ساتواں قدم: در دھماکہ کا طریقہ کار بنانا
ایک دوسرے آلے کا بھی تصوّر کیا جا سکتا ہے جو لیزر کی کرنوں اور ایک در دھماکہ کی میکانیات کی بنیاد پر بنایا جا سکتا ہے۔ قدرت میں زبردست درجہ حرارت اور دباؤ در دھماکہ سے حاصل کئے جا سکتے ہیں جس طرح سے ایک مرتا ہوا ستارہ قوّت ثقل کے زیر اثر یکایک منہدم ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قوّت ثقل کشش رکھتی ہے اور چیزوں کو دفع نہیں کرتی اس طرح سے یکساں طور پر منہدم کسی چیز کو کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح سے ستارہ ناقابل تصوّر کثافت میں دب جاتا ہے۔ در دھماکے کا طریقے کو زمین پر پیدا کرنا کافی مشکل ہے۔ مثال کے طور پر ہائیڈروجن کے بم کو سوئس گھڑی کی طرح بنایا جاتا ہے تاکہ ثقیل لیتھیم جو ہائیڈروجن بم کا اہم جز ہوتا ہے اس کو کروڑ ہا ڈگری تک دبا کر لاء سن کا معیار حاصل کیا جا سکے جہاں پر عمل گداخت شروع ہو سکے۔ (اس کو حاصل اس طرح کیا جاتا ہے کہ ثقیل لیتھیم کے پاس ایک جوہری بم کو پھاڑا جاتا ہے اور اس سے نکلنے والی ایکس ریز اشعاع کو ثقیل لیتھیم کے ٹکڑے کی سطح کے اوپر مرتکز کیا جاتا ہے۔) اس عمل میں بہرحال توانائی پھٹ کر نکلتی ہے اور اس کو قابو نہیں کیا جا سکتا۔
زمین پر مقناطیسوں کے استعمال سے کی گئی کوشش میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے جس میں افزودہ ہائیڈروجن گیس کو دبانے کی کوشش کی گئی تھی۔ کیونکہ ہم نے قدرتی طور پر کبھی بھی یک قطبی نہیں دیکھے اس لئے مقناطیسی میدان دو قطبی ہوتے ہیں، جس طرح سے زمین کے مقناطیسی میدان۔ نتیجتاً وہ خوفناک حد تک غیر یکساں ہوتے ہیں۔ ان کا استعمال کرکے کسی گیس کو دبانے ایسا ہی ہے جیسا کہ کسی غبارے کو دبانا۔ جب آپ ایک حصّے کو دباتے ہیں دو غبارے کا دوسرا حصّہ پھول جاتا ہے۔
ایک اور دوسرا طریقہ عمل گداخت کا لیزر کی شعاعوں کی فوج ہے جو کسی کرہ کی سطح پر ترتیب میں لگی ہوں تاکہ کرنوں کو شعاعی ترتیب میں مرکز میں موجود ایک ننھے ثقیل لیتھیم کے ٹکڑے پر مارا جا سکے۔ مثال کے طور پر ایک طاقتور لیزر/ گداختی آلہ نیوکلیائی ہتھیار کی نقل کرنے کے لئے لیورمور نیشنل لیبارٹری میں موجود ہے۔ یہ افقی انداز میں لیزر کی کرنوں کو ایک ترتیب سے ایک سرنگ میں پھینکتی ہے۔ تب سرنگ کے آخری کنارے پر لگے ہوئے آئینے احتیاط کے ساتھ ہر کرن کو منعکس کرتے ہیں تاکہ کرن براہ راست شعاعی ترتیب سے ننھے ٹکڑے پر پڑے۔ ٹکڑے کی سطح فی الفور تحلیل ہو جاتی ہے اور ٹکڑے کو در دھماکے سے منہدم کرتی ہے اور زبردست درجہ حرارت پیدا کرتی ہے۔ اس طرح سے اصل میں عمل گداخت اس ٹکڑے کے اندر دیکھا جا سکتا ہے (ہرچند کہ مشین اس توانائی سے کہیں زیادہ توانائی خرچ کرتی ہے جو وہ پیدا کرتی ہے لہٰذا تجارتی پیمانے پر یہ کارآمد نہیں ہے)۔
اسی طرح سے جماعت سوم کی تہذیب کے بارے میں تصوّر کیا جا سکتا ہے جو لیزر کی فوج ظفر موج سیارچوں اور مہتابوں پر مختلف نجمی نظاموں پر بنا رہی ہو۔ لیزر کی یہ فوج پھر ایک ساتھ داغی جائے گی جس سے طاقتور شعاعوں کا ایک سلسلہ نکلے گا جو ایک نقطہ پر مرکوز ہو کر وہ درجہ حرارت پیدا کرے گا جسے سے زمان و مکان میں خلل پر جائے گا۔
نظری طور پر کوئی توانائی کی مقدار کو لیزر کی شعاع میں ڈالنے کی حد موجود نہیں ہے۔ بہرحال عملی مسائل اپنی جگہ موجود ہیں جو شدید بلند طاقت والی لیزر کو بنانے میں حائل ہیں۔ ایک تو لیزنگ مادّے میں استحکام حاصل کرنے کا مسئلہ ہے جو اکثر بلند توانائی پر زیادہ گرم ہو کر چٹخ جاتا ہے۔ (اس کا حل لیزر کی اشعاع کو دھماکے سے حاصل کیا جا سکتا ہے جیسے کہ نیوکلیائی دھماکہ تاہم اس کا استعمال ایک مرتبہ ہی کیا جا سکے گا۔)
لیزر کے اس کرہ کی شعاعوں کو داغنے کا مقصد خانے کو گرم کرنا ہے تاکہ جھوٹا جوف اس کے اندر پیدا کیا جا سکے یا ایک در دھماکہ کرکے اور پلیٹ کے سیٹ کو دبا کر کیسمیر اثر کے ذریعہ منفی توانائی کو پیدا کیا جا سکے۔ اس طرح کے منفی توانائی کا آلہ بنانے کے لئے کروی پلیٹ کے جوڑے کو پلانک لمبائی میں دبانا ہوگا جو کہ 10-کی قوت نما 33 سینٹی میٹر ہے۔ کیونکہ جوہروں کو الگ کرنے والا فاصلہ 10-کی قوت نما 8 سینٹی میٹر ، جبکہ مرکزے میں نیوٹران اور پروٹون میں 10-کی قوت نما 13 سینٹی میٹر کا فاصلہ ہوتا ہے لہٰذا آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ان پلیٹوں کو دبانا کتنا زیادہ پڑے گا۔ کیونکہ لیزر کی کرن میں کل واٹ کی توانائی نظری طور پر لامحدود ہوتی ہے، اہم مسئلہ ایک ایسا آلہ بنانا ہے جو اس قدر مستحکم ہو کہ اس زبردست دبنے کو برداشت کر سکے۔
(کیونکہ کیسمیر اثر ان پلیٹوں کے درمیان خالص کشش پیدا کرے گا لہٰذا ہمیں ان پلیٹوں پر بار کو ڈالنا ہوگا تاکہ ان کو منہدم ہونے سے بچایا جا سکے۔) نظری طور پر ایک ثقب کرم ایک کروی خول کے اندر بن جائے گا جو ہماری مرتی ہوئی کائنات کو ایک نوجوان اور گرم کائنات سی جوڑ دے گا۔
#جہان_سائنس
#jahanescience
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں