Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    منگل، 18 اکتوبر، 2016

    کائنات سے فرار کا دسواں قدم



    دسواں قدم: کوانٹم تبدیلی کا انتظار کرنا 

    جیسا کہ ہم نے دسویں باب میں دیکھا تھا کہ ذی شعور ہستیاں کائنات کو ٹھنڈا ہوتے ہوئے بتدریج دیکھیں گے لہٰذا ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے سوچنے کے عمل کو سست کرکے لمبے عرصے کے لئے غنودگی میں چلی جائیں۔ سوچنے کے اس عمل کی شرح کو کم کرکے کھرب ہا کھرب برسوں تک جاری رکھا جا سکتا ہے۔ یہ اتنا وقت ہے کہ اس میں کوانٹم واقعات وقوع پذیر ہو سکتے ہیں۔ عام طور پر ہم خود سے پیدا ہونے والی بلبلہ کائنات کی تخلیق اور دوسرے کوانٹم کائناتوں میں تبدیلی کو رد کر دیتے ہیں کیونکہ یہ حد درجہ شاذونادر واقعات ہوتے ہیں۔

    بہرحال مرحلہ پانچ میں ذی شعور ہستیاں اس قدر آہستگی کے ساتھ سوچیں گی کہ ایسے کوانٹم واقعات نسبتاً زیادہ معمول کی چیزیں ہوں گی۔ ان کے اپنے نفسی وقت میں ان کے سوچنے کی شرح ان کے لئے مکمل طور پر عام ہوگی ہرچند کہ اصل وقت کا پیمانہ اس قدر لمبا ہوگا کہ کوانٹم واقعات معمول کے واقعات ہوں گے۔

    اگر ایسا ہوا تو ایسی ہستیوں کو صرف انتظار کرنا ہوگا تاوقتیکہ ثقب کرم ظاہر ہو اور کوانٹم تبدیلی وقوع پذیر ہو تاکہ وہ دوسری کائنات میں فرار ہو سکیں۔ (ہر چند ان ہستیوں کے لئے ایسے کوانٹم واقعات عام ہوں گے، ایک مسئلہ یہ ہے کہ اس طرح کے کوانٹم واقعات مکمل طور پر ناقابل پیش بین ہوں گے؛ دوسری کائنات میں منتقل ہونا اس وقت کافی مشکل ہوگا جب کسی کو معلوم ہی نہ ہو کہ دروازہ کب کھلے گا اور یہ ہمیں کہاں لے کر جائے گا۔ ان ہستیوں کو شاید کائنات کو چھوڑنے کا موقع ثقب کرم کے کھلتے ہی پکڑنا ہوگا اس سے پہلے ان کے پاس اس کے خصائص کو پوری طرح سے جانچنے کا موقع حاصل کرنا ہوگا۔) 


    گیارہواں قدم: آخری امید 

    فی الوقت فرض کریں کہ ثقب کرم اور بلیک ہولز سے متعلق تمام تجربات ناقابل تسخیر مسائل سے دوچار ہو چکے ہیں یعنی کہ صرف وہ ثقب کرم مستحکم ہے جو خرد پیمانے سے لے کر ذیلی جوہری پیمانے کے حجم تک ہے۔ فرض کریں کہ ثقب کرم سے کیا جانے والا ایک اصل سفر ایک محفوظ گاڑی میں بھی ہمارے اجسام پر ایک ناقابل برداشت دباؤ ڈالتا ہے۔ مختلف قسم کے مسائل جیسا کہ مدو جذر کی قوّتیں، اشعاعی میدان، آنے والا گرد و غبار مہلک ثابت ہوتا ہے۔ اگر ایسا کچھ ہوتا ہے تو کائنات میں موجود مستقبل کی ذہین مخلوق کے پاس صرف ایک ہی چیز باقی بچتی ہے: نئی کائنات میں اتنی اطلاعات کو بھیج دے کہ ثقب کرم کے دوسری طرف اپنے جیسی تہذیب بنا سکے۔

    قدرت میں جب حیاتیاتی اجسام نامہربان ماحول کا سامنا کرتے ہیں تو اکثر وہ زندہ رہنے کے لئے کافی اختراعی طریقے نکال لیتے ہیں۔ کچھ ممالیہ غنودگی طاری کر لیتے ہیں۔ کچھ مچھلی اور مینڈک ضد انجماد جیسے کیمیائی اجزاء اپنے جسم کے سیال میں گھماتے ہیں جو ان کو جمنے کے بعد بھی زندہ رکھتے ہیں۔ پھپھوند معدومیت سے فرار حاصل کرنے کے لئے تخمک میں بدل لیتی ہے۔ اسی طرح انسانوں کو کوئی طریقہ نکالنا ہوگا جس سے وہ اپنے جسمانی وجود کو دوسری کائنات کے سفر میں باقی رکھ سکیں۔

    شاہ بلوط کے درخت کے بارے میں سوچیں جو اپنے ننھے بیچ ہر سمت میں پھیلا دیتا ہے۔ یہ بیچ (الف) چھوٹے، سخت جان اور دبے ہوئے ہوتے ہیں؛ (ب) ان میں درخت کے تمام ڈی این اے کی اطلاعات موجود ہوتی ہیں؛ (ج) وہ اس طرح سے بنے ہوتے ہیں کہ اپنے مرکزی درخت سے کچھ فاصلہ تک کا سفر طے کر سکیں؛ (د) ان میں اتنی خوراک موجود ہوتی ہے کہ وہ دور دراز زمین تک پہنچ کر اپنی آبیاری کر سکیں؛ (ہ) وہ نئی زمین پر رہتے اور وہاں کی مٹی سے زرخیزی اور توانائی حاصل کرتے ہوئے اپنی جڑیں زمین میں گاڑھ لیتے ہیں۔ اسی طرح ایک تہذیب قدرت کی نقل آج سے ارب ہار برس بعد دستیاب ہونے والی جدید ترین نینو ٹیکنالوجی کے ذریعے اپنے بیچ ثقب کرم کے ذریعہ بھیج کر اپنی ہر اہم خاصیت کی نقل بنا سکتی ہے۔

    جیسا کہ اسٹیفن ہاکنگ نے کہا تھا، "ایسا لگتا ہے ۔۔۔۔۔ کہ کوانٹم نظریہ خرد پیمانے پر وقت میں سفر کی اجازت دیتا ہے۔" اگر ہاکنگ درست ہے، ترقی یافتہ تہذیب کے اراکین اپنی جسمانی ساخت کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کچھ ایسی چیز میں کر سکتے ہیں جو واپس وقت کے یا دوسری کائنات کے کٹھن سفر کو برداشت کر سکے، کاربن کو سلیکان کے ساتھ ضم کرکے ان کے شعور کو کم کرکے خالص اطلاعات تک لے آئیں۔ اپنے حتمی تجزیئے میں ہمارے کاربن سے بنے ہوئے جسم اس پیمانے کے سفر کی سختیوں کو جسمانی طور پر برداشت کرنے کے لئے کافی نازک ہیں۔ مستقبل بعید میں ہم اس قابل ہو سکتے ہیں کہ جدید ترقی یافتہ ڈی این اے انجینئرنگ ، نینو ٹیکنالوجی اور روبوٹک استعمال سے اپنے شعور کو اپنے روبوٹ کے ساتھ ضم کر سکیں۔ یہ آج کے معیار کے لحاظ سے کافی عجیب و غریب لگتا ہے تاہم آج سے مستقبل میں ارب ہا یا کھرب ہا برس بعد ایک تہذیب صرف یہی طریقہ اپنے بچے رہنے کا پائے گی۔

    ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے دماغ اور شخصیات کو براہ راست مشینوں میں ضم کر دیں۔ اس کو کئی طریقے سے کیا جا سکتا ہے۔ ایک ایسا پیچیدہ سافٹ ویئر پروگرام بنایا جا سکتا ہے جو اس قابل ہو کہ ہمارا تمام سوچنے کے عمل کی نقل کر سکے تاکہ اس کی شخصیت ہمارے مشابہ ہو۔ ایک زیادہ جرت مند پروگرام کے حق میں کارنیجی میلن یونیورسٹی کے ہانس موراویک ہیں۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ مستقبل بعید میں ہم اس قابل ہو سکیں گے کہ عصبانیے کی نقل کرتے ہوئے اپنے دماغ کی ساخت کو سلیکان ٹرانسسٹر پر منتقل کر سکیں۔ دماغ میں موجود ہر عصبانیے کا ربط اس کے مماثل ٹرانسسٹر سے بدل دیا جائے گا جو روبوٹ کے اندر اس عصبانیے کے فعل کی نقل سرانجام دے گا۔
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: کائنات سے فرار کا دسواں قدم Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top