جب کوئی تہذیب جماعت اوّل کے رتبے پر پہنچتی ہے تو اس کے لئے فوری طور پر ستاروں پر پہنچنا ممکن نہیں ہوتا؛ اسے مزید کئی صدیوں تک اسی سیارے پر رہنا ہوتا ہے یہ عرصہ اس سے کافی زیادہ ہے جس میں وہ اپنے ماضی کے باقی بچے ہوئے قومیتوں، بنیاد پرستی، نسلی، اور گروہی قسم کے مسائل سے جان چھڑا سکیں۔ سائنسی قصے لکھنے والوں نے اکثر خلائی سفر اور خلاء میں بستیوں کے قائم کرنے کے بارے میں غلط اندازے لگائے۔ آج زمین کے مدار میں کسی بھی چیز کو رکھنے کے لئے فی پونڈ 10،000 ہزار امریکی ڈالر سے لے کر 40،000 ہزار امریکی ڈالر کی لاگت آتی ہے۔ (ذرا تصوّر کریں کہ جان گلین ٹھوس سونے سے بنا ہو تب ہی آپ خلائی سفر کی لاگت کے بارے میں صحیح طرح سے ادراک کر سکیں گے) ہر خلائی جہاز کی مہم لاگت میں 80 کروڑ ڈالر کا اضافہ کرتی ہے (اگر ہم تمام خلائی سفر کی لاگت کو لے کر تمام مہمات کے اعداد سے اس کو تقسیم کریں)۔ امید ہے کہ خلائی سفر کی لاگت گرے گی لیکن یہ صرف اگلی چند دہائیوں میں نئے دوبارہ قابل استعمال خلائی گاڑیوں کی آمد کے ساتھ صرف دس گنا ہی کم ہوگی ۔ ان خلائی گاڑیوں کو مہم کو مکمل کرنے کے ساتھ ہی دوسری مہم کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اکیسویں صدی کے زیادہ عرصے تک خلائی سفر انتہائی مہنگا شوق بنا رہے گا جس کی استطاعت صرف دولت مند افراد اور اقوام ہی رکھ سکیں گی۔
(اس کی ایک ہی اِستثنیٰ ہے یعنی "خلائی بالا بر " کو بنا لیا جائے۔ حالیہ نینو ٹیکنالوجی میں ہونے والی پیش رفت سے یہ ممکن ہو سکا ہے کہ فوق مضبوط اور فوق ہلکے وزن کے دھاگے کو کاربن نینو ٹیوب کی مدد سے بنایا جا سکے۔ اصولی طور پر کاربن کے جوہروں کے یہ دھاگے اتنے مضبوط ثابت ہو سکتے ہیں کہ زمین کو ہم گرد زمین سیارچے کے ساتھ زمین سے 20 ہزار میل اوپر جوڑ سکیں۔
جس طرح سے جیک کی بیل آسمان تک جاتی تھی اس طرح سے کوئی ان کاربن نینو ٹیوب کا استعمال کرتے ہوئے خلائے بسیط میں جانے کے لئے کسی قسم کا بالا بر بنا سکتا ہے جس پر آنے والی لاگت جو عام طور پر خلاء میں بھیجے جانے والے خلائی جہازوں پر آنے والی لاگت سے کہیں کم ہوگی۔
تاریخی طور پر خلائی سائنس دان خلائی بالا بر کے خیال کو اس لئے رد کرتے رہے ہیں کیونکہ رسی پر دباؤ اس قدر ہوگا کہ کوئی بھی معلوم ریشہ اس کو برداشت نہیں کر سکتا۔ بہرحال کاربن نینو ٹیوب کی ٹیکنالوجی اس منظر نامے کو تبدیل کر سکتی ہے۔ ناسا اس ٹیکنالوجی پر تحقیق کے لئے مالی معاونت کر رہا ہے اور صورتحال کا کچھ برسوں تک قریبی جائزہ لے گا۔ تاہم کیا ایسی ٹیکنالوجی کسی کام کی بھی ہوگی، ایک خلائی بالا بر تو صرف ہمیں زمین کے گرد مدار میں لے کر جائے گا کسی دوسرے سیارے پر نہیں۔)
خلائی بستیوں کا خواب اس وقت چکنا چور ہو جاتا ہے جب ہم پر یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ انسان بردار چاند اور مریخ پر مہمات کی لاگت قریبی زمینی مہمات سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ صدیوں پہلے کولمبس کے زمینی سمندری جہاز اور پہلے کے فرانسیسی کھوجیوں کے برعکس جن کے جہاز کی لاگت اسپین کی خام مقامی آمدن کا معمولی حصّہ ہوتی تھی اور جہاں معاشی فوائد اس لاگت سے کہیں زیادہ ہوتے تھے، چاند اور مریخ پر بستیوں کو قائم کرنے کی لاگت اکثر اقوام کا دیوالیہ نکال دے گی جبکہ ان کو اس سے براہ راست کوئی معاشی فائدہ حاصل نہیں ہوگا۔ ایک سادہ انسان بردار مریخ کے سفر کی لاگت سو ارب سے پانچ سو ارب امریکی ڈالر ہو سکتی ہے جبکہ اس کا مالی منافع نہ ہونے کے برابر ہے۔
اسی طرح انسانی مسافروں کو خلاء میں پیش آنے والے خطرات کو بھی مد نظر رکھنا ہوگا۔ نصف صدی کے بعد کے مائع ایندھن والے راکٹ انجن کے تجربے کے بعد ہمیں معلوم ہے کہ راکٹ کی ناکامی کی شرح 70 میں سے ایک کی ہے۔( حقیقت میں دو المناک خلائی حادثے اسی شرح کے اندر آتے ہیں) ۔ ہم اکثر بھول جاتے ہیں کہ خلائی سفر سیاحت سے مختلف ہوتا ہے۔ دھماکے سے اڑ جانے والے کافی سارے ایندھن اور انسانی زندگی کا سامنا کرنے والے بہت سارے خطروں کے ساتھ خلائی سفر آنے والی دہائیوں میں اسی طرح خطرناک رہے گا۔
کئی صدیوں کے پیمانے پر بہرحال صورتحال بتدریج تبدیل ہوتی جائے گی۔ خلائی سفر کی لاگت میں کمی سست رفتاری سے جاری رہے گی، کچھ خلائی بستیاں بتدریج مریخ پر قائم کی جا چکیں گی۔ اس وقت کے پیمانے پر کچھ سائنس دان تو مریخ کو زمین سے ملتی جلتی شکل دینے کے لئے اختراعی میکانکی طریقہ تجویز کرتے ہیں، جیسا کہ کسی سیارچہ کا رخ موڑنا اور اس کو فضا میں تبخیر ہونے کے لئے چھوڑ دینا تاکہ فضا میں پانی کا اضافہ ہو سکے۔ دوسروں کے خیال میں میتھین گیس کو فضا میں داخل کر دیا جائے تاکہ سرخ سیارے پر مصنوعی نباتاتی خانے کا اثر پیدا کیا جا سکے جس سے درجہ حرارت کو بڑھا کر مریخ کی سطح کے نیچے ہمیشہ سے رہنے والی برف کو پگھلایا جا سکے اور یوں اس کی جھیلیں اور ندیوں کو ارب ہا برسوں کے بعد پہلی مرتبہ بھرا جا سکے۔ کچھ لوگ تو اس سے بھی آگے کی بات کرتے ہیں زیادہ شدید اور خطرناک جیسا کہ زیر زمین قطبی ٹوپی پر نیوکلیائی بم کو پھاڑ دیں تاکہ برف پگھل جائے (یہ مستقبل کے خلائی نو آبادیاتی لوگوں کی صحت کے لئے انتہائی خطرناک چیز ہوگی)۔ تاہم یہ تجاویز ابھی تک دیوانے کی بڑ سے زیادہ کی چیز نہیں ہیں۔
زیادہ امکان یہی ہے کہ کہ جماعت اوّل کی تہذیب خلائی آباد کاری کو چند صدیوں تک اپنی ترجیحات میں نچلے درجے پر رکھے گی ۔ تاہم لمبے فاصلوں کے بین السیاروی مہمات پر جہاں وقت کا دباؤ زیادہ شدید نہیں ہوگا شمسی / آئن انجن شاید ایک نئے طرح کا انجن ستاروں کے درمیان سفر کرنے کے لئے پیش کر سکتا ہے۔ اس طرح کے آہستہ حرکت کرنے والے کم دھکیل کی قوّت کو پیدا کرتے ہیں تاہم وہ اپنی اس دھکیل کی قوّت کو برسوں تک قائم رکھ سکتے ہیں۔ یہ انجن سورج کی شمسی توانائی پر انحصار کرتے ہیں، سیزم جیسی گیسوں کو گرم کرتے ہیں اور پھر گیس کو خارج کرتے ہیں اس طرح سے ہلکی دھکیل پیدا ہوتی ہے جس کو تقریباً لامتناہی طور پر قائم رکھا جا سکتا ہے۔ اس طرح کی گاڑیاں شاید بین السیاروی " بین السلطنت شاہراہ نظام" کو جوڑنے کے لئے مثالی ہوں۔
بالآخر جماعت اوّل کی تہذیب شاید کچھ تجرباتی کھوجی قریبی ستاروں تک بھیج سکے۔ کیونکہ کیمیائی راکٹ کی رفتار راکٹ میں موجود گیسوں کی زیادہ سے زیادہ تیزی سے اخراج ہونے والی رفتار پر انحصار کرتے ہیں، طبیعیات دانوں کو مزید اجنبی دھکیلنے کے نظاموں کو ڈھونڈنا ہوگا اگر وہ ان دور دراز ستاروں کے پاس جانے چاہتے ہیں جو سینکڑوں نوری برس کے فاصلے پر ہیں۔
ایک ممکنہ صورت گداختی دو شاخہ راکٹ کا بنانا ہے، ایک ایسا راکٹ جو جو ہائیڈروجن گیس کو بین النجمی خلاء سے اٹھائے اور اس میں گداخت کرے، اس طرح سے اس عمل کے درمیان غیر محدود مقدار میں توانائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ بہرحال خلاء میں خلائی جہاز میں تو اس کے حاصل کرنے کی بات کو چھوڑ دیں، پروٹون پروٹون کی گداخت زمین پر حاصل کرنا بھی بہت ہی زیادہ مشکل کام ہے ۔ اس طرح کی ٹیکنالوجی مستقبل میں آنے والی دوسری صدی میں ہی حاصل ہو سکتی ہے۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں