کیونکہ مدو جذر کی قوّتیں اور شعاعی میدان کے انتہائی شدید ہونے کی امید ہے لہٰذا مستقبل کی تہذیب کو لازمی طور پر مطلق کم سے کم ایندھن ، حفاظتی ڈھال، اور ثقب کرم کے دوسری طرف اپنے جیسی نوع کو دوبارہ بنانے کے لئے ضروری خوراک لے کر جانی ہوگی۔ نینو ٹیکنالوجی کے استعمال سے یہ ممکن ہے کہ ایک خلیہ جتنی چوڑائی کی خرد پیمانے کی زنجیروں کو ثقب کرم کے اندر موجود آلے میں سے بھیجا جا سکے۔
اگر ثقب کرم ایک جوہر کے پیمانے جتنا کافی چھوٹا ہوگا تو سائنس دانوں کو انفرادی جوہروں سے مل کر بنی ہوئی بڑی نینو سرنگوں کو اتنی وسیع اطلاعات کی مقداروں کے ساتھ بھیجنا ہوگا جس سے دوسری طرف وہ پوری نوع کو دوبارہ سے بنا سکیں۔ اگر ثقب کرم صرف ذیل جوہری ذرّات کے حجم کا ہوگا تو سائنس دانوں کو مرکزے کو ثقب کرم سے بھیجنے کے لئے کوئی ایسا طریقہ استعمال کرنا ہوگا جو الیکٹران کو دوسری طرف سے پکڑ سکیں اور ان کو جوہروں میں سالموں میں ترتیب دے سکیں۔ اگر ثقب کرم اس سے بھی چھوٹا ہوا تو شاید چھوٹے طول موج کی ایکس ریز یا گیما شعاع سے بنی لیزر کی کرن کو پیچیدہ رمز کی صورت میں ثقب کرم کے ذریعہ وہ احکامات بھیجے جا سکتے ہیں جو یہ بتائیں کہ کس طرح سے دوسری طرف تہذیب کو دوبارہ سے بنایا جا سکتا ہے۔
اس طرح کی منتقلی کا مقصد ثقب کرم کے دوسری طرف خرد پیمانے کے "نینو روبوٹ" کو بنانا ہوگا جن کا کام مناسب ماحول کی تلاش ہوگا جس میں وہ ہماری تہذیب کو دوبارہ سے بنا سکیں۔ کیونکہ اس کو جوہری پیمانے پر بنانا جائے گا لہٰذا کسی موزوں سیارے کو ڈھونڈنے کے لئے کوئی بڑے افزودہ راکٹ یا بڑی مقدار میں ایندھن کی ضرورت نہیں ہوگی ۔ حقیقت میں یہ بغیر کسی مشکل کے روشنی کی رفتار کے قریب پہنچ سکتے ہیں کیونکہ برقی میدان کی مدد سے ذیلی جوہری ذرّات کو روشنی کی رفتار کے قریب پہنچانا نسبتاً آسان ہے۔ مزید براں اس کو حیات کو سہارا دینے کے لئے یا دوسرے بھدے آلات کی ضرورت نہیں پڑے گی کیونکہ نینو روبوٹ کی اصل تو اس نوع کو دوبارہ سے بنانے کی خالص اطلاعات ہوں گی۔
ایک مرتبہ نینو بوٹ نے ایک نیا سیارہ ڈھونڈ لیا تو وہ اس سیارے پر پہلے سے موجود مادّے کا استعمال کرتے ہوئے بڑی تعداد میں اپنی نقول تیار کرکے بڑی ہم شکل پیدا کرنے والی تجربہ گاہ بنا لے گا۔ ضروری ڈی این اے کے سلسلے اس تجربہ گاہ میں بنا کر ان کو خلیوں میں ڈال دیا جائے گا تاکہ پورے جانداروں اور آخر میں پوری نوع کے بنانے کا عمل شروع کیا جا سکے۔ تجربہ گاہ میں خلیات کو پورے بالغ ہستیوں میں ڈھالا جائے گا جن کے دماغوں میں یادداشت اور شخصیت اصل انسانوں کی ہو گی۔
ایک طرح سے یہ عمل ایک "انڈے کے خلیہ" میں اپنا ڈی این اے(جماعت سوم اور اس سے آگے کی تہذیب کی کل اطلاعات ) ڈالنے کے عمل کی طرح ہوگا جس میں جنیاتی احکام دوسری طرف موجود رحم کو بنانے کے لئے ہوگی۔ یہ بار آور انڈا چھوٹا، گھٹا ہوا اور حرکت کرنے کے قابل ہوگا اس کے باوجود اس میں جماعت سوم کی تہذیب کو مکمل دوبارہ سے بنانے کی صلاحیت موجود ہوگی۔
عام طور پر ایک انسانی خلیہ صرف 30 ہزار جین پر مشتمل ہوتا ہے جس میں 3 ارب ڈی این اے کے بنیادی جوڑے ہوتے ہیں تاہم یہ مختصر اطلاع کا ٹکڑا اس قابل ہوتا ہے کہ تخم سے باہر بیرونی(ماں سے حاصل کردہ خوراک کی بدولت) وسائل کا استعمال کرتے ہوئے پورا انسان بنا سکے ۔ اسی طرح سے کونیاتی انڈا صرف اس خالص اطلاعات پر مشتمل ہوگا جو جدید ترقی یافتہ تہذیب کو بنانے کے لئے درکار ہوگی؛ اس کام کرنے کے وسائل (خام مال، حل پذیر، دھاتیں وغیرہ ) دوسری طرف موجود ہوں گے۔ اس طرح سے ایک جدید تہذیب جس طرح کی جماعت سوم کیو ہے وہ اپنی ہولناک ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے شاید اس قابل ہو کہ ثقب کرم میں سے کافی اطلاعات (لگ بھگ 10^24بٹس) کو بھیج سکے جو اتنی ہوگی کہ دوسری طرف ان کی تہذیب کو دوبارہ بنا سکے۔
مجھے اجازت دیں کہ میں ہر اس قدم پر زور دے سکوں جس کا میں نے اس عمل کے دوران ذکر کیا ہے۔ آج کی ہماری قابلیت کے مقابلے میں یہ تمام باتیں سائنسی قصوں کی طرح ہیں۔ تاہم آج سے مستقبل میں ارب ہا برس بعد جماعت سوم کیو کی تہذیب کے لئے جو معدومیت کا شکار ہونے جا رہی ہوگی یہی راستہ اپنی بقا کا باقی بچتا ہے۔ بلاشبہ قوانین طبیعیات اور حیاتیات میں ابھی تک ایسا ہمیں کچھ معلوم نہیں ہے جو اس طرح کرنے سے روکے۔ میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ ہماری کائنات کی لامحالہ موت کا لازمی طور پر یہ مطلب نہیں ہے کہ اس کے ساتھ ذہانت کا بھی اختتام ہو جائے۔ بلاشبہ اگر ایک کائنات سے دوسری کائنات میں ذہانت منتقل کرنا ممکن ہے تو اس بات کا امکان موجود ہے کہ دوسری کائنات کی حیاتیاتی شکل جو اپنے عظیم انجماد کا سامنا کر رہی ہوگی ہماری اپنی کائنات کے کسی دور دراز علاقے میں بل کھودنے میں مصروف ہوگی جہاں زیادہ گرمی اور زیادہ مہربان ماحول موجود ہوگا۔
بالفاظ دیگر وحدتی میدانی نظریہ بجائے ایک فالتو چیز ثابت ہونے کے تجسس کے لئے کافی نفیس چیز ہے اور یہی حتمی طور پر کائنات میں موجود ذی شعور حیات کے نقش قدم کو بچانے میں اہم کردار ادا کرے گا۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں