کھانا پکانے کی دوڑ
انسانی تاریخ میں انسان کی ترقی کے زینے پر چڑھنے کا ایک اہم قدم آگ کا گھریلو استعمال تھا۔ کچھ انسانی انواع 800,000 برس قبل تک آگ کا استعمال شاذونادر کر لیتی تھیں۔ تقریباً 300,000 سال پہلے ہومو ایرکٹس، نیندرتھل اور ہومو سیپئین کے جد امجد آگ کا روزانہ استعمال کرتے تھے۔ آگ کے استعمال کو سیکھنے کے بعد اب انسانوں کے پاس نا صرف قابل اعتماد روشنی اور حرارت کا ذریعہ میسر ہوگیا تھا بلکہ وہ اس کو آوارہ شیروں کے خلاف ایک مہلک ہتھیار کے طور پر استعمال کرسکتے تھے۔ آگ کے استعمال کو سیکھنے کے بعد جلد ہی انسان نے اپنے آس پاس کی جگہوں پر جان بوجھ کر آگ لگانی شروع کر دی۔ وہ بنجر گنجان جھاڑیوں میں آگ اس طرح سے لگاتے کہ اس میں موجود شکار کے لئے چراہ گاہوں میں سے گزر کر بھاگنا مشکل ہوجاتا تھا ۔ پھر جب آگ بجھ جاتی تو پتھر کے دور کے مہم کار انسان آگ کی بجھی ہوئی باقیات میں چل کر سینکے ہوئے جانور، گری، اورآلو پیاز کو حاصل کرتے تھے۔
تاہم آگ کا جو سب سے زیادہ بہترین استعمال تھا وس اس کا کھانے کو پکانے میں تھا۔ایسی خوراک جو انسان اپنی قدرتی شکل میں ہضم نہیں کر سکتے تھے - جیسا کہ گندم، چاول، آلو - وہ ہماری خوراک کی اہم جنس بن گئے اور ایسا کھانے کو پکانے کی قابلیت حاصل کرنے کی وجہ سے ہوا۔ آگ نے نہ صرف خوراک کی کیمیا کو بدل دیا بلکہ اس نے اس کی حیاتیات کو بھی بدل دیا۔ پکانے سے خوراک میں بکثرت موجود جراثیم اور طفیلئے مر جاتے تھے۔ انسانوں کو بھی ان کے پسندیدہ پھل، گریاں، کیڑے اور مردار چبانے اور ہضم کرنے کے لئے آسانی ہوتی بشرطیکہ وہ پکے ہوئے ہوتے۔ اب اگر ہم کھانے کے لئے درکار وقت کا دوسرے جانوروں سے مقابلہ کریں تو چمپانزی ایک دن میں پانچ گھنٹے خام خوراک کو چبانے کے لئے استعمال کرتے ہیں، جبکہ انسانوں کے لئے ایک گھنٹہ کھانا پکانے کے لئے کافی ہوتا تھا۔
کھانا پکانے کی ابتداء نے انسانوں کو مزید اقسام کی غذا کو کھانے کے قابل بنایا، کھانے کے لئے کم وقت دینا پڑا، اور چھوٹے دانتوں اور چھوٹی آنتوں سے یہ کام کیا جانے لگا۔ بعض اہل علم سمجھتے ہیں کہ کھانا پکانے کے آغاز کا ، انسانی آنت کی نالی کے مختصر ہونے اور انسانی دماغ کی بڑھوتری میں براہ راست تعلق ہے۔ وہ ایسا اس لئے سمجھتے ہیں کیونکہ بڑی آنت اور بڑا دماغ دونوں کافی توانائی استعمال کرتے ہیں لہٰذا دونوں کو ایک ساتھ رکھنا مشکل کام تھا۔ آنتوں کو مختصر کر کے ان کی توانائی کے استعمال کو کم کر کے کھانے پکانے کی انسانی قابلیت نے نادانستہ طور پر نیندرتھل اور سیپئین کے بڑے دماغ کے ارتقاء کی طرف راہ ہموار کردی تھی۔
آگ نے انسان اور دوسرے جانداروں کے درمیان پہلی اہم خلیج کھولی دی تھی۔ تمام جانداروں کی طاقت کا انحصار ان کے جسموں پر ہوتا ہے: ان کے پٹھوں کی طاقت، ان کے دانتوں کا حجم، ان کے پروں کی چوڑائی۔ اگرچہ وہ ہواؤں اور رو کی طاقت کا استعمال کر سکتے ہیں تاہم وہ ان قدرتی قوتوں کو قابو کرنے کے قابل نہیں ہوتے، اور ہمیشہ سے ان جانوروں کی طبیعی حدود رہی ہیں۔ مثال کے طور پر چیلیں زمین سے اٹھتے ہوئے حرارتی ستونوں کی شناخت تو کر سکتی ہیں، اور اپنے دیوہیکل پروں کو پھیلا کر گرم ہوا کو اپنے آپ کو اوپر اٹھانے میں استعمال کرتی ہیں۔ اس کے باوجود چیلیں ستونوں کے مقام کو اپنی مرضی سے نہیں بنا سکتیں، اور ان کی زیادہ سے زیادہ اڑنے کی حد سختی کے ساتھ ان کے پروں کے پھیلاؤ کے نسبت ہوتی ہے۔
جب انسانوں نے آگ کو گھریلو بنا لیا تو ان کے پاس ایک فرمانبردار اور امکانی طور پر لامحدود قوت قابو میں آ گئی۔ چیلوں کے برعکس انسان چناؤ کر سکتے ہیں کہ کب اور کہاں آگ کو لگانا ہے، اور وہ آگ کا استعمال کئی طرح کے کاموں کے لئے بھی کر سکتے ہیں۔ سب سے اہم بات آگ کی طاقت صورت، ساخت اور انسانی جسم کی طاقت سے محدود نہیں ہے۔ ایک اکلوتی عورت ماچس کی تیلی کے ساتھ چند گھنٹوں میں پورے جنگل کو جلا سکتی ہے۔ آگ کا گھریلو استعمال آنے والی چیزوں کا نقیب تھا۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں