(deja vu) ڈے ژا وو
کیا ہے (اردو میں)
ترجمہ : قدیر قریشی
آواز: اندر کشن
پیشکش: سائنس کی دنیا پراجیکٹس
کیا آپ کو کبھی ڈے ژا وو (deja vu) کا تجربہ ہوا ہے - یہ وہ موہوم سا احساس ہے کہ ہم اس جگہ پہلے بھی آ چکے ہیں – مثلاً آپ کسی ریسٹورانٹ میں جائیں اور آپ کو اچانک محسوس ہو کہ آپ کے ساتھ جو بھی ہورہا ہے وہ پہلے بھی ہوچکا ہے – لیکن یہ آپ کی یاد نہیں ہو سکتی کیونکہ آپ اس ریسٹورانٹ میں پہلی دفعہ جا رہے ہیں – آپ نے جو ڈش آرڈر کی ہے وہ بھی آپ نے پہلے کبھی آرڈر نہیں کی – یہ سب کیا ہے؟
ڈے ژا وو کی کوئی واحد وضاحت ممکن نہیں ہے – اس قسم کا تجربہ عموماً اچانک ہوتا ہے اور اس کا دورانیہ عموماً بہت کم ہوتا ہے جس کی وجہ سے سائنس دانوں کے لیے اس تجربے کو ریکارڈ کرنا اور اس کا تجزیہ کرنا ناممکن ہوتا ہے – سائنس دان سارا سارا دن لیبارٹری میں بیٹھ کر اس تجربے کا انتظار نہیں کر سکتے – ایسا کرنے میں ممکن ہے سالوں لگ جائیں – اس کی کوئی جسمانی علامات نہیں ہوتیں – لوگ اسے محض ایک احساس ہی بتلاتے ہیں – چونکہ اس کے سائنسی ثبوت موجود نہیں ہیں اس لیے اس پر بہت قیاس آرائیاں کی گئی ہیں –
امیل بوراک نامی سائنس دان نے سب سے پہلے ہمیں ڈے ژا وو کی ترکیب سے روشناس کرایا – یہ فرانسیسی زبان کا لفظ ہے اور اس کا لفظی مطلب ہے 'پہلے سے دیکھا ہوا' – اب تک اس کی توجیہہ کے لیے 40 سے زیادہ مفروضات پیش کیے جاچکے یہں – نیورو سائنس، دماغ کی امیجنگ کی ٹیکنالوجی اور سائیکالوجی میں ترقی کی وجہ سے اب بہت سے مفروضات کو رد کیا جاچکا ہے – آئیے اس ریسٹورانٹ کی مثال استعمال کرتے ہوئے ان تین مفروضات پر نظر ڈالتے ہیں جو آج کل زیادہ معتبر مانے جاتے ہیں
پہلے مفروضے کو ڈبل پراسیسنگ کہا جاسکتا ہے – فرض کیجیے ریسٹورانٹ میں ایک ویٹر کے ہاتھ سے ایک ٹرے گر جاتی ہے – جب اس نظارے کے بارے میں انفارمیشن آپ کے دماغ تک پہنچتی ہے تو دماغ کے مختلف حصے اس انفارمیشن کو پراسیس کرتے ہیں – آپ ویٹر کے بازو دیکھتے ہیں، اس کا مدد کے لیے پکارنا سنتے ہیں، اور کھانے کی خوشبو سونگھتے ہیں، یہ تمام انفارمیشن ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں دماغ کے مختلف راستوں سے گذرتی ہے جسے دماغ پراسیس کر کے ان کے تانے بانے جوڑ کر شعور کو ایک مربوط تجربہ فراہم کرتا ہے – عموماً دماغ مختلف حسیات کو جوڑ کر انہیں مربوط لمحوں میں سمونے میں کامیاب رہتا ہے لیکن کبھی کبھار دماغ کے کسی ایک راستے سے گذرتی انفارمیشن کی رفتار باقی راستوں کی نسبت کچھ سست ہوجاتی ہے – چنانچہ شعور میں یہ انفارمیشن اس سے متعلقہ باقی انفارمیشن کی نسبت دیر سے پہنچتی ہے چنانچہ دماغ اسے غلطی سے ایک علیحدہ واقعہ سمجھ بیٹھتا ہے – جب یہ انفارمیشن دوسری راستوں سے پہنچی انفارمیشن کے بعد شعور میں پہنچتی ہے تو شعور میں یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ یہ انفارمیشن دماغ مین پہلے بھی موجود ہے –
دوسرا مفروضہ اسے حال کی غلطی کی بجائے 'ماضی' کی الجھن بتلاتا ہے – اسے hologram theory کہا جاتا ہے – اسے بیان کرنے کے لیے ہم میز پر پڑے میزپوش کی مثال لیتے ہیں - جب آپ اس کپڑے پر بنے پیٹرن کو دیکھتے ہیں تو اس پیٹرن سے دماغ میں اس سے ملتی جلتی کوئی پرانی یاد جاگ اٹھتی ہے – یہ مفروضہ اس کی وجہ یہ بتلاتا ہے کہ دماغ میں یادیں ہولوگرام کی طرح ہوتی ہیں – ہولوگرام کے ایک چھوٹے سے حصے میں بھی پوری تصویر دیکھی جاسکتی ہے - ہو سکتا ہے کہ آپ کے دماغ نے میز پوش سے آپ کی دادی جان کے گھر سے جڑٰی ایک پرانی یاد کا ناتا جوڑ دیا ہو – البتہ چونکہ یاد کا کنکشن کمزور ہے اس لیے آپ کو یہ تو یاد آ جائے گا کہ یہ پیٹرن دیکھا بھالا لگتا ہے لیکن یہ شاید یاد نہ آئے کہ یہ پیڑرن آپ نے دادی جان کے گھر میں دیکھا تھا – دوسرے لفظوں میں آپ کے دماغ نے ایک پرانی یاد ڈھونڈ نکالی ہے لیکن یہ یاد کہاں کی ہے یہ آپ کے شعور میں واپس نہیں آیا – اس سے آپ کو یہ تو محسوس ہوتا ہے کہ یہ پیٹرن جانا پہجانا ہے لیکن یہ یاد نہیں آتا کہ کیوں – آپ کو بس یہی احساس ہوتا ہے کہ اگرچہ آپ اس ریسٹورانٹ میں پہلی دفعہ آئے ہیں لیکں آپ نے یہ ٹیبل کلاک پہلے بھی دیکھ رکھا ہے
ذرا اس کانٹے کی طرف تو دیکھیے - ہمارا آخری مفروضہ 'نامکمل توجہ' ہے – اس مفروضے کے مطابق ڈے ژا وو اس وقت ہوتا ہے جب ہمارا دماغ ایک واقعہ دیکھ رہا ہوتا ہے لیکن اس کی توجہ ایک خاص چیز پر رہنے کی وجہ سے بٹ جاتی ہے – جب توجہ واپس اس واقعے کی طرف آتی ہے تو ہمیں یوں محسوس ہوتا ہے گویا ہم پہلے بھی یہاں آچکے ہیں – مثلاً ابھی آپ نے اس کانٹے کہ طرف توجہ دی تھی چنانچہ اس وقت آپ کی توجہ میز پوش یا ویٹر کی طرف نہیں تھی – اگرچہ آپ کا دماغ آپ کے بصری نظام سے تمام سگنلز کو پراسیس کر رہا تھا لیکن یہ پراسیسنگ شعوری نہیں تھی - جب آُپ کانٹے سے توجہ ہٹاتے ہیں تو اجانک آپ کو احساس ہوتا ہے کہ آپ یہی منظر پہلے بھی دیکھ چکے ہیں (اور یہ سج بھی ہے کہ ابھی ابھی آپ نے یہی منظر دیکھا تھا لیکن آپ نے توجہ نہیں دی تھی)
یہ تینوں مفروضات ڈے ژا وو کی عمومی خصوصیات کی وضاحت کرتے ہیں لیکن ان میں سے کوئی مفروضہ بھی حتمی ہونے کا دعویٰ نہیں کرتا – جب تک سائنس دان اس مظہر کی بہتر توجیہہ نہیں کر پاتے اس وقت تک ہم ڈے ژا وو کو خود سے سٹڈی کر سکتے ہیں – یوں بھی ڈے ژا وو کے زیادہ تر قصے لوگوں کی زبانی ہی سننے کو ملتے ہیں – ان میں آپ کا قصہ بھی شامل ہوسکتا ہے – آئیندہ آپ کو کبھی ڈے ژا وو کا تجربہ ہو تو کچھ لمحے رک کر اس کے بارے میں سوچیے گا – کیا آپ کی توجہ بٹی ہوئی تھی؟ کیا آپ نے کوئی مانوس چیز دیکھی – کیا آپ کو اپنا دماغ سست روی کا شکار لگتا ہے – یا یہ کچھ اور ہی چیز ہے
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں