گیارہواں باب
کوئی بھی جدید ٹیکنالوجی جادو سے الگ نہیں ہوگی۔
- آرتھر سی کلارک
ناول دور میں سائنسی قصص گومصنف گریگ بیئر نے ایک دلدوز کہانی عارضی تباہ ہوتی دنیا کی متوازی کائنات میں فرار ہونے کی لکھی ہے۔ ایک عظیم الجثہ آفت نما سیارچہ خلاء سے سیارہ زمین کی طرف نکل آتا ہے اور بڑے پیمانے پر افراتفری اور ہیجان پیدا کر دیتا ہے۔ بہرحال زمین سے ٹکرانے کے بجائے وہ عجیب طرح سے اس کے مدار میں چکر لگانے لگتا ہے۔ سائنس دانوں کی ٹیموں کو تفتیش کے لئے بھیجا جاتا ہے۔ بہرحال اجاڑ مردہ دنیا کے بجائے ان کو سیارچہ اصل میں کھوکھلا ملتا ہے؛ یہ ایک عظیم الجثہ خلائی جہاز ہوتا ہے جس کو کسی بہتر ٹیکنالوجیکل نوع نے چھوڑ دیا ہوتا ہے۔ ، کہانی کی ہیروئن، پیٹریشیا واسکوئز جو ایک نظری طبیعیات دان ہوتی ہے، کو ویران خلائی جہاز کے اندر وسیع خانے ملتے ہیں اصل میں یہ دوسرے جہانوں میں داخل ہونے کے دروازے ہوتے ہیں جہاں جھیلیں، جنگل، درخت بلکہ پورے کے پورے شہر موجود ہوتے ہیں۔ مزید براں اس کو ایک بہت بڑی لائبریری ملتی ہے جس میں ان عجیب مخلوق کی مکمل تاریخ لکھی ہوتی ہے۔
ایک پرانی کتاب کو پڑھ کر اس کو معلوم ہوتا ہے کہ یہ ٹام سویر از مارک ٹوئن ہے لیکن دوبارہ 2110ء میں چھپتا ہے۔ تب اس کا احساس ہوتا ہے کہ سیارچہ کوئی اجنبی خلائی مخلوق کا نہیں ہے بلکہ زمین سے ہی 1,300 برس مستقبل سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کو بیزار کرنے والی سچائی معلوم ہوتی ہے کہ یہ پرانے مندرج نامے بتاتے ہیں کہ ایک قدیمی نیوکلیائی جنگ ماضی بعید میں چھڑ گئی تھی جس میں ارب ہا لوگ مارے گئے تھے اور اس کے نتیجے میں نیوکلیائی سرما آگیا تھا جس نے مزید ارب ہا لوگوں کی جان لے لی تھی۔ جب اس کو اس نیوکلیائی جنگ کی تاریخ معلوم ہوتی ہے تو پتہ لگتا ہے کہ اس میں صرف دو ہفتے رہ گئے ہیں! وہ اس ناگزیر لڑائی کو روکنے کے لئے بے بس ہوتی ہے جو پورے سیارے کو جلد ہی اجاڑ دے گی اور اس کے پیاروں کو موت سی ہمکنار کر دے گی۔
پراسرار طور پر وہ اپنی ذاتی تاریخ بھی ان پرانے مندرج ناموں میں ڈھونڈ لیتی ہے اور اس کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کی مستقبل کی زمان و مکان کی تحقیق سیارچے میں ایک وسیع سرنگ بنانے کے لئے ابتدائی معلومات فراہم کرتی ہے ۔ اس سرنگ کا نام "راستہ" ہوتا ہے جو لوگوں کو سیارچہ میں داخل ہو کر دوسری کائناتوں میں جانے کی اجازت دیتا ہے۔ اس کا نظریہ اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ لامحدود تعداد میں کوانٹم کائناتیں موجود ہیں جو تمام ممکنہ صورتحال کو پیش کرتی ہیں ۔ مزید براں اس کے نظریات راستے کے ساتھ موجود دروازوں کو بناتے ہیں جو ان کائناتوں میں داخل ہونے کو ممکن بناتے ہیں، ہر ایک میں ایک مختلف متبادل تاریخ ہوتی ہے۔ بالآخر وہ سرنگ میں داخل ہو کر راستے میں سفر کرتی ہے اور ان لوگوں سے ملتی ہے جو سیارچے پر اپنی نئی نسل کے ساتھ آئے تھے ۔
یہ ایک عجیب دنیا ہوتی ہے، صدیوں پہلے انسانوں نے انسانی ساخت کو چھوڑ دیا تھا اور اب ان کی مختلف شکلیں اور جسم تھے۔ یہاں تک کہ لمبے عرصے پہلے مرے ہوئے لوگوں کی یادداشتیں اور شخصیت کو کمپیوٹر کے بینک میں ذخیرہ کیا ہوا تھا اور ان کو واپس زندہ کیا جا سکتا تھا۔ وہ دوبارہ زندہ کرکے کئی مرتبہ نئے اجسام میں ڈالے جا سکتے تھے۔ ان کے اجسام میں پیوستہ آلات انھیں لامحدود اطلاعات تک رسائی دیتے تھے۔ ہرچند ان لوگوں کے پاس ہر وہ چیز تھی جس کی وہ خواہش کرتے تاہم ہماری ہیروئن اس تیکنیکی جنت میں مصیبت زدہ اور تنہا تھی۔ اس کو اپنا خاندان، اپنا محبوب اور اپنی زمین یاد آتی تھی جو نیوکلیائی جنگ میں تباہ ہو گئی تھی۔ بالآخر اس کو اس بات کی اجازت مل گئی کہ وہ متوازی زمین کو راستے میں موجود کثیر کائناتوں کی چھان بین کرکے دیکھ لے جہاں پر نیوکلیائی جنگ کو ہونے سے روک دیا گیا ہو اور اس کے پیارے اب بھی زندہ ہوں۔ بالآخر اس کو ایک ایسی جگہ مل جاتی ہے جس میں وہ داخل ہو جاتی ہے۔
(بدقسمتی سے وہ ایک چھوٹی سی حسابی غلطی کرتی ہے؛ اور ایک ایسی کائنات میں پہنچ جاتی ہے جہاں مصری سلطنت کو کبھی زوال ہی نہیں آیا ہوتا ہے۔ وہ اپنی زندگی کے باقی بچے ہوئے ایام اس متوازی جہاں کو چھوڑنے کی کوششوں میں گزارتی ہے تاکہ اپنا اصل گھر تلاش کر سکے۔)
ہرچند 'دور' میں بیان کئے گئے جہتی گزرگاہیں مکمل طور پر قصصی ہیں تاہم یہ ایک ہم سے متعلق دلچسپ حقیقت کو اٹھاتی ہیں: اگر ہماری اپنی کائنات میں رہنے کا ماحول ناقابل برداشت ہو جائے تو آیا کوئی متوازی جہانوں میں جنت کو پا سکتا ہے؟
ہماری کائنات کے حتمی انجام کے بارے میں مردہ الیکٹران، نیوٹرینو اور فوٹون کے بادل پہلے ہی سے تمام ذی شعور حیات کے مقدر کے بارے میں بتاتے ہیں۔ کونیاتی پیمانے پر ہم دیکھتے ہیں کہ حیات کس قدر نازک اور عبوری ہے۔ وہ دور جہاں حیات پھل پھول سکتی ہے انتہائی تنگ پٹی ہے آسمان کو روشن کرنے والے ستاروں کی حیات میں ایک عارضی دورانیہ ۔ ایسا لگتا ہے کہ کائنات کی عمر اور ٹھنڈے ہونے کے ساتھ حیات کا جاری رہنا ممکن نہ ہوگا۔ قوانین طبیعیات اور حر حرکیات اس معاملے میں کافی واضح ہیں: اگر کائنات کا پھیلاؤ اسراع پذیر ہو کر بے قابو ہو جائے گا، ہماری معلوم ذہانت باقی نہیں بچ سکے گی۔ تاہم جب کائنات کا درجہ حرارت مختلف ادوار میں گرتا چلا جائے گا کیا ایک جدید تہذیب اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کرے گی؟ اپنی نقیبی ٹیکنالوجی کے ساتھ اور کسی بھی دوسری تہذیب کی ٹیکنالوجی کے ساتھ جو اگر کائنات میں کہیں موجود ہے، کیا وہ ناگزیر عظیم انجماد سے راہ فرار حاصل کر سکتی ہیں؟
کیونکہ کائنات کے ارتقا کے مراحل کو ارب ہا یا کھرب ہا برسوں میں ناپا جاتا ہے لہٰذا کسی محنتی، چالاک تہذیب کے پاس کافی وقت موجود ہوگا کہ ان مبارزت سے نمٹ سکے۔ ہرچند تصور کرنے کے لئے صرف اندازے ہی لگائے جا سکتے ہیں کہ کس ایک جدید تہذیب اپنے وجود کو لمبے عرصے تک قائم رکھنے کے لئے طرح کی ٹیکنالوجی بناتی ہے، کوئی بھی معلوم قوانین طبیعیات کا استعمال کرتے ہوئے آج سے ارب ہا برس بعد موجود موٹے موٹے انتخابات کے بارے میں بات کر سکتا ہے۔ طبیعیات یہ نہیں بتاتی کہ ایک جدید تہذیب کون سے مخصوص منصوبے بنائے گی تاہم یہ بتا سکتی ہے کہ کس قسم کے پیرامیٹر کائنات سے فرار کے لئے موجود ہیں۔
ایک انجنیئر کے لئے کائنات کو چھوڑنے کے لئے سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ آیا ہمارے پاس وہ ذرائع موجود ہیں جس سے ہم وہ مشین بنا سکیں جو یہ جرات مندانہ اقدام اٹھا سکے۔ تاہم ایک طبیعیات دان کے لئے اہم مسئلہ کچھ اور ہے۔ یعنی کہ آیا کیا قوانین طبیعیات ان مشینوں کو بنانے کی اجازت بھی دیتے ہیں۔ طبیعیات دان "نظریئے کا ثبوت" – چاہتے ہیں ، ہم دکھانا چاہتے ہیں کہ اگر آپ کے پاس کافی جدید ٹیکنالوجی موجود ہو تو قوانین طبیعیات کی رو سے ایک اور کائنات میں فرار ممکن ہے۔ یہ ایک بعد کا سوال ہے کہ آیا ہمارے پاس مناسب ذرائع موجود ہیں یا نہیں، عملی تفصیلات عظیم انجماد کا سامنا کرنے والی آج سے ارب ہا برس بعد باقی رہنے والی تہذیب کے لئے چھوڑ دی جائیں گی۔
شاہی فلکیات دان سر ر مارٹن ریس کہتے ہیں، " ثقب کرم ، اضافی جہتیں، اور کوانٹم کمپیوٹر اندازوں بھرے منظر ناموں کا بھنڈار ہمارے سامنے کھول کر رکھ دیں گے جو بالآخر ہماری کائنات کو ایک " زندہ کونیات" میں بدل دیں گے۔"
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں