Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    ہفتہ، 1 اکتوبر، 2016

    آئن سٹائن کے نظریات - حصّہ سوم


    عمومی نظریہ سب سے بڑھ کر قوّت ثقل کا نظریہ تھا۔ تقریباً خصوصی نظریہ اضافیت کے آنے کے نصف اور عمومی نظریہ اضافیت کی مکمل اشاعت کے بعد، آئن سٹائن نے انالین ڈر فزک میں 1911ء میں ایک اور مقالہ شایع کیا جس نے دکھایا کہ کس طرح سے اس کا دماغ قوّت ثقل کے نظریے پر کام کر رہا ہے۔ اس کا عنوان تھا 'روشنی کے انتشار پر قوّت ثقل کا اثر'، ہرچند کہ اس میں نئی ان دیکھی چیزوں کے بجائے آدھا سچ اور قیاسات شامل تھے اس کے باوجود اس نے نئی راہ دکھائی اور وہ معصومانہ سوالات اٹھائے جنہوں نے کائنات کی سچائی کی گہرائی کو ظاہر کیا۔ آئن سٹائن اس جگہ پھنس گیا تھا جہاں قوّت ثقل نا صرف ایک گرتے ہوئے جسم سے بلکہ تمام کی تمام سے بعینہ اسی طرح سے زائل ہو جاتی ہے۔ گلیلیو نے اس جانب اشارہ دیا تھا کہ قطع نظر کہ ان کا وزن کیا ہے وہ تمام اجسام ایک ہی شرح سے گرتے ہیں ؛ نیوٹن نے اس علم کا فائدہ اٹھا کر اپنے قوانین حرکت کو ترتیب دیا۔ نیوٹن کی مشہور تین قوانین میں سے ایک کہتا ہے کہ کسی بھی جسم پر قوت کا اثر اسرع کو پیدا کرنے کے لئے اس کی کمیت کے تناسب سے ہوتا ہے۔ اور قوت ثقل کی جسامت کسی جسم پر بھی اس کی کمیت کے تناسب سے ہوتی ہے۔ لہٰذا کمیت زائل ہو جاتی ہے اور تمام اجسام ایک ہی شرح سے گرتے ہیں۔ 


    آئن سٹائن جب روشنی کی کرن کے پیچھے آدمی کو دوڑتے ہوئے نہیں سوچ رہا تھا، اس وقت لگتا تھا کہ اس نے ایک دوسرے آدمی کے بارے میں کافی سوچا (اور شاید کہ یہ وہی ایک آدمی تھا؟) جو ایک گرتے ہوئے بالا بر میں پھنس گیا تھا جس کی تار ٹوٹ گئی تھی۔ یہ آئن سٹائن کا حیرت کا طریقہ تھا جس میں چیزیں اس وقت برتاؤ کرتی تھیں جب وہ قوت ثقل کے زیر اثر گرتی ہیں۔ گرتے ہوئے بالابر کے اندر ہر چیز ایک ہی شرح سے گرتی ہے اور کوئی اضافی حرکت نہیں ہوتی۔ بالابر کے اندر موجود آدمی تیرے گا، مکمل طور پر بے وزن ہو کر اس قابل ہو گا کہ اپنے آپ کو دیوار سے دیوار یا فرش سے چھت تک بغیر کسی مشکل کے آسانی سے دھکیل سکے۔ بے شک ہم سب نے تصاویر میں خلا نوردوں کو خلائی جہاز کے اندر اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے ؛ وہ اسی وجہ سے ایسا کر سکتے ہیں، وہ تمام کے تمام 'بلا روک ٹوٹ' قوّت ثقل کے زیر اثر ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ زمین کے گرد مدار ایک منضبط گرنے کی ایک مخصوص قسم ہے۔ تاہم آئن سٹائن کو یہ تمام باتیں تصور کرنی تھیں جو ہم ٹیلی ویژن پر دیکھ چکے ہیں۔ ایک پنسل گرتے ہوئے بالابر میں ہوا کے درمیان بے وزن ہو جاتی ہے ؛ مائع نکلنے سے منع کر دیتا ہے اور گول کرے کی شکل میں نکلتا ہے، علی ہذا القیاس۔ گرتے ہوئے بالابر کے اندر (یا خلائی جہاز میں ) وہ نیوٹن کے ان قوانین کی اطاعت کرتے ہیں جن کو ہم نے اسکول میں پڑھا تھا - وہ ایک خط مستقیم پر مستقل سمتی رفتار سے حرکت کرتے ہیں تاوقتیکہ ان پر کسی قسم کی قوّت نہیں لگائی جائے۔ گرتے ہوئے بالابر کے باہر کی دنیا میں چیزیں قوت ثقل کی وجہ سے مختلف ہوتی ہیں۔ آئن سٹائن کی ذہانت نے وہ اہم نکات دیکھ لئے تھے جنھیں تمام لوگوں نے چھوڑ دیا تھا۔ اگر گرتے ہوئے بالابر کی اسرع درستگی کے ساتھ قوّت ثقل کو زائل کر دے، جیسا کہ وہ کرتی ہے، تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ قوت اور اسرع دونوں ایک دوسرے کے برابر ہیں۔ 

    ایسا کیوں ہے کہ یہ ایک اہم بصیرت ہے؟ فرض کریں کہ بالابر کو اب ایک تصوراتی بڑی طبیعیات کی تجربہ گاہ سے بدل گئی ہے، جس میں کوئی کھڑکی نہیں ہے۔ تجربہ گاہ زمین کی سطح پر رکھی ہوئی ہے، اور اس کے اندر طبیعیات دان یہ پیمائش کر رہے ہیں کہ کس طرح سے چیزیں گرتی ہیں اور قوت ثقل پر کام کر رہے ہیں۔ اب تصور کریں کہ تجربہ گاہ خلاء میں تیر رہی ہے۔ طبیعیات دانوں کو اس بات کو جاننے میں کوئی دقت نہیں ہو گی کہ وہ بلا روک ٹوک جیسی جگہ میں ہیں۔ تاہم اس وقت کیا ہو گا جب تجربہ گاہ کو ایک متواتر قوّت سے دھکا دیا جائے گا، بعینہ اسی طرح مضبوط جیسے کہ زمین کی سطح پر قوّت ثقل ہوتی ہے تاہم یہ اوپری سمت میں ہو گی تجربہ گاہ کی چھت و فرش کی ترتیب میں ؟ تجربہ گاہ میں ہر چیز فرش پر گرے گی بعینہ جس طرح ہوائی جہاز کے مسافر اس کے اڑتے وقت اپنی نشستوں پر بیٹھے ہوتے ہیں۔ یہ دباؤ جلد ہی اس وقت ختم ہو جاتا ہے جب جہاز ایک مستقل رفتار پکڑ لیتا ہے۔ تاہم ہماری تصوراتی تجربہ گاہ میں نیچے کی قوّت اس وقت تک ثابت قدم رہے گی جب تک تجربہ گاہ اوپر کی طرف اسرع پذیر ہو گی۔ طبیعیات دان یہ تمام تجربہ دہرا سکتے ہیں اور وہی نتائج حاصل کریں گے جو ان کو نیچے ساکن زمین پر تجربہ گاہ میں ملے ہوں گے۔ کوئی بھی ایسا ذریعہ نہیں ہو گا جو ان کو یہ بتائے کہ آیا تجربہ گاہ قوت ثقل کے میدان میں ساکن ہے یا اوپر کی طرف اسراع پذیر ہے۔ قوّت ثقل اور اسراع برابر ہے۔
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: آئن سٹائن کے نظریات - حصّہ سوم Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top