Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    جمعرات، 13 اکتوبر، 2016

    کائنات سے فرار کا چھٹا قدم

    چھٹا قدم: عظیم الجثہ جوہری تصادم گر کی تخلیق 

    غیر محدود جدید ٹیکنالوجی کی بدولت ہم کیسے ایک ایسی مشین بنا سکتے ہیں جو ہمیں کائنات سے فرار حاصل کرنے کے قابل بنا سکے؟ کس نقطہ پر ہم امید کر سکتے ہیں کہ ہم پلانک توانائی کی طاقت کو استعمال کر سکیں گے؟ تعریف کے لحاظ سے اس وقت تک جب کوئی تہذیب جماعت سوم کا رتبہ حاصل کرے وہ پہلے ہی پلانک کی توانائی سے کام لینے کے قابل ہو چکی ہوگی۔ سائنس دان اس قابل ہوں گے کہ ثقب کرم سے کھلواڑ کر سکیں اور زمان و مکان میں شگاف کو کھولنے کے لئے توانائی کو جمع کر سکیں۔

    کئی طریقے ایسے ہیں جس کے ذریعہ کوئی بھی ترقی یافتہ تہذیب اس کو حاصل کر سکتی ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا ہے، ہماری کائنات ایک متوازی کائنات کے ساتھ جھلی کی طرح ہے جو ہم سے محض ایک ملی میٹر کے فاصلے پر اضافی خلاء میں تیر رہی ہے۔ اگر ایسا ہے تب لارج ہیڈرون کولائیڈر اس کا سراغ کچھ برسوں کے اندر لگا لے گا۔ اس وقت تک جب ہم جماعت اوّل کی تہذیب کی منزل کی طرف گامزن ہوں گے، شاید ہمارے پاس وہ ٹیکنالوجی دستیاب ہوں کہ ہم اس طرح کی پڑوسی کائناتوں کی نوعیت کو جان سکیں۔ لہٰذا متوازی کائناتوں سے رابطہ کرنا ہوئی بہت زیادہ دور کی کوڑی نہیں رہے گی۔

    تاہم چلیں ہم ایک بری صورتحال کو فرض کئے لیتے ہیں کہ وہ توانائی جس پر کوانٹم کے ثقلی اثرات رونما ہوں گے وہ پلانک توانائی ہے جو ایل ایچ سی کی توانائی سے ایک پدم گنا زیادہ ہے۔ پلانک توانائی کو حاصل کرنے کے لئے کسی جماعت سوم کی تہذیب کو ایک نجمی پیمانے کا جوہری تصادم گر درکار ہوگا۔ ایک جوہری تصادم گر یا ذرّاتی اسراع گر میں ذیلی جوہری ذرّات ایک تنگ سرنگ میں سفر کرتے ہیں۔ جب توانائی سرنگ میں ڈالی جاتی ہے، ذرّات بلند توانائی پر اسراع حاصل کرتے ہیں۔ اگر ہم ذرّات کا راستہ ایک بڑے دائرے میں موڑنے کے لئے عظیم الجثہ مقناطیس کو استعمال کریں تب ذرّات کو کھرب ہا الیکٹران وولٹ توانائی تک اسراع دیا جا سکتا ہے۔ جتنا دائرے کا نصف قطر بڑا ہوگا اتنی ہی زیادہ توانائی ہوگی۔ ایل ایچ سی کا نصف قطر 27 کلومیٹر ہے جو کسی تہذیب 0.7 کی جماعت کی آخری حد ہوگی۔

    تاہم جماعت سوم کی تہذیب کے لئے یہ ممکن ہوگا کہ کوئی جوہری تصادم گر نظام شمسی کے حجم کا یا نجمی نظام کے پیمانے پر بنا سکے۔ یہ کافی معقول بات لگتی ہے کہ کوئی جدید تہذیب ذیلی جوہری ذرّات کی کرن کو خلائے بسیط میں پھینکنے کے قابل ہو اور ان کو پلانک توانائی کے پیمانے پر اسراع دے دے۔ ہم ایک بار پھر یاد دلاتے چلیں کہ نئی نسل کے لیزر ذرّاتی اسراع گر کی بدولت چند عشروں کے اندر ہی طبیعیات دان میز پر رکھے ہوئے اسراع گروں کے ذریعہ 200 ارب الیکٹران وولٹ کی توانائی ایک میٹر کے فاصلے تک حاصل کر لیں گے۔ ان میز پر رکھے جانے والے اسراع گروں کو ایک کے اوپر ایک رکھ کر یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ وہ توانائی حاصل کر سکیں گے جس سے زمان و مکان میں خلل پر جاتا ہے۔

    اگر ہم فرض کریں کہ مستقبل کے اسراع گر ذرّات کو صرف 200 ارب الیکٹران وولٹ فی میٹر افزودہ کر دیں ، جو ایک کافی محتاط اندازہ ہے، تو ہمیں ایک 10 نوری برس لمبا ذرّاتی اسراع گر درکار ہوگا تاکہ ہم پلانک توانائی تک پہنچ سکیں۔ ہرچند کہ یہ جماعت اوّل و دوم کی تہذیب کے لئے بہت ممکن ہوگا تاہم یہ جماعت سوم کی تہذیب کی پہنچ میں ہو سکتا ہے۔ اس طرح کا کوئی عظیم الجثہ جوہری تصادم گر بنانے کے لئے جماعت سوم کی تہذیب کرن کو شاید کسی دائروی راستے پر موڑے گی تاکہ جگہ کی بچت ہو یا پھر راستے کو قریبی ستارے سے آگے جانے دے گی۔ مثال کے طور پر کوئی ایک ایسا جوہری تصادم گر بنا سکتا ہے جو ذیلی جوہری ذرّات کو سیارچوں کی پٹی کے ساتھ ایک دائروی راستے کے اندر پھینکے۔ آپ کو کسی مہنگے دائروی سرنگ کے ٹکڑے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ کیونکہ خلاء کی خالی جگہ زمین پر خالی جگہ بنانے سے زیادہ بہتر ہے۔ تاہم آپ کو عظیم الجثہ مقناطیس بنانے ہوں گے اور ان کو مسلسل ہر تھوڑے فاصلے پر نظام شمسی میں موجود مہتابوں اور سیارچوں یا پھر کافی سارے نجمی نظاموں پر لگانا ہوگا جو وقتاً فوقتاً کرن کو موڑا کریں گے۔ جب کرن کسی مہتاب یا سیارچے کے قریب آئے گی تو مہتاب پر رکھے ہوئے مقناطیس کھینچ کر اس کی سمت کو ہلکا سے تبدیل کر دیں گے۔ (مہتابوں یا سیارچوں کو کو تواتر کے ساتھ کرن کو دوبارہ ٹھیک کرنا ہوگا کیونکہ کرن جس قدر فاصلہ طے کرے گی وہ بتدریج دور ہوتی جائے گی۔) کیونکہ کرن کافی مہتابوں تک کا سفر کرے گی یہ بتدریج ایک قوس کی شکل بنا لے گی۔ بالآخر کرن ایک دائرے کی شکل میں سفر کر لے گی۔ دو کرنوں کا تصوّر کیا جا سکتا ہے ایک گھڑی کی سمت نظام شمسی میں سفر کرے گی تو دوسری اس کی مخالف سمت میں۔ جب دونوں کرنیں آپس میں ٹکرائیں گی، تو جو توانائی مادّے اور ضد مادّے سے نکلے گی وہ پلانک توانائی کی سطح کی ہوگی۔ (حساب لگایا جا سکتا ہے کہ اس طرح کی طاقتور کرن کو موڑنے کے لئے درکار مقناطیسی میدان آج کی ٹیکنالوجی سے کہیں زیادہ بڑھ کر ہے۔ بہرحال یہ قرین قیاس ہے کہ ایک ترقی یافتہ تہذیب دھماکے دار چیزوں کا استعمال کرکے توانائی میں زبردست اضافہ کرکے لچھوں کے ذریعہ عظیم الجثہ مقناطیسی ضربیں بنا سکتی ہے۔ یہ عظیم الشان توانائی کی بوچھاڑ ایک مرتبہ ہی چھوڑی جا سکتی ہے کیونکہ یہ لچھے کو توانائی چھوڑنے کے ساتھ ہی تباہ کر دے گی، لہٰذا مقناطیسوں کو ذرّاتی کرن کے واپس پہنچنے سے پہلے متواتر بدلنا ہوگا۔) 

    اس طرح کے جوہری تصادم گر کو بنانے کی راہ میں ہولناک انجینئرنگ کے مسائل کے علاوہ ایک نازک سوال موجود ہے کہ آیا ذرّاتی کرن کی کوئی توانائی کی حد موجود ہے یا نہیں۔ کوئی بھی توانا ذرّات کی کرن بالآخر فوٹون کے ساتھ جا ٹکرائے گی جس سے پس منظر کی اشعاع -2.7 ڈگری درجہ حرارت کی بنے گی جس سے وہ توانائی کو ضائع کرے گی۔ نظری طور پر حقیقت میں کرن سے اس طرح سے اتنی زیادہ توانائی ضائع ہو جائے گی کہ لازمی طور پر کوئی حتمی حد اس توانائی کے لئے ہونی چاہئے جس کو ہم اس طریقے سے بیرونی خلاء میں حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ نتائج تجرباتی طور پر ابھی تک جانچے نہیں گئے ہیں۔ (حقیقت میں اس طرح کے کچھ اشارے ملے ہیں کہ ایسی توانا کائناتی اشعاعی تصادموں میں نکلنے والی توانائی زیادہ سے زیادہ توانائی کی حد کو پار کر لے گی اور یوں پورے عمل پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔)

    بہرحال اگر ایسا ہے تو مزید آلے میں تبدیلی کرنے کے لئے مزید خرچہ درکار ہوگا۔ پہلے تو ہمیں منفی 2.7 ڈگری کی کرن کو خالی سرنگ میں حفاظتی خول کے ساتھ رکھنا ہوگا تاکہ پس منظر کی اشعاع کا درجہ حرارت منفی 2.7 تک نہ پہنچ جائے۔ یا اگر تجربات مستقبل بعید میں کئے گئے تو یہ ممکن ہوگا کہ پس منظر کی اشعاع اتنی چھوٹی ہوگی کہ اس کو آسانی کے ساتھ نظر انداز کر دیا جا سکتا ہوگا۔
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: کائنات سے فرار کا چھٹا قدم Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top