دوسرا قدم: قدرتی طور پر پائے جانے والے ثقب کرم (ورم ہول )اور سفید شگافوں (وائٹ ہول) کی تلاش
ثقب کرم (ورم ہول)، جہتی گزرگاہیں (ڈائمینشن پورٹل)، کونیاتی دھاگے (کاسمک اسٹرنگ ) شاید قدرتی طور پر خلائے بسیط میں موجود ہوں۔ بگ بینگ کے وقت جب عظیم مقدار میں توانائی کائنات میں امڈ رہی تھی، ثقب کرم اور کونیاتی دھاگے قدرتی طور پر بن سکتے تھے۔ شروع کی کائنات کے افراط پذیر ہونے کی وجہ سے شاید یہ ثقب کرم پھیل کر حجم میں کلاں ہو گئے ہوں۔ مزید براں ایک امکان یہ بھی ہے کہ اجنبی مادّہ یا منفی مادّہ قدرتی طور پر خلائے بسیط میں موجود ہوگا۔ اس سے شاندار طور پر اس کوشش میں مدد ملے گی جس میں مرتی ہوئی کائنات کو چھوڑا جا رہا ہوگا۔ بہرصورت اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ ایسا کوئی جسم قدرتی طور پر وجود بھی رکھتا ہو۔ کسی نے ابھی تک کوئی بھی ایسا جسم نہیں دیکھا، اور تمام ذی شعور حیات کے مقدر کو اس طرح کے قیاس پر چھوڑنا کافی خطرے کی بات ہوگی۔
مزید براں اس بات کا امکان بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ افلاک کی چھان بین کرتے ہوئے "سفید شگاف" کو بھی پانا ممکن ہے۔ ایک سفید شگاف آئن سٹائن کی مساوات کا وہ حل ہے جہاں وقت الٹے دھارے میں بہتا ہے، اس طرح سے سفید شگاف سے اجسام اس طرح سے نکلتے ہیں جس طرح سیاہ شگاف ان کو غڑپ کر لیتے ہیں۔ ایک سفید شگاف کو سیاہ شگاف کے دوسرے کنارے پر پایا جا سکتا ہے، اس طرح سے مادّہ جو بلیک ہولز یا سیاہ شگافوں میں داخل ہوتا ہے وہ بالآخر دوسری طرف سے سفید شگاف سے نکل آتا ہے۔ اب تک ہونے والی تمام فلکیاتی تحقیق میں سفید شگاف کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے ، تاہم ان کا وجود کے اثبات یا ارتداد اگلی نسل کی خلائی سراغ رسانوں کے ذریعہ ہی ہو سکے گا۔
تیسرا قدم: بلیک ہول کے اندر سے کھوجی کو بھیجا جائے
کسی بھی بلیک ہول کے بطور ثقب کرم کرنے کے استعمال کے زبردست فائدے ہوں گے۔ جیسا کہ ہمیں معلوم ہو چکا ہے کہ بلیک ہولز کائنات میں کافی وافر مقدار میں موجود ہیں؛ اگر ہم متعدد تیکنیکی مسائل کو حل کر لیں، تو ان کو سنجیدگی کے ساتھ ہماری کوئی بھی ترقی یافتہ تہذیب کائنات سے فرار ہونے کے لئے استعمال کر سکتی ہے۔ بلیک ہول میں ہم پر کسی قسم کی قدغن نہیں لگی ہوگی کہ ہم وقت میں اس وقت سے پیچھے نہ جا سکیں جب ٹائم مشین بنی ہے۔' کر' کے چھلے کے مرکز میں موجود ثقب کرم ہماری کائنات کو شاید ایک بالکل مختلف کائنات سے جوڑ سکتا ہے یا ایک ہی کائنات کے مختلف حصّوں کو بھی آپس میں جوڑ سکتا ہے۔ اس کو معلوم کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ کسی کھوجی کو تجرباتی طور پر بھیجا جائے اور فوق کمپیوٹر کا استعمال کرکے کائنات میں موجود کمیت کی تقسیم کا حساب لگایا جائے اور ثقب کرم کے ذریعہ آئن سٹائن کی مساوات کے کوانٹم تصحیحات کا حساب لگایا جائے۔
فی الوقت تو زیادہ تر طبیعیات دان اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ بلیک ہول کے ذریعہ کرنے والا سفر انتہائی مہلک ہوگا۔ بہرحال بلیک ہول سے متعلق ہماری سمجھ بوجھ ابھی اپنے عہد طفلی میں ہے اور اس تصوّر کو کبھی جانچا ہی نہیں گیا۔ بحث کرنے کے لئے فرض کرتے ہیں کہ بلیک ہول کے ذریعہ سفر کرنا بالخصوص 'کر' کے گھومتے ہوئے بلیک ہول کے ذریعہ ممکن ہو سکتا ہے ۔ تب کوئی بھی ترقی یافتہ تہذیب بلیک ہول کے اندر جھانکنے کے لئے سنجیدہ کوشش کرے گی۔
کیونکہ بلیک ہول کے ذریعہ کیا جانے والا سفر یکطرفہ ہوتا ہے اور بلیک ہول کے قریب زبردست خطرات موجود ہوتے ہیں لہٰذا ایک ترقی یافتہ تہذیب کوشش کرے گی کہ کوئی قریبی نجمی بلیک ہول ڈھونڈے اور پہلے اس میں کسی کھوجی کو بھیجے۔ کھوجی سے واپس اہم اطلاعات اس وقت تک حاصل کی جا سکتی ہیں جب تک وہ واقعاتی افق کو پار نہ کرے اس کے بعد تمام روابط ضائع ہو جائیں گے۔ ( واقعاتی افق کو پار کرنے کا سفر بھی کافی مہلک ہوگا کیونکہ اس کے گرد شدید اشعاع موجود ہوں گی۔ بلیک ہول میں گرنے والی روشنی کی شعاعیں نیلی منتقلی کی طرف مائل ہوں گی اور مرکز سے قریب ہوتے ہوئے توانائی کو حاصل کرتی جائیں گی۔) کسی بھی کھوجی کو واقعاتی افق کے قریب بھیجنے سے پہلے مناسب طور پر اس اشعاع کی بوچھاڑ سے بچانے کے لئے حفاظتی ڈھال بنانا ہوگی۔ مزید براں اس سے بلیک ہول بذات خود غیر مستحکم ہو سکتا ہے اس طرح سے واقعاتی افق ہی وحدانیت میں بدل سکتی ہے اور یوں ثقب کرم بند ہو جائے گی۔ کھوجی ممکنہ طور پر درستگی سے اس بات کا تعین کر لے گا کہ واقعاتی افق کے پاس کس قدر اشعاع موجود ہے اور آیا ثقب کرم باوجود تمام وصول ہوتی توانائی کے مستحکم رہے گا بھی یا نہیں۔
کھوجی کے واقعاتی افق میں داخل ہونے سے پہلے وصول کردہ اطلاعات کو قریبی خلائی جہاز تک بھیجا جا سکتا ہے تاہم یہاں ایک اور مسئلہ موجود ہے۔ کسی بھی ایسی خلائی جہاز پر موجود بیٹھے ہوئے شاہد کے لئے کھوجی جوں جوں واقعاتی افق کے قریب پہنچے گا وہ وقت میں آہستہ ہوتا ہوا لگے گا۔ جب وہ واقعاتی افق میں داخل ہوگا تو حقیقت میں تو کھوجی وقت میں رکا ہوا لگے گا۔ اس مسئلہ کا حل نکالنے کے لئے کھوجی کو اطلاعات واقعاتی افق سے کچھ دور مخصوص فاصلے سے دینی ہوگی ورنہ ریڈیائی اشارے اتنے بری طرح سے سرخ منتقلی کی جانب مائل ہوں گے کہ ان کی شناخت کرنا ممکن نہ ہوگا۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں