیسا کہ انسانی اخلاقیات۔
سائنس قدرت کی فہم کو مزید بہتر کرنے کے لئے کافی موثر ہے کیونکہ سائنسی مزاج تین اہم اصولوں کی بنیاد پر ہوتے ہیں : (1) ثبوت جہاں بھی لے جاتے ہوں ان کی پیروی کرو؛ (2) اگر کسی کے پاس نظریہ ہے، تو کوئی ایسا ہونا چاہئے جو اس کو غلط ثابت کرنے کی اتنی ہی کوشش کرے جتنی کوئی اس کو صحیح ثابت کرنے کے لئے کرتا ہے ؛ (3) سچائی کا حتمی ثالث تجربہ ہے، وہ سکون نہیں جو کسی کے پہلے سے موجود یقین کی وجہ سے ملے نہ ہی اس وجہ سے جو کسی نظریاتی نمونے کی خوبصورتی یا نفاست کی وجہ سے منسوب ہو۔
تجربات کے نتائج جس کی میں وضاحت کروں گا نہ صرف بروقت ہیں بلکہ وہ غیر متوقع بھی ہیں۔ وہ گل گاری جو سائنس ہماری کائنات کے ارتقاء کی وضاحت کرتے ہوئے کرتی ہے اس سے کہیں زیادہ زرخیز اور کہیں زیادہ متحیر کر دینے والی ہے جتنی کہ کوئی الہامی تصویر یا کوئی انسانی گڑھی ہوئی فرضی کہانی ہو۔ قدرت ان چونکا دینے والی چیزوں کے ساتھ آتی ہے جو اس سے کہیں زیادہ آگے کی ہوتی ہیں جن کو انسانی دماغ پیدا کر سکتا ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران کونیات، ذرّاتی نظریئے اور ثقل میں ہیجان انگیز پیش رفت مکمل طور پر ہمارے کائنات کو دیکھنے کی نظر کو تبدیل کر دیتی ہے جس میں چونکا دینے والی اور گہرے مضمرات اس کے ماخذ اور اس کے مستقبل کی ہماری سمجھ ہے۔ لہٰذا اگر آپ ذومعنویت کو بھول سکتے ہوں تو لکھنے کے لئے کوئی بھی دلچسپ بات نہیں ہے۔
اس کتاب لکھنے کا اصل محرک کہانیوں یا اعتقاد پر حملہ کرنے سے نہیں آیا بلکہ اس کا محرک علم کو پھیلانے کی میری خواہش اور اس کے ساتھ ہماری مطلق حیرت انگیز اور دلچسپ کائنات بنی ہے۔
ہماری تلاش ہمیں اپنی پھیلتی ہوئی کائنات کے بعید ترین حصّوں کی بھول بھلیوں میں بگ بینگ کے ابتدائی لمحات سے لے کر مستقل بعید تک لے جائے گی، اور اس میں گزشتہ صدی میں طبیعیات میں ہونے والی سب سے حیرت انگیز دریافت بھی شامل ہو سکتی ہے۔
حقیقت میں اس کتاب کو لکھنے کا فوری محرک کائنات کے بارے میں گہری دریافت جو گزشتہ تین دہائیوں میں میری اپنی سائنسی تحقیق ہے جس کا اختتام حیران کن نتائج پر ہوا یعنی کہ کائنات میں زیادہ تر توانائی کچھ پراسرار اب ناقابل توضیح صورت میں تمام خالی خلاء میں سرائیت کی ہوئی ہے۔ ایسا کہنا کم بیانی نہیں ہو گا کہ یہ دریافت جدید علم کائنات میں کھیل کے میدان کو تبدیل کر دے گی۔
اس دریافت نے اس تصور کی نئی حیرت انگیز حمایت کو پیدا کیا ہے کہ ہماری کائنات ٹھیک طور سے عدم سے ہی وجود میں آئی ہے۔ یہ ہمیں ترغیب دیتی ہے کہ دوبارہ ان عملیات کے قیاسات کے بارے میں سوچیں جو اس کے ارتقاء پر اثر ڈالتے ہیں اور حتمی طور پر اس سوال پر بھی کہ آیا قدرت کے قوانین واقعی میں بنیادی ہی ہیں یا نہیں۔ ان میں سے ہر ایک اپنے آپ میں اب اس سوال کو اٹھاتا ہے کہ آیا یہاں بجائے عدم کے وجود کیوں ہے، یہ اب کم متاثر کن لگتا ہے اگرچہ یہ مکمل طور پر اثر پذیر نہیں جیسا کہ میں وضاحت کرنے کی امید کرتا ہوں۔
اس کتاب کا براہ راست آغاز اکتوبر 1999ء سے ہوتا ہے جب میں نے ایک لیکچر لاس انجیلیس میں اسی عنوان کے ساتھ دیا تھا۔
مجھے کافی حیرت ہوئی کہ لیکچر کی یوٹیوب ویڈیو جس کو رچرڈ ڈاکنز فاؤنڈیشن نے دستیاب کروایا تھا ایک طرح سے سنسنی سی بن گئی تھی، اس کتاب کے لکھنے تک اس کو دس لاکھ مرتبہ دیکھا گیا ہے اور اس کے حصّوں کی کافی نقول ملحد و موحد دونوں ہی اپنے مباحثوں میں استعمال کر رہے ہیں۔
