Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    منگل، 4 اکتوبر، 2016

    کیا آپ جانتے ہیں کہ ہمارے آنسو کیسے اور کیوں بنتے ہیں؟

    دیکھئے کہ کس طرح سے وقت کے آغاز سے ہی ہمارے آنسو ہماری حفاظت میں مدد گار ثابت ہوتے رہیں ہیں 


    چاہے کوئی غمگین فلم ہو، خوشی کا ملاپ ہو یا آپ نے میز پر اپنا گھٹنا خود سے مارا ہو، ہر کوئی اپنی زندگی کے کسی نہ کسی موقع پر رویا ضرور ہوتا ہے۔ 

    لیکن ہم آخر روتے ہی کیوں ہیں؟ اس وجہ کو بیان کرنے کے لئے ایک نظریہ موجود ہے جس کی جڑیں سیدھی ماضی میں ہمارے ارتقاء سے پہلے کے دنوں تک جاتی ہیں، اس وقت آنسو ہماری قدیمی آنکھوں سے بہتے اور ہماری دھندلی آنکھیں اپنے مخالف کو نقصان نہ پہنچانے اور اس کے آگے ہتھیار ڈالنے کا اشارہ ہوتی تھیں۔ 

    تاہم دور حاضر میں سائنس بتاتی ہے کہ رونے کی کافی زیادہ ٹھوس حیاتیاتی وجوہات موجود ہیں۔ 

    اضطراری آنسو وہ ہوتے ہیں جو دھواں یا کٹی ہوئی پیاز سے نکلنے والا سلفینک ایسڈ کی وجہ سے آپ کی آنکھ سے آنسو کو بہانے کا سبب بنتے ہیں۔ جب آپ روتے ہیں تو آپ کے قرنیہ کے حساس عصبانیے دماغ کو اشارہ بھیج کر بتاتے ہیں کہ آپ کی آنکھوں کو حفاظت کی ضرورت ہے۔ دماغ پھر پپوٹے کے پیچھے واقع اشکی غدودوں میں ہارمونز کو جاری کرتا ہے، جو حفاظتی تہ کے طور پر آنسو پیدا کرتے ہیں اور پھر خراش آور کو بہا دیتے ہیں۔ بہرحال رونے کی زیادہ عام صورت جذباتی قسم ہے۔ جب شدید جذبات امنڈتے ہیں - چاہئے خوشی، غم یا تکلیف سے – تو دماغ کا بالائی حصّہ آگاہ ہوتا ہے کہ آپ اس کی وجہ سے شدید جذباتی رد عمل سے گزر رہے ہیں۔ اینڈوکرائن نظام ہارمونز کے جوڑے کا اجراء اشکی غدود میں کرتا، جو آنکھ میں مائع رطوبت نکالتا ہے۔ اضافی پانی ناک سے آنسو کی نالی کے ذریعے نکلتا ہے۔ آنسوں کی تحقیق بتاتی ہے کہ جذباتی رونے کی وجہ حیاتی کیمیا ہے۔ 

    اگرچہ اضطراری آنسو 98 فیصد پانی پر ہوتے ہیں، تاہم جذباتی آنسوؤں میں، آرڈینوکورٹیکوٹروپک ہارمونز جو دباؤ کے وقت موجود ہوتے ہیں اور لیوسین اینکیفلین، جو ایک درونی افیون ہوتا ہے جو درد کو دور بھگاتا اور آپ کی طبیعت کو خوشگوار بناتا ہے ،سمیت کئی کیمیائی عنصر ہوتے ہیں۔ لہٰذا ایسا لگتا ہے کہ شدید جذباتی لمحات کے دوران جسم میں جمع ہونے والے ہارمونز اور سم کا اخراج رونے کے ذریعہ ہوتا ہے۔ 

    صنفی مقابلہ 

    اگرچہ یہ ایک دقیانوسی بات ہے کہ عورتیں مردوں سے زیادہ روتی ہیں، تاہم وجوہات کی کچھ سائنسی وضاحت کی جا سکتی ہے۔ تحقیق بتاتی ہے کہ عورتیں مردوں کے مقابلے میں چار گنا زیادہ روتی ہیں، اور اگرچہ ثقافتی پہلوؤں کو بھی مد نظر رکھنا ہو گا تاہم اس کے حیاتیاتی عوامل بھی ہیں۔ 

    آغاز شباب تک، لڑکے اور لڑکیاں دونوں برابر روتے ہیں۔ جب ٹیسٹوسٹیرون کی سطح لڑکوں میں بڑھتی ہے تو ان کے غصے میں آنے کا امکان پریشان ہونے کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔ دریں اثناء، جب لڑکیوں میں ہارمُون اوسٹراڈیول کی سطح زیادہ ہوتی ہے تو یہ درونی افیونی پیداوار کو تبدیل کر دیتی ہے، اس کا نتیجہ اکثر مشتعل ہونے کے بجائے جذباتی ہونے کی صورت میں نکلتا ہے۔ 

    تاہم ادھیڑ عمری تک پہنچنے میں، آدمیوں اور عورتوں کے ہارمُون اوسٹراڈیول توازن میں آ جاتے ہیں، اور جب بات جب رونے کی آئے تو ایک بار پھر دونوں اصناف برابری کی سطح پر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ 


    کیا آپ جانتے ہیں؟

    ایک اوسط شخص اپنی آنکھوں کو نم کرنے کے لئے 140-280 گرام (5-10 اونس) بنیادی آنسو پیدا کرتا ہے ۔ 

    آنسوؤں کے لعاب کے بارے میں پانچ اہم حقائق 


    1 ۔بہتی ناک 

    جب آپ روتے ہیں تو آپ کی ناک بہنا شروع کر دیتی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ جو اضافی آنسو آپ کی آنکھ سے نکلتے ہیں وہ ناک کے ذریعہ نکلتے ہیں جس سے آپ کی ناک سڑ سڑ کرتی ہے۔ 

    2۔ ہش!! چھوٹے بچے 

    بچے عام طور پر دن میں لگ بھگ ایک سے تین مرتبہ روتے ہیں۔ اس کی کافی وجوہات ہو سکتی ہیں، وہ بھوکے، پیاسے، تھکے ہوئے، خوفزدہ یا پاخانہ کئے ہوئے ہو سکتے ہیں ۔ 

    3 ۔پیاز سے نکلنے والے آنسو 

    کٹی ہوئی پیاز سے سین پرو پینی تھیل ایس آکسائڈ نامی خامرہ پیدا ہوتا ہے۔ جب یہ اڑ جاتا ہے، تب یہ مرکب ہمارے اشکی غدودوں کو مشتعل کرتے ہیں اور اس کو سکون میں لانے کے لئے آنسوں نکلتے ہیں۔ 

    4۔ مگرمچھ کے آنسو

    اگرچہ مگرمچھ شکار کئے ہوئے کھانے کو کھاتے وقت اداس لگتے ہیں، تاہم وہ اداس ہوتے نہیں ہیں۔ جب وہ پانی سے باہر وقت گزارتے ہیں تو آنسو صرف ان کی آنکھوں میں روغن لگانے کے کام آتے ہیں ۔ 

    5۔ ڈارون کی دریافت

    ایک حالت 'جذباتی تحمل کا فقدان' (پی بی اے ) کہلاتی ہے جس میں لوگ بے قابو طور پر روتے یا ہنستے ہیں۔ سب سے پہلے چارلس ڈارون نے اس حالت کو بیان کیا تھا یہ اکثر دماغی چوٹ کا نتیجہ ہوتی ہے۔
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: کیا آپ جانتے ہیں کہ ہمارے آنسو کیسے اور کیوں بنتے ہیں؟ Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top