Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    پیر، 17 اکتوبر، 2016

    آئن سٹائن کی کائنات -حصّہ دوم



    1917 ء میں عقل کہتی تھی کہ ہماری ملکی وے کہکشاں ستاروں کا پائیدار مجموعہ ہی پوری کائنات ہے۔ انفرادی ستارے بادل کے اندر گھوم سکتے ہیں تاہم ملکی وے کو بحیثیت مجموعی ہی لیا جاتا تھا۔

    کائنات کی نمایاں خصوصیت یہ کی پائیداری لگتی تھی۔ ملکی وے کہکشاں نہ تو بڑی ہو رہی تھی نہ ہی چھوٹی بلکہ وہ ابد سے یہیں پر موجود تھی جو سب جانتے تھے۔ کچھ ستارے پیدا ہوتے ہیں جبکہ دوسرے مر جاتے ہیں تاہم ملکی وے کی کلی صورت ایک ہی جیسی پائیدار حالت میں رہتی ہے۔ لہٰذا جب آئن سٹائن نے وہ حیرت انگیز آلہ اپنے ہاتھ میں لیا جس کو اس نے ایجاد کیا تھا اور اس کو کائنات کو بیان کرنے پر لاگو کیا تو اس نے امید کی کہ کائنات کم از کم ایک ساکن حالت میں موجود ہونی چاہئے۔ برلن اکیڈمی آف سائنسز کے ایک اور مقالے میں اس نے 1917ء میں اپنی حیرت کو بیان کیا کہ مساوات نے اس کو کیا بتایا اور کس طرح سے اس نے زبردستی اس کو پہلے سے موجود خیالات سے ہم آہنگ کرنے کے لئے مجبور کیا۔ مقالے کا عنوان تھا ' عمومی نظریہ اضافیت پر سماوی سوچ و بچار'؛ مک کریا آئن سٹائن کے اس مقالے میں کہے ہوئے قول کو (ترجمہ کر کے ) بتاتے تھے، 'میں سامع کو بجائے کھردری اور مڑی تڑی سڑک پر لے جانے کے اس سڑک پر لے کر جاتا ہوں جس پر میں نے سفر کیا، کیونکہ اس کے علاوہ میں امید نہیں کر سکتا ہے کہ وہ سفر کے آخر تک جانے میں کوئی دلچسپی لے گا۔ ' اور مک کریا نے پورے مقالے کو 'عارضی۔ .. آئن سٹائن کے کردار سے باہر' بیان کیا۔ سچ عظیم آدمی اپنی محنت کے پھل کو پانے سے خود ہی حیران تھا - کیونکہ ہم اب جانتے ہیں کہ کائنات کے مشاہدات دھوکہ دینے والے ہیں۔ 

    آئن سٹائن نے کائنات کے نمونے کو سادہ تر طور پر بیان کرنے کی کوشش کی تاکہ اس کا رشتہ حقیقت سے قریب ہو، ایک ایسی کائنات جس میں مادّہ پوری خلاء میں یکساں طور پر پھیلا ہوا ہو۔ کائنات 'کرے' کی سطح کی طرح بند تھی اپنے آپ پر اس طرح لپٹی ہوئی تھی کہ کوئی کنارہ نہیں تھا۔ تاہم وہ ساکن نہیں رہ سکتی تھی۔ جب آئن سٹائن نے ایسی مساوات رکھی جو عمومی اضافیت میں چھیڑ چھاڑ کر کے اس طرح کی ساکن کائنات کو بیان کر رہی تھی تو اس نے کہا کہ کائنات یا تو پھیل رہی تھی یا سکڑ رہی تھی تاہم وہ ساکن نہیں رہ سکتی تھی۔ صرف ایک ہی طریقہ تھا جس میں کائنات کا نمونہ ساکن رہ سکتا تھا تاکہ ملکی وے کہکشاں کی نقل بن سکے وہ یہ کہ عمومی اضافیت کی مساوات میں ایک اضافہ چیز شامل کر دی جائے ایک اصطلاح جو "کونیاتی مستقل' کہلائی اور جس کو اکثر یونانی حرف لمبڈا سے ظاہر کیا جاتا ہے۔ صرف اسی صورت میں ہی مساوات کائنات کی وہ تشریح بیان کر سکتی تھی جس میں وہ نہ تو پھیل رہی تھی نہ ہی سکڑ رہی تھی۔ آئن سٹائن کے 1917ء کے مقالے کی آخری سطر کچھ اس طرح پڑھی جا سکتی ہے، 'اس اصطلاح کی ضرورت صرف اس لئے ہے کہ ساکن مادّے کی تقسیم ممکن ہو سکے جو ستاروں کی چھوٹی سمتی رفتار کی حقیقت کی وجہ سے درکار ہے۔ ' کچھ درجن برس بعد ہبل نے دکھایا کہ ملکی وے ہی پوری کہکشاں نہیں ہے اور اس نے کافی بڑی سمتی رفتاروں کو دریافت کیا جو تمام کی تمام ہم سے دور جاتی ہوئی دور دراز کی کہکشاؤں میں تھے۔ لمبڈا کی اصطلاح کے وجود کی وجہ غائب ہو گئی ہے اور پھیلتی ہوئی کائنات کا وجود وہ عظیم پیشن گوئی رہی جو آئن سٹائن نے کبھی نہیں کی۔ آئن سٹائن کی اپنی مساوات جو اسے بتانے کی کوشش کر رہی تھی کہ ہم ایک ساکن کائنات کے بجائے متحرک، پھیلتی ہوئی کائنات میں رہ رہے ہیں وہ تمام فلکیات دانوں کے لئے دیکھنا سادہ سی بات تھی۔ آئن سٹائن نے بعد میں لمبڈا کی اصطلاح کو متعارف کروانا ' اپنی زندگی کی عظیم غلطی' قرار دیا؛ تاہم 1917ء میں جو بھی کائنات کی ماہیت کا مطالعہ کرتا اس کے لئے اس طرح کی غلطی نہ کرنا کافی مشکل کام تھا۔ نظریہ مشاہدات سے آگے چلتا رہا اور تب ہی ہوا جب ہبل اور ہماسن نے ہمیں دکھایا کہ ہم ایک پھیلتی ہوئی کائنات میں رہتے ہیں - آئن سٹائن کی کائنات - جس کو عمومی اضافیت نے اپنی ٹھیک جگہ پر رکھا اور مکمل کائنات کی ابتداء اور ارتقاء کے بارے میں بیان کیا۔
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: آئن سٹائن کی کائنات -حصّہ دوم Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top