موضوع میں واضح دلچسپی کی اور ویب پر کچھ مہمل تبصروں اور میرے لیکچر کے بعد کافی میڈیا کی پیروی کی وجہ سے مجھے لگا کہ اس تصور کا مزید مکمل حوالگی کے ساتھ بیان کرنا بہتر ہو گا جو میں اس کتاب میں لکھوں گا۔ یہاں میں اس موقع کو اپنی دلیلوں کو دینے کے لئے استعمال کرتا ہوں جو اس وقت میں نے پیش کی تھی جو مکمل طور علم کائنات میں ہونے والے حالیہ انقلاب پر مرکوز ہے جس نے ہماری کائنات کی تصویر کو تبدیل کر دیا جو خلاء کی توانائی اور علم الا شکال کے ساتھ نسبت رکھتی ہے اور جس کو میں اس کتاب کے پہلے دو تہائی حصّے میں بیان کروں گا۔
درمیان کے عرصے میں کئی گزشتہ اور تصورات جنہوں نے میرے خیالات کو بنایا تھا ان کے بارے میں کافی سوچا؛ اور میں نے اس بارے میں دوسروں کے ساتھ بات چیت بھی کی جن کا رد عمل اس قسم کے جوش کے ساتھ تھا جو سرایت کر جانے والا تھا؛ اور میں نے ذرّاتی طبیعیات میں ہونے والی پیش رفت کے تاثر کو بطور خاص ہماری کائنات کے ماخذ اور اس کی ماہیت کے بارے میں مزید گہرائی میں دیکھا ۔ بالآخر میں نے اپنے کچھ دلائل ان لوگوں کے سامنے رکھے جو اس کی سختی سے مخالفت کرتے ہیں اور اس طرح سے کرنے میں کچھ ایسی اندرونی بصیرت حاصل ہو گئی جس نے مجھے میری دلیلوں کو مزید بہتر کرنے کا موقع دیا۔
وہ خیالات جو میں بالآخر یہاں بیان کرنے کی کوشش کروں گا، ان کو بیان کرنے میں مجھے کچھ بہت ہی حکیم رفیق طبیعیات دانوں سے بات چیت کرنے کی وجہ سے فائدہ ہوا۔ بطور خاص میں ایلن گتھ اور فرینک ویلزک کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا جنہوں نے بات چیت و خط و کتابت کے لئے اپنا قیمتی وقت نکالا اور میرے دماغ میں موجود کچھ پریشان کر دینے والے خیالات کو حل کیا اور کئی جگہوں پر میری اپنی تشریحات کو بہتر بنانے کے لئے مدد کی۔
فری پریس کے لیزلی میریڈتھ اور ڈومینک انفاسو، سائمن اینڈ سچسٹر کی دلچسپی کی وجہ سے اس موضوع پر کتاب کے امکان کی ہمت بندھی، اس کے بعد میں اے اپنے دوست کرسٹوفر ہٹچنس سے رابطہ کیا جو ایک سب سے زیادہ عالم اور لائق افراد میں سے ایک ہیں جن کو میں جانتا ہوں، جنہوں نے خود سے میرے لیکچر میں سے دلائل لے کر اپنے شاندار سائنس اور مذہب کے مباحثے میں استعمال کیا۔ کرسٹوفر نے اپنی خراب صحت کے باوجود مہربانی کے ساتھ سخاوت و بہادری سے مقدمہ لکھا۔ دوستی اور اعتماد کے اس برتاؤ کے لئے میں ان کو ہمیشہ شکر گزار رہوں گا۔ بدقسمتی سے کرسٹوفر کی بیماری نے بالآخر اس حد تک ان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا کہ مقدمہ مکمل کرنا باوجود ان کی زبردست کوششوں کے ناممکن ہو گیا۔ بہرحال خوش قسمتی سے میرے فصیح و لائق دوست، معروف سائنس دان اور مصنف رچرڈ ڈاکنز نے پہلے ہی پس نوشت لکھنے کے لئے حامی بھر لی تھی۔ جب میرا پہلا مسودہ مکمل ہو گیا تو انہوں نے کچھ مختصر پیرائے میں جس کی خوبصورتی اور صراحت ششدر کر دینے والی تھی اور ساتھ ساتھ عاجز بھی۔ میں تو اس کے دبدبے سے ڈر گیا۔ لہٰذا کرسٹوفر، رچرڈ اور درج بالا تمام لوگوں کے لئے میں ان کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی اور مجھے ایک مرتبہ دوبارہ کمپیوٹر پر جانے اور لکھنے کی ترغیب دینے کے لئے میں ان سب کا شکر گزار ہوں۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں