Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    جمعرات، 20 اکتوبر، 2016

    گمشدہ رشتے دار

    کوٹھڑی میں ڈھانچہ 


    ہومو سیپئین یعنی موجودہ انسان نے ایک اور حیرت انگیز  راز اپنے سینے میں چھپا کر رکھا ہے۔ وہ راز کیا ہے؟ آپ کو یہ جان کر شاید شدید حیرت کا جھٹکا لگے کہ ہمارے یعنی موجودہ انسان کے  نہ صرف کئی غیر مہذب چچا زاد موجود رہے ہیں بلکہ ماضی میں کسی وقت ہمارے کافی بہن اور بھائی بھی تھے (یہاں پر یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ یہ انسانی چچا زاد اور بہن بھائی ہمارے عام طور پر سمجھے جانے والے چچا زاد اور بہن بھائیوں سے بالکل مختلف تھے کیونکہ ان کا ڈی این اے ہم سے الگ تھا)۔ ہم اپنے بارے میں سمجھتے تھے کہ ہم ہی صرف انسان ہیں کیونکہ پچھلے 10,000 ہزار برس سے صرف ہماری نوع ہی حقیقت میں وہ انسانی نوع تھی جو باقی رہی۔ پھر بھی لفظ انسان کے حقیقی معنی، 'جنس ہومو سے تعلق رکھنے والا ایک جانور ہے ' اور ہومو سیپئین کے ساتھ اس جنس کی کئی اور انواع بھی تھیں۔ مزید براں جیسا کہ ہم کتاب کے آخری باب میں دیکھیں گے کہ اب کچھ زیادہ عرصہ نہیں رہا کہ  ہم ایک مرتبہ پھر غیر سیپئین انسانوں کے لئے حجت پیش کریں گے۔ اس نقطہ کو واضح کرنے کے لئے میں اکثر 'سیپئین' کی اصطلاح نوع ہومو سیپئین کی اراکین کو بتانے کے لئے استعمال کروں گا جبکہ اصطلاح 'انسان' نوع ہومو کے تمام اب تک موجود اراکین کے لئے کروں گا۔ 

    انسان سب سے پہلے مشرقی افریقہ میں لگ بھگ 2 کروڑ 50 لاکھ برس پہلے بوزنہ کی ابتدائی جنس سے نکلے جو آسٹرل اوپتھیکس کہلائے جس کا مطلب 'جنوبی بوزنہ' ہے۔ لگ بھگ 20 لاکھ برس پہلے ان قدیم آدمیوں اور عورتوں میں سے کچھ نے اپنا گھر چھوڑ دیا تاکہ شمالی افریقہ، یورپ اور ایشیا کے وسیع علاقے میں سفر کر کے آباد ہو جائیں۔ کیونکہ شمالی یورپ کے برفیلے جنگلوں میں زندہ رہنے کے لئے ان خصوصیات سے کہیں مختلف خصائص کی ضرورت ہوتی ہے جو انڈونیشیا کے دھواں دار جنگلوں میں زندہ رہنے کے لئے درکار ہوتے ہیں، انسانی آبادی مختلف سمتوں میں ارتقاء پذیر ہوئی۔ نتیجہ مختلف انواع کی صورت میں نکلا، جن میں سے ہر ایک کو سائنس دانوں نے شاندار لاطینی نام دیا۔ 

    2۔ قیاسی تشکیل نو کے مطابق ہمارے بہن بھائی (بائیں سے دائیں )

    ہومو روڈولفنسس (مشرقی افریقہ)؛ ہومو اریکٹس (مشرقی ایشیا)؛ اور ہومو نیندرتھل (یورپ اور مغربی ایشیا)۔ سب کے سب انسان ہیں۔ 

    یورپ اور مغربی ایشیا میں انسان ہومو نیندرتھل ('نیندر وادی کے انسان') میں ارتقاء پذیر ہوئے جو عمومی طور پر 'نیندرتھل' سے مشہور ہیں۔ نیندرتھل ہم انسانوں سے زیادہ توانا اور مضبوط تھے اور تمام کے تمام نے مغربی یوریشیا کے برفیلے دور کی سرد آب و ہوا سے اچھی طرح ہم آہنگی اختیار کر لی تھی۔ ایشیا کے زیادہ تر مشرقی علاقے ہومو ایرکٹس سے آباد تھے 'کھڑا ہوا آدمی' جو وہاں تقریباً 20 لاکھ برس تک باقی رہا یوں یہ انسانوں میں اب تک سب سے زیادہ دیر پا رہنے والا  ہے۔ اس ریکارڈ کو ہماری اپنی انواع بھی توڑتی نظر نہیں آتی۔ یہ بات غیر یقینی ہے کہ آیا ہومو سیپئین آج سے ایک ہزار برس بعد بھی موجود ہوں گے یا نہیں ، لہٰذا 20 لاکھ برس تو واقعی ہمارے بس سے باہر کی چیز ہے۔ 

    جاوا کے جزیرے پر، انڈونیشیا میں، رہنے والے ہومو سولونیسس، 'سولو وادی کا آدمی' حارہ کے علاقے میں رہنے کے لئے موزوں تھے۔ ایک اور انڈونیشیا کے جزیرے - فلورس کے چھوٹے جزیرہ پر - قدیمی انسان بونے بننے کے عمل سے گزرے۔ انسان فلورس پر سب سے پہلے اس وقت پہنچے جب سمندروں کی سطح غیر معمولی طور پر کم تھی اور جزیرے پر خشکی سے رسائی کافی آسان تھی۔ جب سمندر دوبارہ بلند ہوا تو کچھ لوگ جزیرے پر پھنس گئے جہاں پر وسائل کی کمی تھی۔ بڑے لوگ جن کو خوراک کی زیادہ ضرورت تھی وہ پہلے مرے۔ چھوٹے ساتھی زیادہ بہتر طور پر بچ گئے۔ کئی نسلوں کے گزرنے کے بعد فلورس کے لوگ بونے بن گئے۔ یہ منفرد نوع جس کو سائنس دان ہومو فلورسنس سے جانتے ہیں ان کا زیادہ سے زیادہ قد ایک میٹر تک تھا اور وزن بیس کلوگرام سے زیادہ نہیں تھا۔ اس کے باوجود وہ پتھر کے اوزار بنانے کے قابل تھے بلکہ کبھی کبھار جزیرے کے کچھ ہاتھیوں کو بھی شکار کرنے کی سبیل پیدا کر لیتے تھے۔ اگرچہ منصفانہ بات تو یہ ہے کہ ہاتھی بھی بونی انواع ہی کے تھے۔ 

    2010ء میں ایک اور گمشدہ بھائی کو اس وقت گمنامی سے بچایا گیا تھا جب سائبیریا میں واقع ڈینیسووا غار کھودنے والی سائنس دانوں نے ایک حجری انگلی کی ہڈی دریافت کی۔ جینیاتی تجزیہ نے ثابت کیا کہ انگلی کا تعلق پہلے سے نامعلوم انسانی نوع کی ہے جس کا نام ہومو ڈینیسووا رکھا گیا۔ کون جانتا ہے کہ اور کتنے ہماری رشتے دار دوسرے جزیروں پر غاروں اور زمین کے خطوں میں دریافت ہونے کے منتظر ہوں۔ 

    اگرچہ یہ انسان یورپ اور ایشیا میں ارتقاء پذیر ہوئے، مشرقی افریقہ میں ارتقاء رکا نہیں تھا۔ انسانیت کے گہوارے نے متعدد نئی انواع کی پرورش کرنا جاری رکھی جیسا کہ ہومو روڈولفنیسس، 'جھیل روڈولف کا آدمی'، ہومو ایرگسٹر، 'مزدور آدمی' اور آخر میں ہماری اپنی نوع جس کو ہم دھڑلے سے ہومو سیپئین کا نام دیتے ہیں، یعنی 'دانش مند آدمی'۔ 

    ان انواع کے اراکین میں سے کچھ جسیم تھے جبکہ دوسرے بونے۔ کچھ خوفناک شکاری تھے جبکہ دوسرے حلیم پودوں کو جمع کرنے والے۔ کچھ صرف ایک ہی جزیرے پر رہے جبکہ کچھ براعظموں میں گھومتے رہے۔ تاہم ان میں سے سب ایک ہی جنس ہومو سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ سب کے سب انسان تھے۔ 

    یہ ایک عام مغالطہ ہے کہ ان انواع کو ایک ترتیب میں سیدھے براہ راست شجرہ نسب میں دیکھا جائے، جس میں ایرگسٹر ایرکٹس کو پیدا کریں، ایرکٹس نیندرتھل کو اور نیندرتھل ہم میں ارتقاء پذیر ہوں۔ یہ نسبی نمونہ غلط تاثر دیتا ہے کہ کسی بھی ایک معین لمحے میں صرف زمین پر ایک ہی قسم کے انسان رہائش پذیر تھے اور دوسرے تمام انواع صرف ہمارے پرانے نمونے ہی تھے۔ سچ یہ ہے کہ 20 لاکھ برس قبل سے لے کر 10,000 برس پہلے تک، زمین ایک ہی وقت میں کئی مختلف انسانی انواع کا گھر تھی ۔ اور کیوں نہ ہوتی؟ آج بھی لومڑیوں، ریچھ اور خنزیروں کی کئی انواع موجود ہیں۔ سو ہزار برسوں پہلے کی زمین ایسی تھی جہاں کم از کم انسانوں کی چھ مختلف انواع موجود تھیں۔ یہ کثیر انواع کا ماضی نہیں بلکہ ہمارا اختصاص ہے کہ یہ غیر معمولی بات ہے - اور شاید مورد الزام ٹھہرانا ہے۔ جیسا کہ ہم جلد ہی دیکھیں گے کہ ہم سیپئین کے پاس اپنے بھائیوں کو بھلانے کی یادداشت کی اچھی وجوہات ہیں۔
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: گمشدہ رشتے دار Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top