انسانی اانواع کے آپس کے کئی جسمانی اختلافات کے باوجود ان سب میں کئی مشترک واضح خصوصیات موجود رہی ہیں۔ خاص طور پر تمام انسانوں کا دماغ دوسرے جانداروں کے مقابلے میں غیر معمولی بڑا رہا ہے۔ وہ ممالئے جن کا وزن ساٹھ کلوگرام کا ہوتا ہے ان کے دماغ کا اوسط حجم 200 مکعب سینٹی میٹر ہوتا ہے۔ 25 لاکھ برس پہلے قدیم ترین خواتین و مرد کا دماغ 600 مکعب سینٹی میٹر کے آس پاس تھا۔ جدید سیپئین کا اوسط دماغ 12,00-14,00 مکعب سینٹی میٹر ہوتا ہے۔ نیندرتھل کا دماغ اس سے بھی بڑا تھا۔
ہم بس یوں ہی فرض کرلیتے ہیں کہ ارتقاء نے بڑے دماغ کا چناؤ ایسے ہی کر لیا ہو گا۔ ہم اپنی اعلیٰ ذکاوت کے اتنے گرویدہ ہیں کہ ہم سمجھتے ہیں کہ جب دماغی طاقت کی بات آتی ہے تو اس کا زیادہ بڑا ہونا ہی بہتر ہوتا ہے۔ تاہم یہ بات شاید درست نہیں کیونکہ اگر یہ بات درست ہوتی تو بلی کے خاندان کے جانور ایسی بلیاں پیدا کر سکتے جو حساب کرنے کے قابل ہوتیں۔ ایسا کیوں ہے کہ جانداروں کی تمام سلطنت میں واحد انسان ہی ہے جو دماغ جیسی ضخیم سوچنے کی مشین کے ساتھ آیا ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ ایک بڑا دماغ جسم کو زیادہ نچوڑتا ہے۔ بڑے دماغ کا بوجھ اٹھانا کوئی آسان کام نہیں ہے خاص طور پر جب یہ ایک ضخیم کھوپڑی کے اندر ملفوف ہو۔ بڑے دماغ کے لئے جسم کو ایندھن فراہم کرنا بھی مشکل ہوتا ہے۔ ہومو سیپئین میں دماغ کل جسم کے وزن کا 2-3 فیصد ہوتا ہے تاہم جب جسم آرام کر رہا ہوتا ہے تو یہ جسم کی 25 فیصد توانائی استعمال کرتا ہے۔ اگر ہم اس توانائی کا موازنہ دوسرے بوزنوں کے دماغ سے کریں جو ان کا دماغ حالت سکون کے وقت استعمال کرتا ہے تو وہ صرف 8 فیصد ہے۔ قدیمی انسانوں نے اپنے بڑے دماغ کے لئے دو طرح سے قیمت چکائی ۔ سب سے پہلے، انہوں نے خوراک کی تلاش میں زیادہ وقت صرف کیا۔ ثانیاً، ان کے پٹھے لاغر ہو گئے۔ جس طرح سے حکومت دفاع سے تعلیم کی طرف سرمایہ منتقل کرتی ہے، انسان توانائی کو پٹھوں سے اعصاب کی طرف موڑتے ہیں۔ سوانا میں جینے کے لئے یہ ایک اچھی حکمت عملی تھی۔ ایک چمپانزی کسی ہومو سیپئین سے دلیل میں نہیں جیت سکتا تاہم طاقت ور بوزنہ انسان کی ایسی دھجیاں بکھیر سکتا ہے جیسے وہ کپڑے کی گڑیا ہو۔
آج ہمارا بڑا دماغ اچھا نفع دے رہا ہے کیونکہ ہم گاڑیاں اور بندوقیں بنا سکتے ہیں جو ہمیں چمپانزی سے سے تیز بھاگنے اور ان سے ہا تھا پائی کرنے کے بجائے مناسب فاصلے پر رہتے ہوئے گولی مارنے کے قابل بناتی ہیں۔ تاہم گاڑیاں اور بندوقیں حالیہ مظہر ہیں۔ 20 لاکھ برسوں سے زائد عرصے میں انسانی اعصابی نظام بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے تاہم چند چاقو اور نوک دار چھڑیوں کو چھوڑ کر انسانوں نے اس سے کوئی خاص کام نہیں لیا تھا۔
اگر یہ بات درست ہے تو آخر پھر وہ کون سی چیز ہے جس نے ان 20 لاکھ برسوں میں ضخیم انسانی دماغ کے ارتقاء کو آگے بڑھایا؟ سچ کہوں تو، ہم نہیں جانتے کہ ایسا کیوں ہوا۔
ایک اور واحد انسانی خصلت یہ ہے کہ ہم دو ٹانگوں پر کھڑا ہو کر چلتے ہیں۔ کھڑے ہوکر سوانا میں دشمنوں کی تلاش کرنا آسان تھا، کھڑے ہونے کا ایک اور فائدہ یہ تھا کہ بازو دوسرے مقاصد کے استعمال لئے آزاد ہوتے تھے مثلاً بازوں سے پتھروں کو پھینکا جاسکتا تھا اور یہ اشارے دینے میں استعمال ہوسکتے تھے۔ جتنا زیادہ کام یہ ہاتھ کر سکتے اتنا ہی زیادہ کامیاب اس کا مالک ہوتا، لہٰذا بڑھتے ہوئے اعصاب کے ارتکاز اور ہتھیلیوں اور انگلیوں کے پٹھوں پر ارتقائی دباؤ تھا۔ نتیجتاً انسان اپنے ہاتھوں سے بہت ہی پیچیدہ کام خاص طور پر زیادہ پیچیدہ اوزار بنا کر استعمال کر سکتے تھے۔ اولین اوزار کے بنانے کا ثبوت لگ بھگ 25 لاکھ برس قبل کا ہے، اور اوزاروں کا بنانا اور ان کا استعمال ہی وہ معیار ہے جس سے ماہرین آثار قدیمہ قدیمی انسانوں کی شناخت کرتے ہیں۔
اس کے باوجود کھڑے ہو کر چلنے کے اپنے نقصانات بھی ہیں۔ ہمارے قدیم اجداد کے ڈھانچوں کو بننے میں کئی لاکھ برس لگے تاکہ یہ ڈھانچے ایک ایسی مخلوق کو سہارا دے سکیں جو چاروں پاؤں پر چلتی تھی اور جس کا سر نسبتاً چھوٹا تھا۔ سیدھا کھڑا ہونا کافی مشکل کام تھا، خاص طور پر اس وقت جب ڈھانچے کو ایک اضافی بڑی کھوپڑی کو اٹھانا تھا۔ بنی نوع انسان نے اپنی اس رعب دار نگاہ اور محنتی ہاتھوں کے لئے کمر درد اور اکڑی گردن کی مصیبت اٹھائی۔
خواتین نے اضافی مصیبت سہی۔ کھڑے ہو کر چلنے کے لئے تنگ کولہوں کی ضرورت تھی، پیدائشی نالی کو بھینچنا تھا - اور یہ تب اس وقت ہو رہا تھا جب بچے کا سر بڑے سے بڑا ہو رہا تھا۔ بچے کی پیدائش میں موت انسانی عورتوں کے لئے ایک اہم خطرہ بن گیا تھا۔ وہ عورتیں جنھوں نے اس وقت بچے پیدا کئے جب شیر خوار کا دماغ اور سر نسبتاً چھوٹا اور لچک دار تھا، وہ فائدے میں رہیں اور زیادہ بچے پیدا کرنے کے لئے جئیں۔ نتیجتاً قدرتی چناؤ نے قبل از وقت پیدائش کا ساتھ دیا۔ اور یقیناً دوسرے جانداروں کے برعکس انسان قبل از وقت پیدا ہوتے ہیں۔ پیدا ہونے کے بعد ان کے کئی اہم اعضاء بننے کے عمل سے گزر رہے ہوتے ہیں۔ ایک گھوڑے کا بچہ پیدا ہونے کے بعد جلد ہی چلنے لگتا ہے، بلی کے بچے اپنی خوراک کی تلاش کرنے کے لئے اپنی ماں کو اس وقت چھوڑ دیتے ہیں جب وہ چند ہفتوں کے ہوتے ہیں۔ انسانی بچے بے بس ہوتے ہیں، رزق، حفاظت اور تعلیم کے لئے کافی برسوں تک اپنے بڑوں پر انحصار کرتے ہیں۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں