حقیقی طور پر کوئی سائنسی نظریہ کبھی بھی صحیح ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ زیادہ سے زیادہ کوئی نظری اس کی امید کر سکتا ہے کہ اس کے نظریے کی مدد سے کی جانے والی پیشن گوئی کی جانچ کر کے اس کو مشاہداتی حدود یا تجرباتی خطا کے اندر درست پایا جائے۔ اس لحاظ سے آئن سٹائن کا نظریہ نیوٹن کے قوت ثقل کے نظریے کے مقابلے میں زیادہ مکمل ہے اور ایسی پیشن گوئیاں کرتا ہے جو مشاہدات سے زیادہ میل کھاتی ہیں۔ یہ خاص اس لحاظ سے ہے جس میں آئن سٹائن کا نظریہ 1919ء میں صحیح 'ثابت' ہو گیا۔ اور اس کے ثبوت کو حاصل کرنے والا اہم آدمی برطانوی فلکیات دان آرتھر ایڈنگٹن تھا۔
خاکہ 4.3 روشنی مکان و زمان میں سے ضخیم اجسام کے بگاڑ کے پیچھے چلتے ہوئے سفر کرتی ہے۔ ایک ربڑ کی چادر پر رکھی ہوئی گیند کی تصویر کا استعمال کرتے ہوئے ہم سورج کی وجہ سے مکان و زمان میں ہونے والے بگاڑ کو ظاہر کر سکتے ہیں اور اس کا اثر دور دراز ستاروں کی آتی ہوئی روشنی پر بھی ہوتا ہے۔
ایڈنگٹن آئن سٹائن سے تین برس چھوٹا تھا 1882ء میں کمبریا میں واقع کینڈل میں پیدا ہوا - مشہور زمانہ 'خشبو دار کیک' بنانے کا گھر جو ایورسٹ کو سر کرنے والے کوہ پیما اپنے رسد کا حصّہ بنا کر لے جاتے ہیں۔ تاہم اس کے والد کا انتقال 1884ء میں ہو گیا تھا اور یہ اپنی والدہ اور بہن کے ساتھ سمرسیٹ میں واقع ویسٹن سپر میر میں منتقل ہو گیا تھا جہاں وہ پلا بڑھا اور مقامی اسکول میں تعلیم حاصل کی۔ وہ اپنی پوری زندگی میں خانفین (انجمن احباب کا رکن، اس انجمن کا مقصد یہ تھا، کی امن و امان کی تبلیغ کی جائے اور لباس کی سادگی پر زور دیا جائے) رہا تھا - یہ ایک ایسی چیز تھی جس نے آئن سٹائن کی روشنی کے خم کی تصدیق ایک گول سے چکر کی صورت میں اہم کردار ادا کرنا تھی - اور یہ ایک زبردست معلم بھی تھا جو پہلے مانچسٹر میں واقع اونس کالج میں گیا (وہ کالج جو مانچسٹر یونیورسٹی بن گیا ہے ) اور تب وہاں اس نے 1902ء میں کیمبرج سے سند فضیلت حاصل کرنا شروع کی۔ تین سال کے بعد اس نے کیمبرج یونیورسٹی سے سند فضیلت حاصل کر لی اور تھوڑے عرصے تک پڑھانے کے بعد 1907ء میں ٹرینٹی کالج میں لگ گیا اور بطور اہم مددگار کے رائل گرینچ رصدگاہ میں ایک منصب سنبھال لیا۔ 1912ء میں، 29 سال کی عمر میں، وہ کیمبرج یونیورسٹی میں فلکیات کا پلمین پروفیسراور تجرباتی فلسفی (میرا پسندیدہ تعلیمی عہدہ) بن گیا اور 1914ء میں کیمبرج رصدگاہ کا ناظم بن گیا۔
اگر یہ تمام باتیں مل کر اسے ایک مہیب شخصیت بناتی ہیں تو یہ تاثر نصف درست ہو گا۔ ایڈنگٹن ایک شاندار مبلغ تھا جو 1920ء اور 1930ء کی دہائی میں سائنس کو عوام میں مقبول بنانے والوں میں سے ایک تھا اور اس کا حس مزاح کافی تگڑا اور منفرد تھا۔ بعد کی زندگی میں اس نے بتایا کہ کس طرح اسکول میں کھیلے جانے والے ایک کھیل میں ایسے جملے بنائے جاتے تھے جو تمام تر قواعد پر تو پورے اترتے تاہم ان کا کوئی مفہوم نہیں ہوتا تھا - اس کی ایک مثال تھی 'خار کے ساتھ کھڑا ہو کر شلجم کی طرح آواز نکالنا''۔ کوانٹم طبیعیات اور اضافیت پر لکھتے ہوئے وہ تھوڑا سا لیوس کیرول کی طرح کھسک جاتا تاکہ اپنا نقطہ نظر ٹھیک طرح سے سمجھا سکے۔ عام تدریسی جگہ کو چلانے والوں میں سے یقینی طور پر کچھ ایسا اس آدمی کے بارے میں تھا جس نے اپنی کتاب کے باب جس کا عنوان طبیعیاتی سائنس کا فلسفہ تھا اس جملے سے شروع کیا:
میرا یقین ہے کہ کائنات میں 15 747 724 136 275 002 577 605 653 961 181 555 468 044 717 914 527 116 709 366 231 425 076 185 631 031 296 پروٹون اور اتنی ہی تعداد میں الیکٹران موجود ہیں۔
شاید اس سے بھی زیادہ قابل ذکر وجہ کہ آیا کیوں ایڈنگٹن اس بڑے عدد کے ساتھ آیا اب بھی ماہرین تکوینیات کی دلچسپی ہیں جیسا کہ ہم آگے دیکھیں گے۔ ایڈنگٹن کو دو عظیم کامیابیوں کی وجہ سے یاد رکھا جائے گا۔ کسی اور کے جتنا ہی اس نے فلکی طبیعیات کو ایجاد کرنے میں حصّہ ڈالا، وہ مطالعہ جس میں زمین پر رہتے ہوئے طبیعیاتی قوانین کو اخذ کیا جاتا ہے ستاروں سے آتی ہوئی روشنی کے ساتھ اس بات کو بیان کیا جا سکتا ہے کہ ان کے اندر کیا چل رہا ہے جو انہیں گرم رکھتا ہے اور کیسے ستارے عمر کے ساتھ بدلتے ہیں۔ اور وہ قطعی طور پر آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت کو انگریزی زبان میں مقبول بنانے والوں میں سے ایک تھا، نا صرف ان نظریات کو عام آدمی تک پہنچانے والا بلکہ سائنسی تشریح کرنے والا جس نے اپنے رفقائے کاروں میں بھی اسے واضح کیا اور مضمون پر درسی کتب لکھیں جس سے اس کے پیغام کو پھیلنے میں مدد ملی۔ ایڈنگٹن کی زندگی اور اس کے کام سے متحیر رہ کر جو ایک چیز میں نے یہاں سے سیکھی ہے وہ اس کا روشنی سے متعلق پیش گوئی پر رد عمل تھا یعنی روشنی لازمی طور پر اس وقت خم کھائے گی جب وہ سورج کے قریب سے گزرتی ہے۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں