150,000 برس قبل تک آگ سے بیش بہا فوائد حاصل کرنے کے باوجود انسان ادنی سی مخلوق تھے۔ اگرچہ آگ کے استعمال کے بعد سے انہوں نے شیروں سے ڈرنا چھوڑ دیا تھا۔ انہوں نے سرد راتوں میں اپنے آپ کو گرم رکھنا اور کبھی کبھار جنگل کو بھی آگ لگانی سیکھ لی تھی۔ اس کے باوجود اگر تمام انواع کو آپس میں ملا لیا بھی جائے تب بھی انڈونیشیائی بحرالجزائر اور آئبیریائی جزیرہ نما کے درمیان دس لاکھ سے زائد انسان اس وقت روئے زمین پر نہیں رہتے تھے۔ انسانوں کی یہ کل تعداد ماحولیاتی ریڈار پر محض ایک معمولی سے نقطے سے زیادہ اہمیت کی حامل نہیں تھی۔
ہماری اپنی نوع ہومو سیپئین دنیا کی سیج پر پہلے ہی سے موجود تھی، تاہم اس وقت تک وہ افریقہ کے ایک کونے میں اپنے کام سے کام رکھے ہوئے تھی۔ ہم مکمل طور پر نہیں جانتے کہ کب اور کہاں پہلی مرتبہ ابتدائی انسانوں کی قسم سے ارتقاء پذیر ہو کر کچھ جاندار ہومو سیپئین میں زمرہ بند ہوئے، تاہم زیادہ تر سائنس دان اس بات پر متفق ہیں کہ150,000سال پہلے، مشرقی افریقہ بھی سیپئین سے آباد تھا جو بالکل ہمارے جیسے ہی دکھائی دیتے تھے۔ اگر ان میں سے کوئی ایک جدید مردہ خانے میں نکل آئے تو مقامی ماہر امراضیات کو ان کو دور حاضر کے انسانوں سے کچھ خاص الگ نہیں سمجھیں گے۔ سیپئین کو آگ کی نعمت کا شکریہ ادا کرنا چاہئے کیوںکہ ان کے دانت اور جبڑے اپنے اجداد کے مقابلے میں چھوٹے تھے جبکہ ضخیم دماغ ہمارے برابر کا تھا۔
سائنس دان اس امر پر بھی متفق ہیں کہ کچھ 70,000 برس پہلے مشرقی افریقہ سے سیپئین جزیرہ نما عرب میں پھیلے اور وہاں سے تیزی کے ساتھ وہ پورے یوریشیا کے خطے میں پھیل گئے۔
جب ہومو سیپئین عرب پہنچے تو اس وقت تک زیادہ تر یوریشا میں دوسرے انسان آباد تھے۔ اب ایک سوال اٹھتا ہے کہ انسانوں کی اس دوسری نوع کا کیا ہوا؟ اس سوال کا جواب دینے کے لئے ماہرین یہاں پر دو متضاد نظریات بیان کرتے ہیں۔
'باہمی انسال کا نظریہ' (Interbreeding Theory) باہمی کشش، جنس اور مخلوط ہونے کی کہانی سناتا ہے۔ جب افریقی مہاجر دنیا میں پھیلے تو انہوں نے دوسرے انسانوں کے ساتھ میلاپ کیا اور آج جو انسان موجود ہیں وہ اس باہمی انسال کا نتیجہ ہیں۔
مثال کے طور پر جب سیپئین مشرق وسطیٰ اور یورپ پہنچے تو ان کا سامنا نیندرتھل سے ہوا۔ یہ سیپئین سے زیادہ مضبوط، بڑے دماغ والے تھے۔ ان کے جسم ٹھنڈے علاقے میں رہنے کے لئے بہتر طور پر ڈھل گئے تھے۔ وہ اوزار اور آگ کا استعمال کرتے، اچھے شکاری تھے اور بظاہر اپنے بیماروں اور زخمیوں کی تیمار داری بھی کرتے تھے۔ (آثار قدیمہ کے ماہرین نے نیندرتھل کی ہڈیاں دریافت کی ہیں جو کئی برس تک شدید معذوری کے ساتھ زندہ رہے، یہ ہڈیاں اس امر کا ثبوت پیش کرتی ہیں کہ وہ اپنے رشتے داروں کی دیکھ بھال کرتے تھے۔ ) نیندرتھل کو اکثر مضحکہ خیز تصاویر میں غیر مہذب اور بے وقوف 'غار کے لوگوں ' کے طور پر دکھایا جاتا ہے، تاہم حالیہ ثبوتوں نے اس تصور کو تبدیل کر دیا ہے۔
باہمی انسال کے نظریے کے مطابق جب سیپئین نیندرتھل کے علاقے میں پھیل گئے تو سیپئین نے نیندرتھل کے ساتھ اس وقت تک ملاپ جاری رکھا جب تک دونوں آبادیاں شیر و شکر نہیں ہوگئیں۔ اگر یہ بات درست ہے تو آج کے یوریشیائی خالص سیپئین نہیں ہیں۔ وہ سیپئین اور نیندرتھل کا مرکب ہیں۔ اسی طرح جب سیپئین مشرقی ایشیا پہنچے تو انہوں نے وہاں کے مقامی ایرکٹس کے ساتھ ملاپ کیا، اس طرح سے چینی اور کوریائی سیپئین اور ایرکٹس کا ملغوبہ ہیں۔
دوسرا مخالف نظریہ 'استبدالی نظریہ' (Replacement Theory)کہلاتا ہے۔ یہ نظریہ ایک بہت ہی مختلف غیر مطابقت پذیری، نفرت بلکہ شاید نسل کشی کی کہانی سناتا ہے۔ اس نظریئے کے مطابق سیپئین اور دوسرے انسانوں کی مختلف ڈیل ڈول تھی اور امکان ہے کہ ان کا آپس میں ملاپ کا رجحان نہیں تھا بلکہ ان کے جسم کی بو تک مختلف تھی۔ ان میں آپس میں اگر کوئی جنسی دلچسپی تھی تو وہ بہت ہی تھوڑی تھی۔ بلکہ اگر نیندرتھل رومیو اور سیپئین جولیٹ عشق میں گرفتار بھی ہو جاتے تو وہ بار آور بچے پیدا نہیں کر سکتے تھے، کیونکہ دونوں آبادیوں کے درمیان جو جنیاتی خلیج تھی وہ پہلے ہی ناقابل رابطہ ہو گئی تھی۔ دونوں آبادیاں مکمل طور پر الگ رہیں، اور جب نیندرتھل مر گئے، یا مار دیئے گئے تو ان کے ساتھ ہی ان کے جین مر گئے۔ اس نظریے کے مطابق، سیپئین نے پچھلے تمام انسانوں سے ضم ہوئے بغیر ان کی جگہ لے لی تھی۔ اگر ایسی بات ہے، تو تمام جدید انسانوں کا شجرے کا اولین سراغ لگایا جا سکتا ہے، خصوصی طور پر مشرقی افریقہ میں 70,000 برس پہلے تک کا۔ ہم سب 'خالص سیپئین' ہیں۔
نقشہ 1۔ ہومو سیپئین نے دنیا کو فتح کر لیا۔
اس نظریے میں بہت سے مسائل ہیں۔ ایک تو ارتقائی نقطہ نگاہ سے 70,000 برس نسبتاً مختصر دورانیہ ہے۔ اگر جانشینی کا نظریہ درست ہے، تو تمام زندہ انسانوں کا ایک ہی جینیاتی اسباب ہو گا اور ان کے درمیان نسلی امتیاز نہ ہونے کے برابر ہونا چاہئے۔ تاہم اگر باہمی انسال کا نظریہ درست ہے تو ہو سکتا ہے کہ افریقی، یورپی اور ایشیائی لوگوں میں جینیاتی تفریق ہو گی جو ہزار ہا برس پیچھے تک گئی ہو گی۔ یہ ایک سیاسی دھماکہ ہے جو نسلی نظریات کو اڑانے کے لئے مواد فراہم کرتا ہے۔
حالیہ دہائیوں میں جانشینی کا نظریہ میدان میں عام علم ہے۔ اس کے پیچھے مضبوط آثاریاتی تائید ہے، اور یہ نظریہ زیادہ سیاسی طور پر درست ہے (سائنس دانوں کی کوئی خواہش نہیں ہے کہ نسلی امتیاز کے پینڈورا باکس کو یہ دعویٰ کر کے کھولیں کہ جدید انسانی آبادی میں کافی جینیاتی تنوع ہے)۔ تاہم اس کا خاتمہ 2010ء میں ہو گیا جب چار سال کی محنت کا نتیجہ نیندرتھل کی لونیت کا نقشہ شائع ہونے کی صورت میں نکلا۔ ماہرین جینیات رکازات سے سالم نیندرتھل کے ڈی این اے کو حاصل کرنے کے قابل ہو گئے تھے تاکہ اس کے اور جدید انسانوں کے ڈی این اے میں ایک واضح تقابل کر سکیں۔ اس سے حاصل کردہ نتائج نے سائنسی برادری کو دنگ کر دیا۔
یہ معلوم ہوا کہ 1-4 فیصد مشرقی وسطیٰ اور یورپ کی جدید آبادی کے منفرد انسانی ڈی این اے، نیندرتھل کے ڈی این اے پر مشتمل ہے۔ یہ کوئی بڑی مقدار نہیں ہے تاہم معنی خیز ضرور ہے۔ ایک دوسرا جھٹکا کئی ماہ بعد آیا جب ڈینیسووا کی رکازی انگلی سے حاصل کردہ ڈی این اے کا نقشہ بنایا۔ نتائج سے ثابت ہوا کہ جدید میلنیشیائی اور اصل النسل آسٹریلوی کا منفرد ڈی این اے ڈینیسوانی ہے۔
اہم بات یہ مد نظر رکھنے کی ہے کہ مزید تحقیق جاری ہے اور یا تو اس کی تصدیق ہو جائے گی یا ان نتائج کو تبدیل کیا جائے گا تاہم اگر یہ نتائج درست ہیں تو باہمی انسالیوں نے کم از کم کچھ معلومات کو درست حاصل کیا ہے۔ تاہم اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جانشینی کا نظریہ مکمل طور پر غلط ہے۔ کیونکہ نیندرتھل اور ڈینیسوان دور حاضر کے ہمارے لونیت میں بہت ہی تھوڑی سی مقدار کی شراکت کرتے ہیں، لہٰذا سیپئین اور دوسری انسانی انواع کے 'انضمام' کے بارے میں بات کرنا ناممکن ہے۔ اگرچہ ان کے درمیان فرق اتنا نہیں ہے کہ مکمل طور پر بارآور مجامعت کو ہونے سے روک دے تاہم اتنے تو ضرور تھے کہ شاذونادر اس طرح کے روابط کر سکیں۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں