Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    جمعہ، 14 اکتوبر، 2016

    آئن سٹائن کے نظریات کے ثبوت - حصّہ سوم



    ایڈنگٹن نے 1912ء میں سورج کے گرہن پر تحقیق کرنے کے لئے برازیل کا سفر کیا۔ اور اس کو اپنے اس تجربے کی ضرورت تھی تاکہ 1919ء کے جڑواں معرکے میں اپنے حصّے کے کام میں کامیابی کو یقینی بنا سکے جس کی منصوبہ بندی پورے 1918ء میں ہوتی رہی۔ منصوبہ تھا کہ ایڈنگٹن اور کیمبرج کی ٹیم پرینسیپی جاتیں جبکہ ڈائیسن گرینچ میں واقع شاہی رصدگاہ میں برازیل میں ہونے والے سورج گرہن کا مشاہدہ کرنے والی ٹیم کو منظم کرتا۔ تاہم آلات بنانے والے اس وقت تک کام نہیں کر سکتے تھے جب تک جنگ بندی پر دستخط نہیں ہو جاتے۔ وہ جنگ کے ہتھیار بنانے میں بہت زیادہ مصروف تھے۔ تاہم معرکے کو فروری 1919ء میں شروع کرنا تھا۔ 11 نومبر 1918ء میں جنگ بندی پر رضامندی ہو گئی تاہم سالانہ تقریب اب بھی یادگار کے طور پر بنائی جاتی ہے۔ چند مصروف ہفتوں میں ہر چیز تیار ہو گئی اور سفر شروع ہو گیا۔ برازیل کے سفر کے دوران موسم بہت مناسب تھا اور گرہن کے دوران سورج کے ارد گرد ستاروں کے میدان کی بہترین تصاویر کے سلسلے تختیوں پر اتار لئے گئے۔ تاہم عملی اعتبار سے ان تختیوں پر فوری طور پر عمل کاری کر کے ان کا مطالعہ نہیں کیا جا سکتا تھا۔ پرینسیپی پر ایڈنگٹن بیقراری سے انتظار کر رہا تھا کیونکہ اس دن صبح بادلوں سے ڈھکے آسمان سے بارش ہوئی تھی۔ امید سے بڑھ کر یاس میں گرہن کی تصاویر اتارنے کے انتظام کر دیے گئے اور عین اس وقت جب سورج مکمل طور پر مدھم ہوا اس وقت تختیوں کو کھول دیا گیا۔ نتائج صرف دو تختیوں کے تھے جو ان ستاروں کو دکھا رہی تھیں جو جانچ کے لئے درکار تھے۔ ایڈنگٹن نے ان تختیوں کی جانچ کے انتظام جگہ پر کئے، 'پوری بے صبری کے ساتھ نہیں '، جیسا کہ وہ کہتا ہے، 'تاہم واپس جاتے ہوئے کسی مصیبت سے بچنے کے لئے حفظ ماتقدم کے طور پر۔ ' مکمل طور پر ایک کامیاب تختی بنا کر اس کا پرینسیپی پر ہی تجزیہ کیا گیا، ایڈنگٹن نے اس کا موازنہ ایک دوسری تختی سے کیا جو آسمان کے اسی حصّے کی تھی جس کو وہ اپنے ساتھ لے کر آیا تھا۔ درکار پیمائش سادہ تھی۔ گرہن کے تین دن بعد ایڈنگٹن جان گیا تھا کہ اس کے ہاتھ میں آئن سٹائن کی عمومی نظریہ اضافیت کے درست ہونے کا ثبوت موجود تھا۔ 

    خاکہ4.4 1919ء کے دوران چاند اور سورج گرہن۔ آرتھر ایڈنگٹن نے ان ستاروں کے کئی مقامات کی پیمائش کر لی جیسا کہ اوپری تصویر میں دکھایا گیا ہے جو آسمان میں گرہن کے وقت اسی سمت میں تھے جس میں سورج تھا (دائرے )۔ بے شک کہ ستارے سورج کی نسبت ہم سے کافی دور ہیں تاہم اس قربت کا مطلب یہ ہے کہ دور کے ستاروں سے آتی ہوئی روشنی خلاء میں سورج کی کشش سے متاثرہ علاقے سے گزرتی ہے جیسا کہ خاکہ 4.3 میں دکھایا گیا ہے۔ 


    جب ان مقامات کا تقابل انہی ستاروں کے پیمائش کئے گئے مقامات سے کیا گیا جب سورج آسمان کے دوسری طرف ہوتا ہے تو ایڈنگٹن نے دیکھا کہ وہ ظاہری طور پر منحرف تھے، ان میں سے سے ہر ایک کے انحراف کی مقدار کا انحصار گرہن کے وقت سورج سے ستارے کے زاویائی فاصلے پرتھا۔ روشنی جب سورج کے قریب سے گزرتی تھی تو وہ خم کھاتی تھی۔ اور یہ 'انحرافات' (نچلے خاکے میں ایک دوسرے کو قطع کرتے ہوئے ) بعینہ اسی خط پر گرتے تھے جو آئن سٹائن کا نظریہ بتاتا تھا۔ 

    گرہن کے مشاہدے کے مکمل تبصرے کے تجزیے میں کئی ماہ لگ گئے اور آئن سٹائن کے پاس وہ خبر جس میں اس کے اندازے کی تصدیق کی گئی تھی ستمبر 1919ء میں پہنچی۔ مہمات کے مکمل نتائج کا اعلان رائل سوسائٹی اور رائل ایسٹرونامیکل سوسائٹی کے ایک مشترکہ اجلاس میں 6 نومبر 1919ء کو کیا گیا اور جس نے جنگ کی خبروں کے علاوہ دوسری خبروں کی مشتاق دنیا میں شہرت کی ایک لہر کو جنم دیا۔ شہ سرخی اس طرح پڑھی جا سکتی تھی ' روشنی خط مستقیم پر سفر نہیں کرتی'، 'سائنس کی دنیا میں انقلاب'، 'نیوٹن کے خیالات کا تختہ الٹ دیا گیا'، خلاء "ٹیڑھی ہے "'۔ آئن سٹائن کا مقام عوام کی نظر میں بیسویں صدی بلکہ شاید اب تک کے سب سے عظیم سائنس دان کا بن گیا تھا۔ اور عمومی نظریہ اضافیت کو اب تک کے سب سے عظیم سائنسی نظریہ کے طور پر تسلیم کر لیا گیا تھا - تھوڑا یہ بات غلط ہے کیونکہ کوانٹم نظریہ بھی کم از کم اتنی ہی اہمیت کا حامل ہے۔ آئن سٹائن کے نظریے کے دوسرے امتحان بھی تھے۔ یہ سورج کے گرد عطارد کے مدار میں ہونے والی تھوڑی سی تبدیلی کو پہلے ہی بیان کر چکی تھی جس کو نیوٹن کے قوّت ثقل کے نظریے سے بیان نہیں کیا جا سکتا تھا، اور ایک طرح سے گرہن کے نتائج نے صرف فلکیات دانوں کی اس بات کی تصدیق کی تھی جو وہ پہلے سے جانتے تھے یعنی کہ آئن سٹائن کا نظریہ نیوٹن کے نظریے سے بہتر کام کرتا ہے۔ دوسرے گرہن کی مہمات بھی جاری رہیں اور جانچ کو کئی مرتبہ دہرایا گیا جن میں سے اکثر نے ایڈنگٹن کے پرینسیپی میں اس کی تختیوں کے پہلے تجزیے سے کہیں بہتر نتائج حاصل کئے۔ عمومی اضافیت کی مکمل مختلف جانچ میں جس میں ستاروں سے آتی ہوئی روشنی میں قوت ثقل سے ہونے والے سرخ منتقلی اور نابض کی اشعاع میں لطیف تبدیلیاں (1919ء میں جس کا وہم و گمان میں بھی نہیں تھا) سب کے سب ایک ہی نتیجے دے رہے تھے۔ تاہم 1919ء سے پہلے اس کی جو بھی کامیاب توجیحات دی گئیں اور اس وقت تک جو بھی جانچ کی گئی، 29 مئی 1919ء ایک ایسا دن ہے جب سائنس نے وہ مشاہدات کئے جس نے آئن سٹائن کو درست ثابت کر دیا، اور 6 نومبر 1919ء وہ دن ہے جب عوام اس حقیقت سے واقف حال ہوئی۔ دریں اثنا فلکیات دانوں کا سامنا ایک معمے سے تھا۔ اگر آئن سٹائن کا نظریہ مکان و زمان کو اتنی اچھی طرح بیان کرتا تھا تو وہ کائنات کے بارے میں اتنی نرالی باتیں کیوں بتاتا ہے؟

    #جہان_سائنس

    #jahanescience

    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: آئن سٹائن کے نظریات کے ثبوت - حصّہ سوم Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top