عمومی اضافیت کائنات کی علم الاشکال ہے - مکان و زمان کی جیومیٹری۔ گزشتہ پچاس یا اس سے زائد برسوں سے ایک عالم تکوینیات جس نے اپنے آپ کو ان مساوات اور عمومی اضافیت سے سب سے زیادہ شناسا رکھا ہے وہ 'بل مک کریا' ہے، وہ اب بھی سوسیکس یونیورسٹی میں پروفیسر ایمریٹس سر 'ولیم مک کریا' کے طور پر سرگرم ہے۔ 'مک کریا' 1904ء میں پیدا ہوئے اور ٹرنٹی کالج، کیمبرج سے سند فضیلت 1926ء میں حاصل کی۔ وہ اس نسل سے تعلق رکھتے ہیں جنہوں نے آئن سٹائن کے خیالات کو تازہ تازہ اپنے تعلیمی عمل کے دوران حاصل کیا تھا۔ اپنے طویل اور شاندار سفر کی ابتداء میں 'مک کریا' ایڈورڈ آرتھر ملنی کے ساتھ اس بات کے ذمہ دار تھے کہ بتائیں کہ کس طرح سے نیوٹن کے قوت ثقل کے اصول کچھ مخصوص سادے قیاسات کے ساتھ کائنات کے ارتقاء کے بارے میں اسی طرح کی پیش گوئی کرتی ہیں بطور خاص اس کے پھیلاؤ کی جو عمومی اضافیت کرتی ہے۔ اس نے کہکشاؤں کی تشکیل کے بارے میں بھی تحقیق کی، اور ان بڑے اعداد کی اہمیت پر بھی تحقیق کی جو ایڈنگٹن کو متحیر کرتے تھے اور اس نے کوانٹم طبیعیات اور نجمی فلکیات میں اہم حصّہ ڈالا۔ آج ان سے بہتر ہمارے ارد گرد کوئی اور موجود نہیں ہے جو عمومی اضافیت کے بارے میں اتنی صفائی سے بیان کر سکے اور میں نے خود علم کونیات 1960ء کی دہائی میں بطور 'مک کریا' کے شاگرد کے حاصل کیا۔ لہٰذا اس تمام تاریخی عمل سے گزرے بغیر جس نے عمومی اضافیت کے جدید فہم تک پہنچایا اور آئن سٹائن اور ایڈنگٹن سے معذرت کے ساتھ میں آپ کو عمومی اضافیت کی اپنی تشریح پیش کروں گا۔
خصوصی اضافیت مکان و زمان کو ملا کر ایک طبیعیاتی شناخت مکان و زمان کی مخصوص ریاضیاتی صورت میں دیتا ہے۔ یہ مکان و زمان شکلی طور پر 'چپٹی' ہے - ریاضی کی زبان میں کہا جائے اس کی جیومیٹری چپٹے فرش یا بلیئرڈ کے جیسی ہے۔ لہٰذا یہ عمومی امکانات کے خاندان میں سے ایک مخصوص صورت ہے، خمدار سطح کے ایک خاندان میں سے ایک۔ ایک ریاضی دان کے لئے ایک 'خمدار' سطح کا مطلب چپٹے کے علاوہ کچھ بھی ہے - زمین کی سطح کے اوپر اونچے نیچے پہاڑ اور وادیاں اور زمین کی سطح جس نے خم کھا کر اس کو کروی صورت دی ہے۔ ایک مکمل کروی سطح اتنی ہی مخصوص صورت ہے جتنی ایک مکمل چپٹے فرش کی بلکہ خمدار سطحوں پر بھی لکیریں ہوتی ہیں جس طرح زمین کی سطح پر پہاڑیاں اور وادیاں ہوتی ہیں۔
اسی طرح میں مکان و زمان کو بھی خمدار سمجھا جا سکتا ہے اور یہ عمومیت ہی ہے جس نے ' عمومی اضافیت' کو بنایا ہے۔ جب وہ کائنات کی طرف دیکھتے ہیں اور اس کے برتاؤ کو ریاضیاتی طور پر بیان کرنے (یا اندازہ لگانے ) کی کوشش کرتے ہیں تو ماہرین تکوینیات خمدار سطحوں کے خاندان سے ایک یا دو کو امکانات کی قطار سے چنتے ہیں تاکہ دیکھ سکیں کہ ان میں سے سب سے بہتر کون سا بیٹھتا ہے۔ چنی ہوئی مثالوں کو نمونے کہتے ہیں تاہم ان کی لوچ دار نمونے کی طرح کوئی جسمانی حقیقت نہیں ہوتی؛ وہ صرف ماہرین تکوینیات کے دماغ اور ان کی مساواتوں میں ہی موجود ہوتے ہیں۔ اس طرح کے نمونوں میں صرف بڑے خدوخال کی تشریح ہی کی جاتی ہے اور حساب میں شامل ہونے کے لئے کم خطوط جو زمین پر موجود پہاڑوں اور وادیوں کے مماثل ہوتے ہیں تو وہ بہت ہی لطیف پیمانے پر ہوتے ہیں (بشرطیکہ وہ موجود بھی ہوں )۔ تاہم سورج سے مکان و زمان میں پیدا ہوئے بگاڑ کی وجہ سے قریب گزرتی ہوئی ستاروں کی روشنی کو خمدار بنانا ایسا ہی ہے جیسے کہ کائنات کی ساخت میں لہریں پیدا کرنا۔
خاکہ 4.5 سیارہ عطارد سورج کے گرد ایک بیضوی مدار میں چکر لگاتا ہے تاہم پورا مدار بھی حرکت کرتا ہے جس سے گل داؤدی کے پتوں جیسا نمونہ بنتا ہے۔ مدار کی یہ حرکت نیوٹن کے قوت ثقل کے نظریے سے بیان نہیں کی جا سکتی تاہم اس کو عمومی اضافیت سے بیان کیا جا سکتا ہے۔
عمومی اضافیت خصوصی اضافیت سے ایک اور طرح سے زیادہ بہتر ہے۔ جیسا کہ میں وضاحت کی ہے کہ یہ مکان و زمان کے ساتھ مادّے کو بھی بیان کرتی ہے۔ خصوصی اضافیت نے ہمیں مکان و زمان دیا؛ عمومی اضافیت نے ہمیں مادّہ، مکان و زمان دیا اگرچہ میں نے اس اصطلاح کا استعمال اس طرح کبھی نہیں دیکھا۔ یہ مادّہ ہوتا ہے جو خم کھاتا یا بگڑتا ہے، مکان و زمان کی ساخت اور عمومی اضافیت بہتر بیان کردہ طبیعیاتی معنی مکمل مخصوص مادّے، مکان و زمان کی شکل کو دیتی ہے ایک ایسی کائنات جہاں نچلے درجہ کا مطلب ہے کہ ہم ضروری نہیں ہے کہ اس کائنات کا حوالہ دے رہے ہیں جس میں ہم رہتے ہیں بلکہ ہم کئی ریاضیاتی نمونوں میں سے ایک کا حوالہ دے رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر سختی سے کہیں تو عمومی اضافیت صرف مکمل کائناتوں سے نمٹتی ہے۔ جب آئن سٹائن کی مساواتوں کا استعمال سورج سے گزرتے ہوئے روشنی کو خم کھاتے ہوئے بیان کیا جاتا ہے یا کس طرح سے عطارد کا مدار سورج کے گرد ہر مرتبہ ہلکا سے حرکت کرتا ہے تو اس کو لگ بھگ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ عملی طور پر ان تخمینہ جات کو اس قدر درست کیا جا سکتا ہے جتنا آپ چاہیں۔ ان کو 'سرحدی شرائط' کہا جاتا ہے جو اس مساوات سے ملتی ہیں جو چھوٹے سورج جیسے مقامی جسم کو باقی کائنات کے ساتھ بیان کرتی ہے۔ تاہم اہم بات یہ ہے کہ ایک طرح سے آئن سٹائن کو اپنے نظریے کو پوری کائنات سے نمٹنے کے قابل بنانے کے لئے پھیلانا نہیں پڑا تھا۔ عمومی نظریہ اپنی پیدائش کے وقت سے ہی پوری کائنات سے بخوشی نمٹتا ہے اور لطیف طور پر گر کر مرتکز ہو کر وہ ہمارے نظام شمسی جیسے مکان و زمان کے غیر اہم اور چھوٹے حصّے سے نمٹتا ہے۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں