ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں لندن کے افلاک نما میں لیکچر دے رہا تھا تو وہاں ایک چھوٹا لڑکا میرے پاس آیا اور اسرار کرنے لگا کہ جماعت چہارم کی تہذیب بھی ہوگی۔ جب میں نے اس کو یاد دلایا کہ صرف سیارے ، ستارے اور کہکشائیں موجود ہیں اور یہی وہ جگہیں ہیں جہاں ذہین حیات کی داغ بیل ڈل سکتی ہے ، تو اس نے دعویٰ کیا کہ جماعت چہارم کی تہذیب مسلسلہ کی طاقت استعمال کر سکتی ہے۔
وہ ٹھیک کہہ رہا تھا، مجھے احساس ہو گیا۔ اگر ایک جماعت چہارم کی تہذیب کا وجود ہے تو اس کی توانائی ماورائے کہکشانی ہوگی جس طرح سے تاریک توانائی کو ہم اپنے ارد گرد دیکھتے ہیں، جو کائنات میں موجود مادّے اور توانائی کی کل مقدار کا 73 فیصد تشکیل دیتی ہے۔ ہرچند کہ ممکنہ طور پر توانائی کا ایک عظیم ذخیرہ – کائنات میں سب سے زیادہ سب سے بڑا – یہ ضد ثقلی میدان ہے جو کائنات کی وسیع خالی جگہوں پر پھیلا ہوا ہے لہٰذا کسی بھی نقطہ پر وہ کافی کمزور ہے۔
تھامس ایڈیسن کے رقیب اور برقی اختراعی کا استعمال کرنے والے نیکولا ٹیسلا، نے کافی تفصیل سے لکھا کہ کس طرح سے خالی جگہ کی توانائی کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس کو یقین تھا کہ خالی جگہ میں بے حساب توانائی موجود ہے۔ اگر ہم کسی طرح سے اس وسیلے کا استعمال کر سکتے تو اس کے خیال میں یہ انسانی سماج میں انقلاب برپا کر دیتا۔ بہرحال اس شاندار توانائی کو حاصل کرنا انتہائی مشکل کام ہے۔ سمندر میں سونے کی تلاش کے بارے میں سوچیں۔ شاید سمندر میں فورٹ ناکس اور دنیا کے دیگر خزانوں سے بھی زیادہ سونا موجود ہے۔ تاہم اتنے بڑے علاقے سے سونے کو نکالنے کی لاگت بہت زیادہ ہے۔ لہٰذا سمندر میں موجود سونے کو کبھی نکالا نہیں گیا۔ اسی طرح سے تاریک توانائی میں مخفی توانائی ستاروں اور کہکشاؤں کی کل توانائی کی مقدار سے کہیں زیادہ ہے۔ بہرحال یہ ارب ہا نوری برس پر پھیلی ہوئی ہے اور اس کو مرکوز کرنا نہایت مشکل کام ہے۔ تاہم قوانین طبیعیات کی رو سے اس بات کا اب بھی قیاس کیا جا سکتا ہے کہ ایک جماعت سوم کی تہذیب جب کہکشاں میں موجود تمام ستاروں کی توانائی کا استعمال کرنے کے بعد کسی طرح سے اس توانائی کو حاصل کرنے کی کوشش کر سکتی ہے تاکہ جماعت چہارم کی تہذیب کی طرف قدم بڑھا سکے۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں