بارہواں باب
انجیل جنت کے حاصل کرنے کے بارے میں بتاتی ہے لیکن یہ نہیں بتاتی کہ وہ کیسے بنی۔
- کارڈینل بیرونس ، گلیلیو نے اپنے مقدمے کے دوران اسی بات کو دہرایا
عدم کے بجائے وجود کیوں ہے؟ وہ افراتفری جو مابعد طبیعیات کے کارخانے کو بغیر رکے بغیر ایک تسلسل سے چلا رہی ہے اس کے چلنے سے یہ خیال ذہن میں آتا ہے کہ دنیا کے وجود میں آنے کا امکان اس کے وجود میں آنے کے امکان ہی جتنا ممکن تھا ۔
- ولیم جمیز
سب سے خوبصورت تجربہ جو ہم کر سکتے ہیں وہ اسراریت کا ہے۔ یہ بنیادی جذبات ہیں جو سچی سائنس اور سچے فن کے اوپر کھڑے ہوئے ہیں۔ اگر کوئی اس کو نہ جانے اور مزید حیران نہ ہوئے، مزید مداح سرائی نہ کرے وہ مردے کے برابر ہے اور اس کی آنکھیں بند ہیں۔
- البرٹ آئن سٹائن
1863ء، تھامس ایچ ہیگزلے نے لکھا، " انسانیت کے لئے تمام سوالوں کا سوال، دوسری تمام چیزوں کے پیچھے موجود سبب اور کسی بھی دوسری چیز سے زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ قدرت میں انسان کے مقام اور کائنات سے اس کے رشتے کے تعلق کا تعین کرنا ہے۔"
ہگزلے "ڈارون کے کتے" کے نام سے مشہور تھا، وہ آدمی جو بے باکی سے انگلستان کی بنیاد پرست وکٹورین حکومت سے نظریہ ارتقا کا دفاع کرتا تھا۔ انگلستان کا سماج فخر سے انسانیت کو تخلیق کے مرکزی کردار کے طور پر دیکھتی تھی؛ وہ نظام شمسی کو نہ صرف کائنات کا مرکز سمجھتی تھی بلکہ انسانیت کو خدا کی سب سے بہترین تخلیق قرار دیتی تھی - خدا کی دستی صنّاعی کی معراج ۔وہ سمجھتی تھی کہ خدا نے ہمیں اپنے پرتو کی شکل میں پیدا کیا۔
کھلے عام اس مذہبی قدامت پسندی کو للکار کر ہگزلے کو ڈارون کے نظریئے کا دفاع مذہبی استعمار کی توپوں سے کرکے ہمارے کردار کو حیات کے شجر میں مزید سائنسی انداز میں سمجھنے کے لئے مدد تیار کرنی تھی۔ آج ہمیں احساس ہے کہ سائنسی دیو نیوٹن، آئن سٹائن اور ڈارون نے کائنات میں ہماری صحیح حیثیت کے تعین کے لئے بروقت مخلصانہ کام کیا ہے۔
ان میں سے ہر ایک نے ہماری کائنات میں کردار کے تعین کے لئے اپنے کام کے مضمرات نظری اور فلسفیانہ طور پر قابو میں کئے۔ پرنسپیا کے اختتام پر نیوٹن نے اعلان کیا، "سب سے خوبصورت سورج، سیاروں اور دم دار تاروں کا نظام صرف صلاح مشورے سے کوئی حکیم و قدیر ہستی سے ہی وجود میں لا سکتی ہے۔" اگر نیوٹن نے قانون حرکت دریافت کر لیا تھا تب لازمی طور پر کسی آسمانی قانون ساز کو موجود ہونا چاہئے تھا۔
آئن سٹائن بھی اس کے وجود کا قائل تھا جس کو کو "قدیم" کہتا تھا، تاہم وہ انسانوں کے معاملات میں دخل اندازی نہیں کرتا تھا۔ اس کا مقصد خدا کی تقدیس کرنے کے بجائے " خدا کی حکمت کو جاننا تھا۔" وہ کہتا، " میں جاننا چاہتا ہوں کہ خدا نے کس طرح سے یہ جہاں بنایا۔ میں کسی مظہر میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ میں خدا کا ارادہ جاننا چاہتا ہوں۔ باقی تو صرف تفصیلات ہیں۔" آئن سٹائن نے اپنی دینیات سے شدید دلچسپی کو یہ اختتام کرتے ہوئے واضح کیا،
تاہم ڈارون کائنات میں انسانیت کے کردار پر بے بسی سے منقسم تھا۔ ہرچند ڈارون وہی تھا جس نے انسانیت کو حیاتیاتی کائنات کے مرکز کی بادشاہت سے بے داخل کیا تھا۔ اس نے اپنی آپ بیتی میں تسلیم کیا کہ "شدید مشکلات یا اس زبردست اور حیران کن کائنات کی تخلیق کے ناممکن کے بجائے بشمول انسانیت کی ماضی میں واپس جانے اور مستقبل میں جھانکنے کی قابلیت خالص موقع یا اندھی ضرورت کا نتیجہ ہے۔" اس نے اپنا دوست کو بتایا، " میری دینیات تو صرف خراب ہے۔"
بدقسمتی سے "انسان کا قدرت میں مقام اور اس کا کائنات سے رشتے کا تعین" خطرات سے بھرپور ہے بطور خاص ان لوگوں کے لئے جنہوں نے بنیاد پرست ضدی حکمرانوں سے مبارزت طلب کرنے کی جرات کی۔ یہ کوئی اتفاق کی بات نہیں تھی کہ نیکولس کوپرنیکس نے اپنی شاہکار کتاب " فلکی کروں کی گردش پر" کو بستر مرگ پر 1543ء میں سخت طویل علالت میں لکھا۔ یہ لازم تھا کہ گلیلیو جس کو اس کے میڈیچی خاندان کے طاقتور مربی نے کافی عرصے تک اپنی حفاظت میں رکھا ، بالآخر ویٹی کن کے غضب کا شکار ہو کیونکہ اس نے ایک ایسے آلے یعنی دوربین کو مقبول بنا دیا تھا جس نے کائنات کو ایسے آشکار کیا تھا کہ وہ چرچ کی تعلیمات کے سیدھا مخالفت پر آگیا تھا۔
سائنس، مذہب اور فلسفے کے آمیزے نے اصل میں ایسی طاقتور ہانڈی پکا دی تھی جو ایسی دھماکہ خیز تھی کہ عظیم فلاسفی جیارڈانو برونو کو روم کی گلیوں میں اس لئے جلا دیا گیا کہ اس نے اپنی اس خیال کی نفی کرنے سے انکار کر دیا تھا کہ آسمان میں لاتعداد سیارے موجود ہیں جہاں لامتناہی تعداد میں ہستیاں رہتی ہیں۔ اس نے لکھا، "پس اس طرح خدا کا شرف بڑھتا ہے اور اس کی سلطنت کی عظمت عیاں ہو گئی؛ اس کی عظمت صرف ایک سورج میں نہیں ہیں بلکہ لاتعداد سورجوں میں ہے؛ اکلوتی زمین میں نہیں، ایک اکیلے جہاں میں، بلکہ ہزار ہزار جہانوں میں ہے، میں تو کہوں گا کہ لاتعداد جہانوں میں ہے۔"
گلیلیو اور برونو کا گناہ یہ نہیں تھا کہ انہوں نے خدا کے سماوی قوانین کو للکارا تھا؛ ان کا گناہ یہ تھا کہ انہوں نے انسانیت کی وقعت کو کائنات کے قلب سے اٹھا کر پھینک دیا تھا۔ ویٹی کن کی گلیلیو سے بعد از وقت معذرت کو بھی 1992ءتک آنے میں مزید 350 برس لگے۔ برونو سے تو کوئی معذرت اب تک نہیں کی گئی۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں