ہرچند کہ ہماری تہذیب کافی ابتدائی ہے تاہم ہم پہلے ہی تبدیلی کو وقوع پذیر ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ جب میں شہ سرخیوں پر نظر ڈالتا ہوں، تو میں اس تاریخی ارتقا کے بچے ہوئے حصّے کو مستقل طور پر دیکھتا ہوں۔ حقیقت میں ، مجھے زندہ رہ کر اس کا مشاہدہ کرنے پر بہت شکر ادا کرنا چاہئے:
- انٹرنیٹ ایک طرح سے درجہ اوّل ٹیلیفون نظام کا پیش رو ہے۔ اس میں قابلیت ہے کہ یہ عالمگیری ذرائع ابلاغ کے جال کی بنیاد بن سکے۔
- جماعت اوّل کی معیشت میں صرف اقوام کا غلبہ نہیں ہوگا بلکہ بڑے تجارتی شراکت دار یورپی یونین کی طرح ہوں گے جس کو بذات خود نافٹا (شمالی امریکا کے ممالک ) سے مقابلہ کرنے کے لئے بنایا گیا ہے۔
- جماعت اوّل کے سماج کی زبان شاید انگریزی ہوگی جو پہلے ہی زمین پر دوسری زبان کے طور پر اپنا غلبہ قائم کر چکی ہے۔ جماعت اوّل کی تمام آبادی اس طرح سے دو زبانی ہوگی یعنی ایک مقامی زبان جبکہ ایک عالمگیر زبان بولے گی۔
- ہرچند آنے والی کچھ صدیوں میں اقوام کسی صورت میں اپنا تشخص برقرار رکھیں گی تاہم گزرتے وقت کے ساتھ ان کی اہمیت کم ہو جائے گی کیونکہ تجارتی سرحدیں ختم ہو جائیں گی اور دنیا معاشی طور پر ایک دوسرے پر زیادہ انحصار کرنے لگے گی۔ (جدید اقوام جو ابتداء میں سرمایہ داروں اور ان لوگوں نے بنائی ہوں گی جو ایک عالمگیر سکہ رائج الوقت، سرحدیں، محصولات، اور قوانین چاہتے تھے جن کے ساتھ وہ تجارت کر سکیں۔ کاروبار خود سے بین الاقوامی بن جائے گا اور قومی سرحدیں برائے نام ہی رہ جائیں گی۔) کوئی اکیلی قوم اتنی طاقتور نہیں ہوگی کہ اس جماعت اوّل کی طرف سفر کو روک سکے۔
- جنگ کا شاید ہمارے ساتھ جنم جنم کا رشتہ رہے گا، تاہم جنگوں کی نوعیت سیاروی عالمگیر متوسط طبقے کے ظہور کے ساتھ بدل جائے گی جو سیاحت اور بجائے دوسرے لوگوں کو نیچا دکھا کر ان بازاروں اور جغرافیائی علاقوں پر قبضہ کرنے کے وہ دولت و ذرائع کو جمع کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہوگی ۔
- آلودگی کو تیزی کے ساتھ عالمگیر پیمانے پر قابو کیا جائے گی۔ نباتاتی خانے کے اثر کی گیسوں، تیزابی بارشوں، جنگلات کی آگ، اور کسی قسم کی قومی سرحدوں کا نہ ہونے کی وجہ سے پڑوسی اقوام پر دباؤ رہے گی کہ وہ اپنا گند صاف کرتی رہیں۔ عالمگیری ماحولیاتی مسائل عالمگیر حل کو اسراع دینے میں مدد گار ثابت ہوں گے۔
- بطور ذرائع ( جیسا کہ مچھلی کو پکڑنا، اناج اگانا، پانی کے وسائل ) بتدریج ضرورت سے زیادہ زرعی پیداوار اور ضرورت سے زیادہ کھپت کو برابر کر دیں گے عالمگیر سطح پر وسائل کے استعمال میں دباؤ بڑھے گا ورنہ غذائی قلت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
- اطلاعات تقریباً مفت حاصل ہوں گی، سماج کو زیادہ سے زیادہ جمہوری ہونے کی حوصلہ افزائی کی جائے گی جس سے حق استصواب رائے سے محروم لوگوں کے لئے آواز بلند ہوگی اور آمریت پر دباؤ بڑھے گا۔
یہ قوّتیں کسی انفرادی شخص یا قوم کے قابو سے باہر ہوں گی۔ انٹرنیٹ کے استعمال کو غیر قانونی قرار نہیں دیا جا سکے گا۔ اصل میں اس طرح کے کسی بھی کام کی کوشش کا نتیجہ خوف کے بجائے اس کے اقدام کے مذاق کی صورت میں نکلے گا۔ اس کی وجہ یہ ہوگی کہ انٹرنیٹ معاشی خوشحالی و سائنس اور ثقافت و تفریح کی جانب لے جانے والا راستہ ہوگا۔
تاہم جماعت صفر سے جماعت اوّل کی طرف کا سفر انتہائی خطرناک ہوگا کیونکہ ہم اس وقت بھی وہی سفاکانہ برتاؤ کا مظاہرہ کریں گے جب ہم جنگل سے نکلتے ہوئے کرتے تھے۔ ایک طرح سے ہماری تہذیب کی ترقی وقت کے ساتھ مقابلے کی دوڑ کی طرح ہے۔ ایک طرف جماعت اوّل سیاروی تہذیب کی طرف جانا ہمیں بے نظیر امن و خوشحالی کی امید دلاتا ہے ۔ جبکہ دوسری طرف ناکارگی کی قوّتیں (نباتاتی خانے کے اثر والی گیسیں، آلودگی، نیوکلیائی جنگ، بنیاد پرستی، بیماریاں) ہمیں پاش پاش کرنے کے لئے تیار ہیں۔ سر مارٹن ریس ان مسائل کو دہشت گردی، حیاتیاتی انجینئرنگ جرثوموں، اور دوسری تیکنیکی دہشتوں کے ساتھ ان کو انسانیت کو للکارتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ وہ ہمیں صرف آدھا موقع اس بات کا دیتے ہیں کہ ہم ان مسائل سے نمٹ لیں گے۔
شاید یہی ایک وجہ ہے کہ ہمیں ماورائے ارضی حیات خلاء میں نظر نہیں آتی۔ حقیقت میں اگر وہ وجود رکھتی تو شاید وہ اس قدر ترقی یافتہ ہوتی کہ ان کو ہماری اس قدیمی جماعتی 0.7 تہذیب میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔
متبادل طور پر شاید وہ جنگ یا جماعت اوّل کی تہذیب کی طرف جاتے ہوئے خود کی پیدا کی ہوئی آلودگی سے ختم ہو سکتے تھے۔ (اس طرح سے وہ نسل جو اس وقت زندہ ہے شاید زمین کی سطح پر چلنے والی سب سے اہم نسل ہے؛ یہ اچھی طرح سے فیصلہ کرے گی کہ آیا ہم محفوظ طریقے سے جماعت اوّل کا راستہ عبور کر سکتے ہیں یا نہیں ۔)
تاہم جیسا کہ فریڈرک نیچا نے ایک مرتبہ کہا تھا ہمیں جو چیز نہیں مارتی اس سے ہم مزید مضبوط ہوتے ہیں۔ ہمارا جماعت صفر سے جماعت اوّل کا سفر لازمی طور پر انگاروں کے راستے پر سے ہوتے ہوا چلے گا جہاں کافی جگر خراش واقعات رونما ہوں گے۔ اگر ہم اس چیلنج سے بخیر و عافیت کے گزر گئے تو ہم اور مضبوط ہو جائیں گے بعینہ اس طرح جیسا کہ سونا پک کر کندن بنتا ہے۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں